تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     10-02-2017

انتخابی اصلاحات کا دھوکہ

دسمبر دوہزار پندرہ میں بلدیاتی انتخاب کی کوریج کرتے ہوئے سیالکوٹ میں دیکھا کہ جگہ جگہ تکے کباب کے سٹال لگے تھے اور ہر سٹال کے سامنے رکھی درجنوں کرسیوں میں بمشکل کوئی خالی ملتی تھی۔ پہلی نظر میں تو ایسا لگ رہا تھا کہ شایدتکے کباب یہاں کے شہریوں کی پسندیدہ غذا ہیں اسی لیے تکے بیچنے والوں کی بن آئی ہے۔میں نے دنیا ٹی وی کے مقامی نمائندے حامد سے مزاحاً کہا کہ لگتا ہے کہ اس شہر میں تکے کباب مفت ملتے ہیں اسی لیے ہر طرف لوگ یہی کھاتے نظر آرہے ہیں۔ حامد نے سادگی سے بتایا ،ـ'' آپ ٹھیک کہہ ہے ہیں، آج کل سیالکوٹ میں کے کباب مکمل طور پر مفت مل رہے ہیں۔ آپ کا دل چاہے تو بازار میں بیٹھ کر کھالیں یا پیک کروا کر گھر لے جائیںــ‘‘۔ میں نے حیرت سے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ تکے کباب کے جتنے بھی سٹال آپ دیکھ رہے ہیں دراصل بلدیاتی الیکشن لڑنے والوں کے انتخابی دفاتر ہیں اور یہاں اڑائے جانے والے تکے کبابوں کا بل کوئی نہ کوئی امیدوار برائے چیئرمین یونین کونسل ادا کررہا ہو گا۔ حامد کی بات میں کچھ مبالغہ لگا تو سامنے نظر آنے والے ایک سٹال کے قریب میں گاڑی سے اتر گیا۔ یہ سٹال یا دفتر تحریک انصاف کے ایک بلدیاتی امیدوار کا تھا۔ اس سے الیکشن کے بارے میں بات کرتے ہوئے تکے کبابوں کی بابت پوچھا تو اس نے نہ صرف حامد کی تائید کی بلکہ فخر سے یہ بھی بتایا کہ اس کے دفتر میں تو صبح سویرے حلوہ پوری کا ناشتہ بھی دستیاب ہوتا ہے۔ میں نے ہمدردی ظاہر کرتے ہوئے اس سے روزانہ کے اخراجات کے بارے میں پوچھا تو اس نے جیب سے ایک کاغذ نکال کر میرے حوالے کردیا جس کے مطابق امیدوار 
صاحب پچھلے پینتالیس دنوں سے روزانہ ایک لاکھ تیس ہزار روپے خرچ کررہے تھے اور اب تک اٹھاون لاکھ روپے خرچ کرچکے تھے۔ میں نے دبے لفظوں میں انتخابی اخراجات کی حد مقرر کرنے والے قوانین کی طرف توجہ دلائی تو اس نوجوان سیاستدان نے ہنس کر میری طرف دیکھا اور بولا،''چھوڑیں حبیب صاحب آپ بھی کمال ہی کرتے ہیں، یہاں کون پوچھتا ہے کہ الیکشن میں کتنا پیسہ لگا ہیـ‘‘۔ یہاں سے نکل کر مسلم لیگ ن کا انتخابی دفتردیکھا تو وہاں کا ماحول ہی الگ تھا۔ ایک بڑی کوٹھی کو الیکشن دفتر کی شکل دی گئی تھی جہاں حاضرین تکے کباب کے علاوہ پائے بھی نوش کررہے تھے۔ اس بلدیاتی حلقے سے شیر کے نشان پر الیکشن لڑنے والے صاحب پچاس کے پیٹے میں ہوں گے، خوشحالی اور الیکشن میں فتح کے یقین سے چہرہ دمک رہا تھا۔ اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد میں ان سے الیکشن اخراجات کے بارے میں پوچھا تو ہوش رباجواب ملا ـکہ ''اب تک سوا کروڑ خرچ ہوچکے ہیں اور اندازہ ہے کہ آئندہ چند دنوں کے اخراجات ملا کر دو کروڑ ہوجائیں گے‘‘۔ میں نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا کہ ایک یونین کونسل کے لیے اتنا پیسہ خرچ کرنا کچھ زیادتی نہیں، تو فرمایا ، ''دیکھیں جی بندہ عزت کے لیے سب کچھ کرتا ہے، ویسے بھی آج کل دو کروڑ روپے کی اوقات کیا ہے!‘‘۔ 
سیالکوٹ کی انتخابی سیاست میں پانی کی طرح بہتے ہوئے سرمائے کے اس نظارے سے کچھ عرصہ پہلے لاہور کے حلقہ ایک سو بائیس میں بھی ضمنی انتخاب ہوا تھا جس میں مسلم لیگ ن کے ایاز صادق اور تحریک انصاف کے علیم خان آمنے سامنے تھے۔ اس الیکشن میں دونوں امیدواروں اور ان کی جماعتوں نے انتخابی اخراجات سے متعلق قانونی حدود کی دھجیاں اڑا کررکھ دیں۔ لاہور شہر کا ہر باسی اور صحافی جانتا ہے کہ ووٹوں کے عوض موٹرسائیکل اور نقد روپے ریوڑیوں کی طرح بٹے، انتخابی دفاتر کے نام پر حلقے کے ہر نوجوان کی جیب میں ہزاروں روپیہ ٹھونسا گیا تاکہ وہ اپنے گھر والوں کو مطلوبہ انتخابی نشان پر مہر لگانے پر مجبور کرسکے۔یہ وہ دن تھے جب لاہور کا یہ حلقہ دو دولت مندوں کی باہمی رقابت کا میدان بنا ہوا تھا۔ مہنگی گاڑیاں غریبوں کے اس حلقے میں دندناتی ہوئی اعلان کررہی تھیں کہ عوام کی نیابت صرف اس کا حق ہے جس کی تجوریاں بھری ہوئی ہیں۔ ایمانداری، قانون کی پابندی اور شرافت جیسی خصوصیات کی پروا امیدواروں کو تھی نہ ان کی جماعتوں کو۔ اسی طرح اوکاڑہ کے حلقہ ایک سو چوالیس میں ریاض الحق جج نامی ایک آزاد امیدوار کے بارے میں متعین بات اس کے شہر میں مشہور ہے کہ اس نے اپنے کارندوں کے ذریعے اپنے ووٹروں کو نہ صرف نقد پیسے دیے بلکہ بہترین کھانوں اور پیٹرول کی پرچیوں کے ذریعے ان کے ضمیر کا سودا کیا۔ اس کا جادواتنا سر چڑھ کر بولا کہ اگر کسی لڑکی کی اس دن اوکاڑہ سے رخصتی ہونا تھی تو وہ ووٹ ڈال کر ہی پیا گھر سدھاری۔ اپنی خاندانی دولت کے زور پریہ شخص پاکستان کے انتخابی نظام کا منہ چڑاتا ہوا اسمبلی میں جا بیٹھا اور دیدہ دلیری سے ہماری قسمت کے بارے میں قانون سازی میں حصہ لیتا ہے۔ لودھرا ں میں جہانگیر ترین کا الیکشن کسے یاد نہیں؟ الیکشن کمیشن کسی بھی خفیہ ایجنسی سے پوچھ لے اسے پتا چل جائے گا کہ کس نے کروڑوں روپے کے راشن پیک ووٹروں کے گھروں میں بھجوائے تھے اور اس چھوٹے سے شہر کی گلیوں کے کن کن گھروں میں ووٹوں کے عوض نوٹ بانٹے گئے تھے۔ 
پاکستان کا قانون نوٹ اور ووٹ کے درمیان ہر قسم کے تعلق کو ناجائز قرار دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر الیکشن میں امیدوار کو لازمی طور پر ایک الگ بینک اکاؤنٹ کھول کر الیکشن کمیشن کو بتانا ہوتا ہے کہ اس نے اپنی الیکشن مہم میں مقرر کردہ حدود سے زائد خرچ نہیں کیا۔ اس شق پر عمل کا عالم یہ ہے کہ الیکشن مہم کے پہلے دن ہی اس کا تیا پانچہ ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر دوہزار تیرہ کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے امیدواروں پر پابندی تھی کہ وہ اپنی مہم پر پندرہ لاکھ روپے سے زیادہ خرچ نہیں کریں گے لیکن خرچ اس سے کہیں زیادہ ہوا۔اس پابندی کا کوئی اثر اسی صورت ہوتا اگر الیکشن کمیشن مسلسل اس حوالے سے ، پولیس کی سپیشل برانچ یا دیگر خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے معلومات اکٹھی کرتا رہتا۔ امیدواروں نے جب یہ دیکھا کہ کمیشن کو اصل اخراجات کا حساب لینے کی بجائے صرف کاغذات کا پیٹ بھرنے سے ہی دلچسپی ہے تو انہوں نے دل کھول کر پیسہ لگایا اور نادانستہ ہی سہی، پاکستانی سیاست سے متوسط طبقے کو باہر نکال پھینکا۔ صرف کراچی میں ایم کیو ایم ہے یا خیبرپختونخوا میں جماعت اسلامی جو پیسے کے زور پر الیکشن نہیں لڑتیں ، اپنی جماعتی قوت کو برؤے کار لاکر یہ معرکہ جیتنے کی کوشش کرتی ہیں۔ 
پاکستان کے انتخابی نظام میں پیسے کا عمل دخل اتنا بڑھ چکا ہے کہ اس کا سدّباب کیے بغیر اس نظام میں کوئی بھی اصلاح کامیاب نہیں ہوسکتی۔ خواتین کے لیے پانچ فیصد لازمی ٹکٹ، ووٹوں کی فوری طور پر دوبارہ گنتی اور الیکشن سے چھ ماہ پہلے پولنگ سکیم کی تیاری جیسے نمائشی اقدامات سے ہم اپنے سیاسی نظام کو بہتر نہیں بناسکتے ۔ یوں بھی سیاسی جماعتیں خواتین کو وہاں سے ٹکٹ دیں گے جہاں ان جماعتوں کے ووٹر نہیں ہوں گے ہی نہیں۔ اے این پی بڑے آرام سے پنجاب میں چند خواتین کو ٹکٹ دے کر یہ شرط پوری کرلے گی، تحریک انصاف بلوچستان کو اس مقصد کے لیے استعمال کرلے گی، مسلم لیگ ن سندھ میں خواتین کو ٹکٹ دے دے گی اور پیپلزپارٹی سندھ سے باہر ہر جگہ خواتین کو الیکشن میں کھڑا کردے گی۔ جہاں تک دوبارہ گنتی اور پہلے سے پولنگ سکیم کی تیاری کی بات ہے تو ان کی کوئی انتظامی حیثیت ہو تو ہو اصلاحی تو قطعاََ نہیں۔ اس نظام میں بنیادی اصلاح صرف اور صرف پیسے کے استعمال کو محدود کرنا ہے، اس کے بغیر انتخابی اصلاحات ، خواہ وہ قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر ہی منظور کیوں نہ کی ہوں، سوائے دھوکے کے کچھ نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved