تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     10-02-2017

مٹھی بھر منصف

کرہ ّارض پر جدید عدالتی نظام، چاہے نہ چاہے سیاست اس کے اندر جھانکتی رہتی ہے ۔ظاہر ہے جیسا مُلک ہوگا اس کھڑکی کا سائز اوراندر جھانکنے والوں کی رفتار اُسی حساب سے طے ہوگی۔کہیںکُھلے پٹ اورکسی جگہ بھول بھلیاںہیں۔ 
اسی مہینے امریکہ کی جدید تاریخ میں دنیا کا دوسراسب سے بڑاکیس عدالت میں جاپہنچا ۔لاوارث مہاجروں کی شُنوائی ہوئی۔عدالت نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے 45ویں صدر کا ایگزیکٹوآرڈرمعطل کردیا۔ ظاہر ہے امریکہ کاصدرامریکی شہری ہی ہے۔ امریکی صدر کے مقابلے میں دیس پردیس کے تارکینِ وطن تک اس عدالتی فیصلے کاریلیف پہنچا۔ آج دنیا کی سب سے طاقتورریاست کے سب سے طاقتورصدر کے خلاف بند کمرے میں بیٹھے مٹھی بھر فاضل جج حضرات نے ثابت کردیا قانون سے بالاترکوئی نہیں ۔نہ ہی جمہوریت۔نہ الیکشن،نہ ووٹ ،نہ چیف ایگزیکٹو ،نہ پارلیمنٹ ،نہ مینڈیٹ ،نہ ایگزیکٹو اتھارٹی کے غیر قانونی کام ۔سب پر قانون کی بالادستی موجود ہے۔اس کا ایک اور پہلو یہ ہے ،نئے امریکی صدرکو اس ہفتے میں عدل وانصاف کے اپیلیٹ فورم سے بھی منہ کی کھانی پڑی ۔لیکن امریکی نظامِ جمہوریت کی کافرانہ اداتودیکھیں۔کسی نے نہیں کہاامریکہ کے قائد جناب ڈی جے ٹرمپ صاحب کا ــ ـ ''ٹریول بینـ ـ ‘‘ کھلی کتاب ہے ۔ نہ یہ کہا اس میں امریکہ کی جمہوریت کا خون شامل ہے نہ ہی کورٹ آف اپیل کوآنکھیں دکھائی گئیں۔نہ ہی کابینہ کاکوئی رکن بولا کہ امریکی صدر ــ ـ ــلوہے کاچنا ہے ۔ حالانکہ ایک اور ایگزیکٹوآرڈرکے ذریعے ڈی ۔جے ٹرمپ نے امریکہ میں لوہے کے سب سے بڑے تاجروں کاسرحدپار کاروبار ٹھپ کر کے رکھ دیا ہے ۔ اس کے لیے ایک علیحدہ سے ایگزیکٹو آرڈر جاری کرکے ٹرمپ نے ملکی سٹیل انڈسٹری کونئی زندگی دے ڈالی۔ مذکورہ ایگزیکٹوآرڈرکہتا ہے۔ امریکہ میں بننے والا سارا پائپ آئندہ امریکی لوہے سے تیارہوگا۔ جبکہ درآمدشدہ لوہے سے امریکہ میں پائپ بنانے کی اجازت نہیں ہوگی ۔اس فیصلہ کی روشنی میں امریکی لوہے کی حدتک ڈی جے ٹرمپ یااس کی کابینہ کوکم از کم'' لوہے کاچنا ‘‘کہلانے کا حق آسانی سے مل گیا ہے ۔امریکی نظامِ عدل کے بڑے گھرسے غیرامریکی اور غیر مذہب دنیاسے تعلق رکھنے والے غیر متعلقہ لوگوں کوانصاف دینے کے بعد امریکہ کی دونوں عدالتیں دنیا ئے قانون وانصاف میںہیروکہلانے کی حقدارٹھہریں ۔اگرکوئی ان جج حضرات کاشکریہ اداکرے توشاید وہ ناراض ہوجائیں گے ۔یہ جج قومی خزانے سے تنخواہ لے کرڈیوٹی کرتے ہیں ۔ ویسٹرن ڈسٹِرکٹ آف واشِنگٹن کے یوایس ڈسٹِرکٹ کورٹ کے فیڈرل جج جیمز روبارٹ کے فیصلے ٹی وی پر دکھائے گئے۔ ساتھ ساتھ انصاف کے ان بڑے "آئی کون "کے پیشہ وارانہ کیریئر کا ایک اور پہلوہائی لائٹ ہوا اوروہ یہ کہ ان میں سے کون سے امریکی جج کو کس صدر کے زمانے میں جج بنایاگیا ۔
ہمارے ہاں کس کے دور میں کون سا فاضل منصف بینچ پر پہنچااس پر بھی سیاست ہوتی ہے ۔حال ہی میں ایک انتہائی قابل احترام جج صاحب کے حوالے سے بھی ایسی ہی ڈرٹی پا لیٹکس ہوئی ۔ایسے میں مجرموں کے کارٹل عدالتوں کوزیردبائو لانے کے لیے ہر حربہ آزماتے ہیں۔پاکستان میں سپریم کورٹ پر حملہ اِس سلسلے کی بدترین مثال ہے۔ان دنوں پھر بقول خورشید شاہ ملک کی اعلی ترین عدلیہ حملے کی زد میں ہے اس کے باوجو د بھی مجھے کہنے میں کوئی عا ر نہیں کہ ایساہرحملہ کرپشن کی آہنی دیوار توڑنے کا باعث بنے گا۔ بینچ اوربار ایسے ہرحملے کے خلاف عدل گُستری کی راہ میں شانہ بشانہ کھڑے ہونگے۔اگلے روز نئے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار نے عوام کونئی امید دلائی کہاسپریم کورٹ کرپشن کے خاتمے اوراحتساب کا نظام قائم کرنے کے لیے اپنے اختیارات بڑھاسکتی ہے ‘گھٹانہیں سکتی۔پاکستان میں قومی وسائل بینک اور خزانہ چوری کرکے اسے باہر منتقل کرنے والے ہمیشہ ٹیکنیکل فیصلوں کے ذریعے عدالتی انصاف سے بچ نکلے ۔کون نہیں جانتاکہ ٹیکنیکل فیصلے کروانے کے لیے ہمیشہ خاص تکنیک آزمائی گئی ۔اس لیے پاکستان میں 20,000/-کی بجلی کے بل کاڈیفالٹر الیکشن لڑنے کے لیے نااہل ہو جاتا ہے ۔لیکن 20ارب قرضہ ہڑپ کرنے والا اہل قرارپاکر اسمبلی میں جابیٹھتاہے ۔اسمبلیوں میں کئی قسم کے لوگ بیٹھے ہیں جن میں سے ایک قسم پر سندھ کے آئی جی مسٹر خواجہ نے بھی تبصرہ کیا ۔کہا کراچی میں امن بحال کرنے والے پولیس افسران کے قاتل بڑے ایوانوں میں بیٹھے ہیں۔بات ہورہی تھی امریکہ کی جہاں ایک غصیلا شخص اقتدارمیں آیاہے ۔ڈی جے ٹرمپ سینئر سٹیزن ہے ۔اس سے پہلے ایک اور سینئر سٹیزن رونلڈریگن بھی امریکی صدربنے۔یہ مزاحیہ لطیفے سنانے والاصدرتھا۔مذاق ہی مذاق میں رونلڈ ر یگن نے چارلی ولسن کی لڑائی چھیڑ دی اوردنیا کے امن کواصلی مذاق بنا کر ر کھ دیا ۔ جس کی ابتداء افغانستان سے ہوئی ۔رونلڈ ریگن کے ناقدین کہتے ہیں کہ اس نے دوسراالیکشن ان ہی لطیفوں کے بَل پرجیتاتھا۔
رونلڈ ریگن کے زمانے میں روس میں گاڑی خریدنا خاصا مشکل تھا ۔ایڈوانس رقم جمع کرانے کے 10سال کے انتظارکے بعد گاڑی ملاکرتی ۔ رونلڈ ریگن اکثر گاڑی کی کہانی لطیفے کے طور پر سناتا ۔کہانی کے مطابق ایک روسی شہری گاڑی خریدنے کے لیے رقم اداکرتا ہے۔ اس کو کہا جاتاہے کہ ٹھیک دس سال بعد آئواورگاڑی لے جائو۔ تویہ خریدار پوچھتا ہے صبح کے وقت آئوں یاشام کو۔۔۔؟ توکائونٹر کے پیچھے بیٹھے صاحب پوچھتے ہیں دس سال کے انتظارکے بعد آنا ہوگا اس سے کیا فرق پڑتا ہے صبح ہویاشام ۔۔۔ ؟ خریدارکہنے لگا دراصل صبح کو میرے پلمبر نے آناہے ۔ رونلڈ ریگن نے یہ کہانی سنا کر ہمارے جیسے تر قی پذیر ملکوں پر طنز کیا اور ساتھ ساتھ روس کو بھی بیوقوف ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ایک اور کہانی میں امریکی اور روسی اپنے اپنے ملکوں کے نظام کے بارے میں بحث کررہے تھے۔ امریکی نے کہا دیکھو میرے ملک میں اگر میں چاہوں تو Oval officeمیں داخل ہوکر امریکی صدرکی میز پر مکا مار کریہ کہہ سکتا ہوںکہ جناب صدر آپ جس طرح امریکا کو چلا رہے ہیں میں اس سے متفق نہیں ہوں ۔ روسی شہری بولا میں بھی ایسا ہی کر سکتا ہوں ۔ امریکی نے حیران 
ہو کر پوچھا کیا واقعی ۔۔۔؟ تو روسی شہری بولایہ تو میں بھی ایسا ہی کرسکتاہوں۔امریکی نے حیران ہو کر پوچھا واقعی ۔۔۔؟توروسی بولا ہاں میں کریملن جاکر اپنے سیکرٹری جنرل گورباچوف کے دفترمیں گھس سکتا ہوںپھر میں گورباچوک کی میز پر مُکامارکرکہہ سکتا ہوں کہ جناب سیکرٹری جنرل جس طرح رونلڈ ریگن امریکہ کو چلا رہا ہے ۔میں اس سے متفق نہیں ان امریکی لطیفوں میں سے روس مخالف سیاست کی بوآتی ہے ۔ دراصل یہ لطیفے رونلڈ ریگن کے نہیں تھنک ٹینک کے بنے ہوئے تھے ۔جن سے یہ بات ظاہر کرنا مقصود تھا کہ امریکہ بادشاہ ہے ۔روس پیادہ اورباقی سارے کمی کمین ۔
دوسری جنگ ِ عظیم کے فاتح چرچل کایہ قول ہم ہر روزدہراتے ہیں کہ اگر برطانیہ کی عدالتیں کھلی ہیں ،انصاف دے رہی تو برطانیہ کو کوئی خطرہ نہیں انصاف کامطلب مکھی پرمکھی مارنا نہیں ہوتا۔ بھاری فائل میںموجود ریکارڈ سے کلرکی کرنا عدل نہیں کہلا سکتا۔ 70سال ہوچلے ہماراسیکھناہی ختم نہیں ہورہا۔ماڈل ٹائون کے مقدمہ میں کہا گیا کہ 3عددماسٹر مائنڈ کے خلاف شہادت نہیں۔ کیاجسٹس باقرنجفی کمیشن رپورٹ ماڈل ٹائون کی شہادت نہیں۔ ATCعدالت لاہور ہائی کورٹ کے ماتحت ہے۔ عدالت جسٹس نجفی کمیشن رپورٹ منگوانے کے لیے درخواست کرتی توچیف جسٹس منصور علی شاہ جیسا عادل جج رپورٹ عدالت کوبھجوانے سے منع کیوں کرتے ۔جس شہر میں کیاگیا شہادت نا کافی ہے اس شہر کے اسی محلے میں شہادت رکھی ہوئی ہے ۔کیاہمارے لئے بھگت سنگھ اورشہید ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمات کا سبق کافی نہیں ۔
پاکستان دو راہے پر کھڑا ہے ۔ہم ایسا سماج ہیں جہاں قانون بڑوں سے شرماتا ہے اورچھوٹوں پر غراتا ہے ۔ہماری تاریخ گواہ ہے جہاں لوگ یقین کرلیتے ہیں کہ اب ان کو انصاف نہیں مل سکتا وہاں سے سٹریٹ جسٹس شروع ہو تی ہے ۔امریکہ کے جج نے کہا جن غیر ملکیوں کا امریکہ میں داخلہ روکناچاہتے ہو تو ان کے خلاف مواد پیش کرو۔مجھے یقین ہے ایسا منصف ساتھ والے کمرے میں 14قتل کے تائید ی اور تصدیقی ثبوت نظر انداز نہ کرپاتا ۔جج اورمنصف ہر ملک میں مٹھی بھر ہیں ۔عدل ہجو م میں نہیں ان ہی کے انصاف کے کمروں میں ہوتا اچھا لگتا ہے ۔ماڈل ٹائون کے بعد اگلا کمرہ امتحان پاناما کاہے۔ انصاف ہوتاہوا نظر آئے توتبھی اسے انصاف کہتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved