روسی صدر ولادی میر پیوٹن امریکی میڈیا اور اراکینِ مقننہ کے لئے کسی عفریت سے کم نہیں۔ نو منتخب صدر ڈونلڈٹرمپ کے سواسبھی انہیں بُرا بھلا کہہ رہے ہیں۔ روسی خطرہ اس وقت امریکہ کے سر پہ منڈلا رہا ہے اور اگر کسی کو کھُرے کھوجنے ہوں تو بات وائٹ ہائوس تک بھی پہنچ سکتی ہے۔میکسین واٹرز ایک افریقی النسل امریکی ہیں جو کیلی فورنیا سے کانگرس کی رکن منتخب ہوئی ہیں اور پچھلے ستائیس برسوں سے امریکی ایوانِ نمائندگان میں خدمات سرانجام دیتی آئی ہیں۔ انہوں نے اربابِ اقتدار کے سامنے حق گوئی کی جرأت کی ہے ، اور وہ اولین ڈیموکریٹ ہیں جنہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف باقاعدہ کاروائی شروع کر دی ہے۔ امریکی صدر کے بارے میں سی این این سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ '' یہ شخص مشکوک ہے۔ہم میں سے کئی لوگ اس شخص کے بارے میں،اس کے پس منظر کے بارے میں، اس کی حرکتوں کے بار ے میںکئی قسم کے شکوک رکھتے ہیں۔ اسی لئے اس کے بارے میں ہمیں مزید جاننا ہو گا ، اور ہو سکتا ہے کہ یہی امر اس کے مؤاخذے کا پیش خیمہ بن جائے۔‘‘ میکسین واٹرز پانچ صدور کے ما تحت کام کر چکی ہیں۔ 31جنوری کو انہوں نے ایوان میں ایک بل پیش کیا جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ٹرمپ کابینہ میں شامل ایسے تین وزرا ء کی تحقیقات ہونی چاہئیں جن کے مبینہ طور پر روس کے ساتھ قریبی روابط ہیں۔میڈیا کو انہوں نے بتایا کہ صرف دو ہفتوں میں ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے ایسے اقدامات کر لئے ہیں جن کی وجہ سے امریکہ کے حلیف ممالک پریشان ہیں، امریکی صدر ملکی اقدار کو للکار رہے ہیں، پورے ملک میں ان کے بیانات اور اقدامات‘ عدم استحکام اور افرا تفری کا سبب بن رہے ہیں۔ یہ تمام حالات صرف ایک انسان کے لئے خوش کن ہیں ، یعنی روسی صدر
ولادی میر پیوٹن!ایوان میں اقلیتی لیڈر نینسی پلوسی بھی کہتی ہیں کہ انہیں بھی جاننا ہے کہ روسیوں کے پاس آخر ڈونلڈ ٹرمپ کے بار ے میں ایسا کیا ہے؟ نئے صدر کے روس کے ساتھ مالی، ذاتی اور سیاسی روابط کی تحقیقات وہ چاہتی ہیں کہ ایف بی آئی کے ذریعے کرائی جائیں۔وہ کہتی ہیں کہ روسی صدر کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کے تعلقات کی حقیقت جاننے کے لئے امریکی صدر کی ٹیکس ادائیگیوں کا سارا حساب بھی دیکھنا پڑے گا۔عجیب بات یہ ہے کہ ابھی تک امریکی صدر کی جانب سے ان دونوںخواتین اراکینِ کانگرس کے خلاف کچھ بھی نہیں کہا گیا ۔ اپنی عادت کے برخلاف انہوںنے دشنام طرازی سے بھی گریز کیاہے۔ہو سکتا ہے فی الوقت وہ دیگر امور میں مصروف ہوں۔حالیہ پولز کے مطابق امریکیوں کی ایک بڑی تعداد مسلمان تارکینِ وطن اورپناہ گزینوں پہ ٹرمپ کی پابندیوں کی مخالفت کر رہی ہے۔امریکی صدر یہ ماننے کو قطعی تیار نہیں۔ اپنے ٹوئٹر اکائونٹ پہ انہوں نے کہا ہے کہ اس معاملے میں ہر منفی پول بالکل انہی پولز کی مانند جعل سازی کا پلند ہ ہے جو انتخابات کے دوران سی این این، اے بی سی اور این بی سی والے کیا کرتے تھے۔بقول ان کے عوام در حقیقت سرحدوں کی حفاظت اور انتہائی چھان بین کے حق میں ہیں۔پھر انہوں نے اپنے چیف سٹریٹجسٹ سٹیو بینن کے بار ے میں سوشل میڈیا پہ گردش کرنے والی خبروں پہ بھی برانگیختگی ظاہر کی۔ کئی لوگ سٹیو بینن کو اصلی صدر ٹھہراتے ہیں۔ اس بارے میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹویٹ کی کہ '' سبھی جانتے ہیں کہ میں مختلف ذرائع
سے حاصل کردہ اعداد و شمار کی بنیاد پہ اپنے فیصلے خود کرتا ہوں،جعلی خبر ساز ادارے جھوٹ پھیلا رہے ہیں۔‘‘ڈونلڈ ٹرمپ کو دی ٹائم میگزین کا سرورق دیکھ کر بھی بہت غصہ آیا تھا جس پہ "The Great Manipulator"کے عنوان کے تحت سٹیو بینن کا ایک خوفناک سا پورٹریٹ چھاپا گیا تھا، اوراندرونی صفحات پہ سٹیو بینن کے بارے میں ان لوگوں کی آراء درج تھیں جو برائٹ بارٹ نیوز میںموصوف کے ساتھ کام کیا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ سٹیو بینن اس کرئہ ارض پہ بد ترین مخلوق ہیں۔وہ سازشی نظریات کی ترویج کے لئے جانے جاتے ہیں۔عورتوں اور غیر اقوام کے حوالے سے اپنے پُر تنفر افکارکو فروغ دینے کے لئے وہ نظریاتی محرکات رکھتے ہیں۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ گزشتہ موسمِ گرما میں یہ خبریں گرم تھیں کہ برطانوی MI6کے ایک سابق اہلکار کرسٹوفر سٹیل نے چھتیس صفحات پہ مبنی ایک رپورٹ میں یہ انکشاف کیا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بارے میں کچھ قابلِ اعتراض مواد روسی حکومت کے قبضے میں ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ بات بھی جعلی خبر ٹھہرائی ہے
اور اس پہ بھی اپنے غصے کا اظہار کیا ہے۔ اس کے باوجود اعلیٰ سطحی حکومتی عہدیداروں، انٹیلی جنس اہلکاروں اور صحافیوں میںاسی خبر کا چرچا ہو رہا ہے۔ماہِ جنوری میں ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریبِ حلف برداری سے دس دن قبل سی این این نے بریکنگ نیوز کے طور پر یہ خبر چلائی تھی جس کے ایک گھنٹے بعد Buzzfeed نے بھی اپنی ویب سائٹ پہ یہ دستاویزات چھاپ دیں۔ مذکورہ الزامات کو البتہ اس نے '' غیر مصدقہ‘‘ ہی بتایا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کا جواب بھی ٹوئٹر پہ ہی دیا اور Buzzfeed کو ردی کا ٹوکرا قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کے چلانے والوں کو نتائج بھگتنا پڑیں گے۔امریکی کانگرس میں اس وقت ری پبلکن پارٹی کو برتری حاصل ہے۔ اسی لئے تو باوجود اس کے کہ امریکہ کی سترہ وفاقی انٹیلی جنس ایجنسیاں کہہ چکی ہیں کہ روس نے ڈیموکریٹک پارٹی کے لیڈروں کے ای میل اکائونٹ ہیک کرکے ڈونلڈ ٹرمپ کو جتوانے میں مدد دے کر امریکی انتخابات پہ اثر انداز ہونے کی سازش کی تھی، وہ لوگ مکمل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ دی نیویارک ٹائمز نے بھی اس ہفتے اپنے ایک ادارئیے میں ٹرمپ اور پیوٹن کے درمیان دوستانے کو تشویشناک ، فکر انگیز اور پریشان کن قرار دیا ہے، خاص طور پر اس لئے بھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ پیوٹن کو قاتل کہنے سے بھی احتراز کرتے ہیں۔فاکس نیوز کے ایک میزبان نے انٹرویو کے دوران جب اس حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ سے سوال کیا تو اسے انہوں نے یہ کہہ کر چُپ کرا دیا کہ ''کیا ہمارے اپنے ملک میں قاتلوں کی تعداد کوئی کم ہے؟ کیا ہمارا اپنا ملک بڑا ہی معصوم اور بے گنا ہ ہے؟‘‘ یہ آخری جملہ انہوںنے دو بار کہا تھا۔ اوول ہائوس میں اندرونی لڑائیوں ، اقتدار کی رسہ کشی اور بے ترتیبی کے بار ے میں جب نیویارک
ٹائمز نے ایک اور خبر چھاپی تو ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی اخبار پہ چڑھائی کر دی اور کہا کہ یہ لوگ ان کے خلاف جعلی ذرائع کے حوالے سے بات کرتے ہیں اورکہانیاں گھڑ رہے ہیں ، حالانکہ یہ وہی اخبار ہے جسے کچھ عرصہ قبل تک وہ خود ایک قیمتی ہیرا قرار دے رہے تھے۔ایک ریٹائرڈ جج اور '' فری سپیچ فار پیپل‘‘ کے صدر نے مل کر ٹائم میگزین کے لئے ایک مضمون تحریر کیا ہے جس میں توجیہات پیش کی گئی ہیں کہ کانگرس کو کیوں ڈونلڈ ٹرمپ کا مؤاخذہ کرنا چاہئے۔ان حضرات کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر کے طور پر بیرون ممالک سے مراعات و تحائف کے حصول کے حوالے سے امریکی دستور کی متعلقہ دفعات کی صریحاً خلاف ورزی کر رہے ہیں۔امریکی صدر ذاتی طورپر اپنا کاروبار بھی چلا رہے ہیںاور یہ امر اوول آفس میں فقید المثال کرپشن کی راہ ہموار کر چکا ہے۔ جواباً ڈونلڈ ٹرمپ اس قانون کو اپنے ناقدین کے منہ پہ مارتے ہوئے کہتے ہیں کہ '' میں سوفی صد اپناکاروبار چلا سکتا ہوں اور چیکوں پہ دستخط بھی کر سکتا ہوں کیونکہ قانون بالکل میرا ساتھ دیتا ہے، مطلب یہ کہ صدر کے مفادات متصادم نہیں ہونے چاہئیں۔ دوسری طرف پانچ لاکھ پچھتر ہزار افراد کانگرس کو درخواست کر چکے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مؤاخذے کی کاروائی شروع کی جائے کیونکہ ان کے مفادات کا تصادم واضح ہے اور مزید واضح ہوتا جا رہاہے۔روس کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کے مبینہ تعلقات اور ریاست کے ساتھ ان کے کاروباری مفادات کے تصادم سے زیادہ ججوں کے ساتھ ان کی جنگ انہیں مہنگی پڑ سکتی ہے۔ہو سکتا ہے کہ بڑے بے آبرو ہو کر وہ اوول ہائوس سے کُوچ کر جائیں!