ہماری حکومت بظاہر اس بات پر خاصی خوش دکھائی دیتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے کی امید پیدا ہو رہی ہے۔ ایک تو صدر امریکہ اور ہمارے وزیر اعظم کی وہ گفتگو پس منظر میں ہے جس کا امریکہ کے ٹاک شوز میں مذاق بھی اڑایا گیا اور ساتھ ہی تسلیم بھی کیا گیا کہ ایسی بے احتیاط گفتگو ٹرمپ صاحب ہی کر سکتے تھے۔ بھارت میں البتہ اس واقعے کو ایک ڈپلومیٹک سکوپ کہا گیا۔ بھارت ہمارا دشمن ملک ہے، اس کی طرف سے اگر تعریفی کلمات سامنے آئیں تو چوکنا رہنا چاہیے، لہٰذا اس ڈپلومیٹک سکوپ کو اہمیت نہیں دینی چاہیے، خاص طور پر وائٹ ہائوس کے اس تفصیلی بیان کی روشنی میں جو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیلیفون گفتگو کے بعد جاری ہوا تھا۔ اب کچھ خبریں ایسی بھی آئی ہیںکہ ہمارے خارجہ حکمت عملی کے مرد میدان طارق فاطمی صاحب نے ٹرمپ انتظامیہ کے کچھ اہم لوگوں کے ساتھ اپنے دورہ امریکہ کے دوران انتہائی اہم بات چیت اس شرط پر کی تھی کہ ان عہدیداروں کی شناخت ظاہر نہیں کی جائے گی، یہ بات بھی اب تک اندھیروں میں لپٹی ہوئی ہے۔
جو کچھ روز روشن کی طرح ہر ایک کو دکھائی دے رہا ہے وہ یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں جرنیلوں پر مشتمل ان کی ٹیم کو کرۂ ارض پر فوری طور پر ایک دشمن کی تلاش ہے جس کے خلاف ایکشن شروع کیا جا سکے۔
دشمن کے طور پر جو نام لیا جا رہا ہے وہ اسلام کا نام لیا جا رہا ہے۔ یہ تو ڈان کیوٹے(Don Quixotre) کے ونڈمل (Windmill) پر حملہ کرنے والی بات معلوم ہوتی ہے کیونکہ دوسری جنگ عظیم میں تو نازی جرمنی اور جاپان امریکہ کے دشمن تھے۔ بعد ازاں سرد جنگ کے زمانے میں سوویت یونین کے خلاف لڑائی تھی۔ اب تیسری لڑائی اسلام سے کرنے کا ارادہ ہے۔ اسلام کوئی ملک تو نہیں ہے، ایک آفاقی مذہب ہے، اس سے کیسے جنگ کریں گے؟ یہ دیکھنے کی بات ہو گی۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک سوال کے جواب میں کہا:
I think, Islam hates us یعنی میرا خیال ہے کہ اسلام کو ہم سے نفرت ہے۔ یعنی موصوف نے Radical Islam یعنی اسلامی انتہا پسند کہنا بھی گوارا نہ کیا اور پوچھنے پر بولے بھئی اسلام اور انتہا پسند اسلام کو الگ الگ کرنا بہت مشکل کام ہے کیونکہ کچھ پتا نہیں چلتا کون کیا ہے؟
اس وقت امریکی صدر کا یہ mindset ہے۔ اس صورت حال میں جو مسلمان ملک ٹرمپ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں ان میں واضح طور پر تو مشرق وسطیٰ کے وہ اہم ممالک ہیں جنہوں نے سات اسلامی ملکوں کے لوگوں کی امریکہ داخلے پر پابندی کے امریکی صدر کے حکم کو سراہا، اس کو جائز قرار دینے میں ہمارا ملک بھی شامل ہے۔
وزیرداخلہ نثار علی خاں کا ایک بیان مخالفت میں تھا مگر موصوف کے بیان کو کم ہی پاکستان کی پالیسی کا ترجمان سمجھا گیا ہے، لہٰذا اسے بھول جائیں تو بہتر ہے۔ نظر رکھیں تو فاطمی صاحب اور فارن آفس پر! امریکہ میں فاکس ٹیلی وژن نیٹ ورک یہ رپورٹ نشر کر چکا ہے کہ اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی کارروائی میں مدد دینے والے پاکستانی ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی کے لیے اندرون خانہ پاکستان سے بڑی مثبت بات چیت جاری ہے اور اس برس مئی تک شکیل آفریدی کو رہا کر دیا جائے گا۔ یہ کام جس طریقے سے بھی ہوگا، ہمارے لیے رسوائی ہی لائے گا، لیکن ہم اس رسوائی کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔ بہرحال ہماری حکومت کو تھوڑا آسرا مل جائے گا۔ تھوڑا اس لیے کہ ٹرمپ انتظامیہ کو ری پبلکن پارٹی کے انتہائی اہم تھنک ٹینک یہ مشورے دے رہے ہیں کہ پاکستان کو قابو کرنے کے لیے اس ملک پر یہ خطرہ طاری رکھو کہ اس کو دہشت گردی کو بڑھاوا دینے والا ملک قرار دلوا کر بین الاقوامی پابندیاں لگا دی جائیں گی اور پھر آہستہ آہستہ اپنی باتیں منواتے جائو۔
ہمارے لیے تسلی کا پہلو صرف ایک ہے کہ ہماری فوجی اسٹیبلشمنٹ بہت چوکنا رہتی ہے اور وہ سیاسی حکومت کو رسوا ہونے سے تو نہیں بچا پائے گی لیکن کوئی ایسا کام بھی نہیں کرنے دے گی جس سے ہمارے اقتدار اعلیٰ کی سرخ لکیر عبور ہوتی ہو۔
جس تیزی سے ٹرمپ انتظامیہ دنیا میں کوئی ایسا دشمن ڈھونڈ رہی ہے جو اسلامی بھی ہو اور اس پر اسلحہ بھی استعمال ہو سکتا ہو، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جلدی میں جو فیصلہ بھی ہو گا وہ غلط ہی ہوگا۔ ہم البتہ اس فیصلے میں بھی امریکہ کے نان نیٹو اتحادی رہیں گے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کو یاد کریں تو واضح تصور ملتا تھا کہ
وہ ایسی خارجہ حکمت عملی اپنائیں گے جو دیگر ملکوں میں مداخلت سے گریز کرے گے۔ موصوف صرف داعش کو برباد کرنے کی بات کرتے تھے، مگر اب جو جرنیل جمع کر لیے ہیں وہ تو کچھ نہ کچھ کرکے رہیں گے، اور پھر ساتھ ہی ٹرمپ صاحب نے یہ بھی فرمایا ہے کہ امریکی فوج کو مزید مضبوط کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ اب آپ سوچ لیں کہ حالات کس طرف جا رہے ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کے وزیر خارجہ Rex Tillerson نے تجویز دی ہے کہ امریکہ کو چاہیے کہ وہ عوامی جمہوریہ چین کو ان جزیروں تک جانے سے روکے جو چین نے خصوصی طور پر بحیرہ جنوبی چین میں بنائے ہیں۔ امریکہ کا ایسا کرنا چین کے خلاف اعلان جنگ ہوگا، تو مطلب یہ کہ اسلام کے ساتھ ساتھ چین بھی ایک طرح دشمنوں کی صف ہی میں ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ میں پالیسی کے حساب سے اہم ترین پوزیشن نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر کی ہے۔ اس عہدے پر Micheel Flynn تعینات ہیں جو ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ہیں۔ وہ انتہا پسند اسلام اور اس کے اتحادیوں کی سرکوبی کرنے کے طریقوں پر اپنے ایک ہم خیال ساتھی کی مدد سے پوری ایک کتاب لکھ چکے ہیں۔
اس کتاب میں Flynn صاحب کے خیالات اس قدر ڈرائونے ہیں کہ میں ان کا ذکر بھی نہیں کرنا چاہتا۔ جو جاننا چاہتے ہوں وہ گوگل کریں تو اس کتاب تک بآسانی رسائی ہوجائے گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ جو اس بات کی شہرت رکھتے ہیں کہ وہ کتابوں وغیرہ سے دور ہی رہتے ہیں، انہوں نے امریکیوں سے کہا ہے کہ وہ Flynn کی ریڈیکل اسلام کے خلاف کتاب ضرور پڑھیں۔ اس کتاب کی صرف ایک بات سن لیِں۔ Flynn کہتے ہیں عالمی جنگ میں جو بھلے سو سال جاری رہے، ہمیں ہر قیمت پر جیتنا ہوگا، کیونکہ اگر ہم ہار گئے تو ہمیں ایسی حکومتوں کے تحت رہنا ہو گا جو نازی جرمنی کی یا پھر کے جی بی کے تحت مطلق العنان حکومتوں جیسی ہوں گی، لہٰذا کسی طرح بھی ہو یہ عالمی جنگ جیتیں، یعنی بالکل ہی تصوراتی دشمن۔ سمجھ سے باہر ہے کہ کون امریکہ کو ختم کرنا چاہتا ہے؟ پھر عالمی جنگ؟ اب بندہ پوچھے کون سی عالمی جنگ؟ امریکی قوم بالکل تیار نہیں ہے کہ اپنے جوانوں کو باہر لڑنے کے لیے بھیجے کیونکہ گزشتہ سترہ برسوں میں ہزاروں امریکی ہلاک اور ان سے کئی گنا زیادہ زخمی اور ذہنی طور پر انتشار کا شکار ہیں۔ لیکن جنہوں نے لڑنا ہوتا ہے وہ کچھ کر لیتے ہیں۔ آج کل ٹرمپ انتظامیہ دشمن ڈھونڈ رہی ہے، نہ ملا تو پیدا کر لیا جائے گا۔ ظاہر ہے صدام حسین کو زبردستی دشمن بنانے والے طریقہ تو نہیں دہرایا جائے گا جس کے دوران تباہی پھیلانے والے ہتھیار عراق میں ڈھونڈ لیے تھے۔ اب کوئی نیا طریقہ ہو گا۔ اب دیکھیں کیا طریقہ اختیار کیاجاتا ہے اور اسلام سے دشمنی کے نام پر کس کو نشانہ بنایا جاتا ہے یا پھر چین سے چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے۔ داعش کے بارے میں بیانات تو بہت دیے مگر سوچ کے دھارے بظاہر دوسری سمتوں میں بہتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایک اقدام جو یمن میں کیا گیا ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ اقدام انتہائی ظالمانہ ہوں گے۔ یمن میں بچے اور عورتیں ہلاک کرنے کے بعد کہا گیا کہ یہ کارروائی انتہائی سوچ سمجھ کر کی گئی تھی۔ بس اب دشمن مل جائے پھر وہ بے چارہ ایسی سوچی سمجھی کارروائیوں کا نشانہ بنے گا اور ہم؟ ہم تو بھئی شروع ہی سے اتحادی ہیں، اتحادی رہیں گے۔