تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     11-02-2017

گانٹھ

اس کہانی کا خلاصہ کیا ہے؟ میری رائے میں یہ کہ غلط فہمی کس طرح پیدا ہوتی، پھرکیونکر اس سے الجھائو جنم لیتا ہے۔ آغاز ہی میں اگر سلجھا نہ دیا جائے تو ہاتھوں سے دی گئی گانٹھیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں۔ 
یہ نقطہ ہائے نظر کا معاملہ ہے۔ یہ سیاست ہے اور سیاست کے اپنے مطالبے ہوا کرتے ہیں۔ سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ سے منسوب ہے کہ اپنے خیال کو جو کسی شخص کے خیال سے بدل سکتا ہے‘ ایک دن وہ اپنے خدا کو کسی کے خدا سے بدل لے گا۔ حافظ سعید کے بارے میں میری واضح ایک رائے ہے اور برسوں سے۔ دوسروں کی اگر مختلف ہے تو اس کے اظہار میں وہ آزاد ہیں۔ ہر آدمی کا اپنا سچ ہے اور ہر آدمی اپنے سچ کا خود ذمہ دار۔
ریاست سے حافظ سعید کی وفاداری پر مجھے کوئی شک نہیں۔ طالبان سے میں انہیں مختلف سمجھتا ہوں۔ سماجی میدان میں ان کی خدمات کا میں قائل ہوں مگر جہاد کشمیر کے باب میں ہرگز نہیں۔ حالات بدل چکے اور مقبوضہ کشمیر کو ایک سیاسی تحریک کی ضرورت ہے۔ پورے کرّ و فر اور ایثار و قربانی کے بے مثال جذبے سے جو جاری ہے۔ دل و جان سے اس کی تائید کرنی چاہیے۔ پیچیدہ حالات میں جتنا ایثار بھی کوئی کر سکتا ہے‘ کرنا چاہیے۔ پاکستان میں مقیم مہاجرین کی دیکھ بھال کی جائے۔ بیرون ملک مقیم مسلمان‘ زخمیوں، یتیموں اور بیوائوں کے زخموں پر پھاہا رکھنے کی کوشش کریں۔ بے حکمتی مگر خطرناک ہے اور بعض اوقات بہت تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ ہم اصول ترک کر سکتے ہیں اور نہ حماقت کا ارتکاب۔
سید علی گیلانی آج بھی وہی ہیں جو کہ تھے۔ ساٹھ سال سے پورے قد سے مقتل میں وہ کھڑے ہیں ۔ کبھی اور کسی حال میں ان کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آئی۔ تین دن پہلے ان کا ایک پیغام کسی کے توسط سے ملا کہ حافظ سعید کے بارے میں جو بات ان سے میں نے منسوب کی ہے‘ وہ درست نہیں۔ غلط فہمیوں کا ایک آتش فشاں اس سے پھٹ پڑا ہے۔ یہ بھی ان کے ایما پر جو صاحب مجھ سے ملے‘ معلوم نہیں‘ وہ ان کے نمائندے تھے یا کوئی بھارتی ایجنٹ۔
بارِ دگر پوری طرح اس کی تصدیق میں نے کر لی ہے کہ وہ انہی کے آدمی تھے۔ مجھ سے ملے بھی وہ ایک ذمہ دار آدمی کے توسط سے‘ سید صاحب اور جہاد کشمیر کے خیر خواہ اور برصغیر میں آزادی کی تحریکوں پہ نظر رکھنے والے۔ تین عشروں سے میں انہیں جانتا ہوں۔ ان سے غلط بیانی کا اندیشہ ہو سکتا ہے اور نہ عدم احتیاط کا۔ جمعرات کو پاکستان میں مقیم سید علی گیلانی کے ایک عزیز نے بھی تصدیق کی کہ پیامبر کا سید صاحب ہی سے تعلق ہے۔ ان کے حوالے سے مگر یہ بھی کہا کہ بعض اوقات کوئی آدمی اپنی بات ڈھنگ سے بیان نہیں کر سکتا، یعنی مفہوم سمجھ نہیں سکتا یا سمجھا نہیں سکتا۔
اب اس میں قطعاً کوئی شک نہ ہونا چاہیے کہ حافظ سعید کے بارے میں وہ بات گیلانی صاحب نے ہرگز نہ کہی تھی۔ ان صاحب کو شاید غلط فہمی ہوئی تھی۔ دفتر نے رابطہ کیا تو عرض کیا تھا کہ وضاحت کر دوں گا اور اس طرح کہ کوئی ابہام باقی نہ رہے۔ سید صاحب کا ایک پیغام مجھے بھیجا گیا تھا۔ حافظ سعید کے بارے میں بحث ، کامران شاہد کے پروگرام میں ہوئی تھی۔ فطری طور پر توقع یہ تھی کہ وہ رابطہ کریں گے۔ ارادہ تھا کہ سید صاحب کا پیغام پڑھ کر سنا دیا جائے۔ ثانیاً یہ عرض کر دیا جائے کہ ناچیز کی رائے دوسری ہے۔ مزید کوئی تبصرہ کرنے سے گریز کروں تاکہ کسی بھی سطح پر کوئی الجھائو پیدا نہ ہو۔
جمعرات کی شب وہ پیغام سنا دیا گیا مگر میں حیرت زدہ رہ گیا کہ مجھ سے کسی نے رابطہ ہی نہ کیا۔ پاکستان میں مقیم سید صاحب کے ایک عزیز کے توسط سے‘ براہِ راست جس نے گیلانی صاحب سے بات کی تھی، جمعرات کی دوپہر طے پا گیا تھا کہ ازخود میں وضاحت کروں گا۔ بعد ازاں سمیع اللہ ملک صاحب نے بھی اس کی تصدیق کی، جن کے توسط سے گیلانی صاحب کا تحریری پیغام ملا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آپ کے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی۔ جہاد کشمیر سے ہم آپ کو پوری طرح مخلص سمجھتے ہیں۔ آپ کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں۔ ازراہِ کرم یہ بھی کہا کہ عمرہ کرنے گیا تو آپ مجھے یاد رہے۔
سید صاحب نے خود بھی اسی مفہوم کی بات کی۔ مجھے تو اس پر شرمندگی کا احساس ہی ہوا۔ کون سی خدمت میں نے انجام دی ہے کہ وہ ستائش کریں۔ کسی کو اپنا ایمان عزیز ہے تو بہیمانہ قتل و غارت کے شکار مسلمانوں کی حمایت کے سوا کیا کوئی دوسرا طریق بھی وہ اختیار کر سکتا ہے؟
مسئلہ کیا ہے؟ حافظ سعید کا اندازِ فکر۔ صرف یہی عاجز نہیں، کشمیر کی آزادی سے پوری طرح مخلص بہت سے کشمیری اور پاکستانی ان سے متفق نہیں۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ بھارت اور مغرب میں دہشت گرد سمجھا جانے والا آدمی‘ جب کشمیر کاز کا چمپئن بن کر اٹھے گا، دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ پر اس کی سرگرمیاں جب دکھائی جائیں گی تو فائدہ نہیں، اس سے نقصان پہنچے گا۔ میری معلومات کے مطابق پاکستان میں مقیم ممتاز کشمیری مہاجرین تک سے کہہ دیا گیا ہے کہ جلسہ جلوس سے وہ گریز کریں۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ اور بھارت کے دبائو میں حافظ سعید پر پابندی عائد کی گئی ہے، بالکل ٹھیک ! ہمارا خیال یہ ہے کہ حکومتِ پاکستان کو یہ پابندی‘ اپنے طور پر عائد کر دینی چاہیے تھی اور بہت پہلے۔ حالات کو خود پڑھنا چاہیے اور خود ہی فیصلے صادر کرنے چاہئیں‘ دبائو میں نہیں۔ کسی اقدام کو اگر آپ درست سمجھتے ہیں تو خود اٹھانا چاہیے۔ مطالبہ اگر غلط ہے تو پھر دبائو کے تحت بھی اسے قبول نہ کرنا چاہیے۔
زندگی کبھی کڑے امتحان میں ڈالتی ہے مگر یہی تو زندگی ہے۔ آدمی کو پیدا ہی اسی لیے کیا گیا کہ آزمایا جائے۔ اس کے ساتھ ہی دوسرا اصول یہ ہے کہ کسی بھی شخص پر اس کی استعداد سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا۔
صبح سویرے سے کامران شاہد کو ڈھونڈ رہا ہوں۔ بتایا گیا کہ وہ جھنگ میں ہیں‘ جہاں فون کے سگنل شاید نہ ہوں۔ شاید انہیں پیغام نہ ملا ہو‘ شاید انہوں نے اس کی ضرورت ہی محسوس نہ کی ہو کہ پروگرام میں مجھ سے بات کریں۔ سمیع اللہ ملک صاحب کا کہنا یہ ہے: ہم نے آپ کے دفتر کو مطلع کر دیا تھا کہ ہارون الرشید خود ہی وضاحت کرے۔ ممکن ہے کہ یہ پیغام ان تک نہ پہنچا ہو۔کچھ دن کے لیے میں ٹی وی سے دور ہوں‘ وگرنہ خود اپنے پروگرام میں اس قصّے کو نمٹا دیتا۔۔۔۔ اور کوشش کرتا کہ بہترین طریق سے۔ 
انسانی عقل نارسا ہے۔ کبھی قدرت کی منشا کو وہ پا نہیں سکتی۔ ایسے میں صبر اور انتظار کے سوا کیا چارہ ہے اور یہ صبر حوصلہ مندی سے کرنا چاہیے۔ تسلّی اس خیال سے ہوتی ہے کہ وقت اپنے باطن میں کوئی راز چھپا نہیں رکھتا۔ ہر چیز آخرکار آشکار ہو جاتی ہے۔ رزق پروردگار کے ہاتھ میں ہے اور بے شک عزت بھی۔ سبھی کچھ!
رہا اختلاف تو مائوں نے اپنے بیٹوں کو آزاد جنا ہے۔ اللہ نے انہیں اس کا حق دیا ہے۔ نیک نیتی سے بروئے کار آئے تو باعثِ رحمت ہے۔ اگر کوئی انانیت اور بدنیتی کا شکار ہے تو سزا پائے گا۔ دانستہ یا نادانستہ اگر کسی نے شرارت کی ہے تو اللہ اس پر رحم کرے۔ 
اس کہانی کا خلاصہ کیا ہے؟ میری رائے میں یہ کہ غلط فہمی کس طرح پیدا ہوتی، پھرکیونکر اس سے الجھائو جنم لیتا ہے۔ آغاز ہی میں اگر سلجھا نہ دیا جائے تو ہاتھوں سے دی گئی گانٹھیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں۔

نوٹ:گزشتہ روز شائع ہونے والے ہارون الرشید کے کالم بہ عنوان ''بسنت‘‘پر قارئین کے ایس ایم ایس پیغامات صفحہ 13 پر '' ایس ایم ایس دنیا ‘‘میں ملاحظہ فرمائیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved