تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     10-02-2017

چڑیاں دُھوپ تاپتی ہیں‘ بسنت اور رسالہ ’’ترنجن‘‘

یہ اس موسم کا پہلا روشن دن تھا۔ واک کے بعد خوب دھوپ تاپی گئی۔ میں اکیلا نہیں ‘ میرے ساتھ چڑیوں نے بھی دھوپ کے مزے لیے۔ ایک چڑیا اور ایک چڑا جو مجھ سے کچھ زیادہ فاصلے پر نہیں تھے‘ چونچ سے کھجا بھی رہے تھے‘ اور حیرت ہے کہ پُورے جسم کو ہر طرف سے کھجا رہے تھے۔ ایک اور چیز کا پتا چلااور وہ یہ کہ چڑیا‘ بٹیر اور تیتر ایک ہی خاندان سے ہیں‘ سائز کے علاوہ ‘ وضع قطع کے حساب سے گویا ایک ہی قبیلے سے ہیں‘ البتہ چڑے میں فرق یہ تھا کہ اس کا سراپا کالے تیتر کا تھا۔ نیز یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ چڑے کم تھے اور چڑیاں زیادہ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ گوجرانوالہ سے حالتِ بیوگی میں چڑیوں نے ادھر کا رُخ کر لیا ہو کہ چڑے تو وہاں یار لوگوں نے زیادہ تر پیٹ میں اتار لیے تھے اس طرح کے موسم میں دھوپ تاپنے سے بڑی عیاشی اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ کبھی یہ شعر کہا تھا ؎
بیوی باہر گئی کمانے
دن بھر وہ گھر میں دھوپ تاپا
جب سے سردیاں آئی ہیں‘ پرندوں کی آمد ورفت پہلے جیسی نہیں رہی۔ اب موسم کھل رہا ہے توامید ہے کہ ان کے رونق لگانے کے 
دن بھی آنے والے ہیں۔ پھولوں اور پرندوں کو یہ موسم ویسے بھی سازگار نہیں ہے۔ سو‘ اب بسنت کی آمد آمد بھی ہے یعنی آئی بسنت پالے اُڑنت۔ پتا نہیں بسنت منانے کی اجازت دینے کے حوالے سے پنجاب حکومت کیا فیصلہ کرتی ہے کہ ابھی تو معلوم ہوا ہے وہ اس پر غور ہی کر رہی ہے اگر یہ کر دیا جائے کہ ممنوعہ تار استعمال کرنے والوں کے لیے سخت اور فوری سزا رکھ دی جائے تو اس فتنے پر خاصی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ اسے ہندوئوں کا تہوار کہنا تو سراسر زیادتی ہے کہ یہ تو موسم کا تہوار ہے‘ اس میں مذہب کہاں سے آ گیا۔ اگر مختلف کھیلوں کے بارے میں اس کا امتیاز روا نہیں رکھا جا سکتا تو بسنت میں مذہب کہاں سے آ گیا جبکہ تمام مذاہب کے اپنے اپنے تہوار بھی ہیں‘ مثلاً عید‘ دیوالی ‘ کرسمس اور نو روزوغیرہ سو‘ ہم اگر دیوالی یا دسہرہ منانے لگیں تو اعتراض بھی ہو سکتا ہے‘ بسنت تو ایک مشترکہ تہوار ہے جو تہوار سے زیادہ ایک کھیل ہے۔ اسے تہوار اور کھیل ہی رہنے دیا جائے تو بہتر ہے کیونکہ اس طرح کی پابندی لگانے سے ہم ایک نہایت دلچسپ کھیل سے محروم ہو کر رہ جائیں گے ۔علاوہ ازیں یہ میل ملاقات کا ایک ذریعہ بھی ہے کہ یار لوگ ایک جگہ اکٹھے ہو کر موج میلہ بھی کرتے ہیں اور پتنگ بازی بھی جو باقاعدہ ایک جشن کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ میں نے پتنگ کے حوالے سے تین غزلیں کہہ رکھی ہیں‘ فی الحال ایک ہی پیش کر رہا ہوں‘ بسنت منائی گئی تو وہ بھی پیش کروں گا یا بسنت کے فراق میں۔ تازہ خبر کے مطابق وزیر اعلیٰ نے پتنگ بازی پر پابندی برقرار رکھی ہے
طلسمِ ہوش رُبا میں پتنگ اڑتی ہے
کسی عقب کی ہوا میں پتنگ اُڑتی ہے
چڑھے ہیں کاٹنے والوں پہ لُوٹنے والے
اِس ہجومِ بلا میں پتنگ اڑتی ہے
پتنگ اُڑانے سے کیا منع کر سکے زاہد
کہ اُس کی اپنی عبا میں پتنگ اُڑتی ہے
یہ آپ کٹتی ہے یا کاٹتی ہے دوسروں کو
بس ایک بیم و رجا میں پتنگ اُڑتی ہے
کہیں چھتوں پہ بپا ہے بسنت کا تہوار
کہیں پہ تنگیٔ جا میں پتنگ اُڑتی ہے
کہیں فلک پہ سرکتی ہے سرسراتی ہوئی
کہیں دلوں کی فضا میں پتنگ اُڑتی ہے
کُھلا ہے اُس پہ کچھ ایسے بہار کا موسم
ہے رُخ پہ رنگ‘ قبا میں پتنگ اُڑتی ہے
یہ خواب ہے کہ اُلجھتا ہے اور خوابوں سے
یہ چاند ہے کہ خلا میں پتنگ اُڑتی ہے
اُمیدِ وصل میں سو جائیں ہم کبھی جو ‘ ظفرؔ
تو اپنی خواب سرا میں پتنگ اُڑتی ہے
اگر بسنت منانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ تو ہم یونہی کاغذ پر اور تحریروں میں ہی پتنگیں اُڑائیں گے۔ یا من چلے پابندی کی پروا کئے بغیر کچھ دن اس میں مشغول رہیں گے‘ پکڑے بھی جائیں گے اور حوالات کی ہوا بھی کھائیں گے اور جرمانے بھی بھریں گے‘ تاہم اگر حکومت اجازت نہیں بھی دیتی تو اُسے ہاتھ ضرور ہولا رکھنا پڑے گا۔
پنجابی رسالہ''ترنجن‘‘
یہ جنوری جون2016ء کا شمارہ ہے جو ہمارے ہاتھ لگا ہے اور جسے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئیج آرٹ اینڈ کلچر (پلاک) کے لیے ڈاکٹر صغریٰ صدف شائع کرتی ہیں جبکہ محمد عاصم چودھری اور خاقان حیدر غازی ایڈیٹرز ہیں۔ اندرون سرورق دونوں طرف پلاک میں جو ادبی تقریبات اس عرصے میں منعقد ہوتی رہیں‘ ان کے گروپ فوٹوز ہیں۔ حصۂ مضامین میں سعید بُھٹہ‘ ڈاکٹر شہزاد‘ حسین شاد‘ زاہد حسن‘ تنویر ظہور‘ قمر حجازی اور دیگران کی نگارشات ہیں۔ اس کے علاوہ شہنشاہ اکبر کے زمانے کے شاعر پیلو‘ نسرین انجم بھٹی‘ فرزند علی اور مصطفی بسمل پر تعزیتی مضامین ہیں۔ ایک شاعر کا کلام کے عنوان سے راشد حسن رانا کی نظمیں اور پھر ''نیندر ِبھجیاں نظماں‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر صغریٰ صدف کا مضمون۔کہانیوں میں ڈاکٹر یونس جاوید پروفیسر زہیر کنجاہی‘ طاہرہ منیر بسراء ہیں اور نظمیں ہیں جن کے خالق آصف ثاقب‘ طالب جتوئی‘ احمد نعیم ارشد‘ نائلہ صبوحی‘ شاہد حسین اور رضوان الحسن۔ قیمت فی شمارہ100روپے رکھی گئی ہے ٹائیٹل خوبصورت ہے اور گیٹ اپ عمدہ۔
آج کا مطلع
یہ شہر وہ ہے جس میں کوئی گھر بھی خوش نہیں
دادِ ستم نہ دے کہ ستم گر بھی خوش نہیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved