تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     11-02-2017

رائے ساز

اکثرخیال ہوتا ہے کہ رائے ساز ی کو کسی معیار کا پابند بنانا چاہیے، قانون کے ذریعے یا پھرسماجی رویے سے۔
جو آدمی سماجی علوم کے مبادیات سے واقف نہ ہو،کیا اسے یہ حق مل جانا چاہیے کہ وہ سیاست ومعاشرت پر عوام کی رائے سازی کرے؟ کیا لکھنے کے لیے محض ایک قلم اور ایک کاغذ بہت ہیں؟ کیا مذہب و تاریخ سے مکمل لاعلمی کے ساتھ کسی کو یہ حق دے دینا چاہیے کہ وہ ٹی وی سکرین پر جلوہ افروز ہو اور عوام کے جذبات سے کھیلتا رہے؟ کیا سماج اور ریاست کا فرق جانے بغیر، حالاتِ حاضرہ پر بات ہو سکتی ہے؟ بطور قاری اورناظر، یہ سب سوالات میرے سامنے صف بستہ کھڑے ہو جاتے ہیں جب میںکوئی کالم پڑھتا یا کوئی ٹی وی پروگرام دیکھتا ہوں۔ اگرچہ خود کو ممکن حد تک اس اذیت سے محفوظ ہی رکھتا ہوں۔
لوگ معاشرتی برائیوں کا ذکر کرتے ہیں اور تان حکومت کی گوشمالی پہ ٹوٹتی ہے۔ حکومت کی گوشمالی میں کوئی برائی نہیں مگر اس کا محل ہوناچاہیے۔ میں نے تو یہی جانا ہے کہ معاشرہ ریاست پر مقدم ہے۔ معاشرہ ایک نظام اقدار کی اساس پر قائم ہوتا اور باقی رہتا ہے۔ اقدار کی گرفت کمزور ہو جائے تو معاشرہ اپنا جوہر کھوتا چلا جاتا ہے۔ ریاست معاشرے کی سیاسی تجسیم اور اس کا ایک ذیلی تخلیق (By product) ہے۔ ریاست قانون پر کھڑی ہوتی اور قوت نافذہ رکھتی ہے۔ اس کے ذمہ دار کچھ کام ہیں جو اسے سر انجام دیتے ہیں۔ دور جدید میں ریاست کے فرائض کا ایک حد تک تعین ہوگیا ہے۔ اسے ایک عمرانی معاہدے کا پابند کیا گیا ہے جسے آئین کہتے ہیں۔ قانون ریاست بناتی ہے مگر قانون پر پابندی کا تعلق کلچر اور سماجی رویے سے ہوتا ہے۔ قانون کا احترام اگر بطور معاشرتی قدر، مستحکم نہ ہو تو ریاست کی سطح پر یہ قانون سازی پوری طرح نتیجہ خیز نہیں ہوتی۔
ہمیں ریاست و حکومت کی سطح پر تین باتیں اصلاً مطلوب تھیں۔ سماجی امن، سیاسی استحکام، معاشی پیش رفت۔ کیا اس باب میں ریاست نے اپنی ذمہ داری انجام دی؟ میرا خیال ہے ، اس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ یہ کام اگر احسن طریقے سے نہیں ہوئے مگر ان میں غیر معمولی پیش رفت ہوئی ہے، جس کا اعتراف کرنا چاہیے۔ دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن اقدام اٹھایا گیا اور کوئی غبی ہی یہ کہہ سکتا ہے کہ گزشتہ تین سال میں ریاست نے اس باب میں کوئی کردار ادا نہیںکیا۔ فوج ریاست ہی کا ایک شعبہ ہے۔ اس میں پہلے قومی سطح پر اتفاق رائے پیدا ہوا، جس میں ساری سیاسی قیادت شریک ہوئی۔ ظاہر ہے کہ اس کا آغاز حکومت نے کیا تھا۔ فوج نے احسن طریقے سے اسے آگے بڑھایا۔ اس کے نتیجے میں سماجی امن آیا۔
سیاسی استحکام کے لیے جمہوری عمل کا تسلسل، سیاسی اداروں کی مضبوطی اور قانون کی حکمرانی ضروری ہیں۔ جمہوری عمل اﷲ کا شکر ہے کہ جاری ہے۔ پارلیمنٹ اپنا کام کر رہی ہے۔ اب بلدیاتی ادارے بھی وجود میں آ چکے ۔ صاف دکھائی دیتا ہے کہ یہ پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کرے گی اور اتنخابات اپنے وقت پر 2018ء میں ہوں گے۔ ابھی سے اس تاثر کا قائم ہونا، جمہوری نظام کے لیے نیک شگون اور سیاسی استحکام کی علامت ہے۔ جمہوریت اپنے وجود میں اصلاح کے امکانات رکھتی ہے اور انہیں ہم بچشمِ سردیکھ سکتے ہیں۔
معاشی سرگرمیوں میں تیزی اور پیش رفت، سیاسی استحکام کا ایک فطری نتیجہ ہے۔ ملک میں ایک مضبوط اور پائیدار انفرا سٹرکچر قائم ہو رہا ہے۔ تمام قابل ذکر عالمی ادارے پاکستانی معیشت کی پیش رفت پر اظہارِ اطمینان کر چکے ۔ پاکستان کو 2030ء میں کینیڈا کے ہم پلّہ قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ بات بھی اب کہی جانے لگی ہے کہ بھارت میں موجود معاشی ترقی کے امکانات درجۂ کمال کو پہنچ چکے۔ اب سرمایے اور امیدکا رخ پاکستان اور سری لنکا جیسے ممالک کی طرف ہو گا۔ کرپشن میں بھی تیزی سے کمی آئی ہے۔ اگر شہد کی مکھی کی نفسیات کے ساتھ حالات پر نظر ڈالی جائے تو یہ سب باتیں دیکھی اور سنی جا سکتی ہیں۔ 
اس پیش رفت کا کریڈٹ میں ریاست کے تمام ادارے شریک ہیں۔ اس میں فوج کا حصہ ہے جس نے دہشت گردوں کے خلاف اقدام کے سیاسی فیصلے کو علمی جامہ پہنایا۔سیاسی جماعتیں شریک ہیں جنہوں نے دہشت گردی اور کرپشن سمیت اہم مسائل کو موضوع بنایا اور ان کے حل پر اصرار کیا۔ عدلیہ جس نے قانون پر عمل کو یقینی بنایا۔ حکومت جس نے سماجی امن و معاشی استحکام کے لیے اہم فیصلے کیے۔ معاشی سرگرمیوں کے لیے ایک اعلیٰ انفرا سٹکچرکی تعمیر کا ڈول ڈالا۔ توانائی کے بحران کو ہنگامی بنیادوں پر حل کیا۔ ان کی کوششوں کے نتیجے میں، عالمی سطح پر پاکستان نے اپنے کھوئے ہوئے اعتبار کو بازیافت کیا۔ قوم میں اعتماد پیدا ہوا۔ دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ 2016 ء کا پاکستان 2013سے کہیں بہتر ہے۔
اس کا یہ مطلب یقیناً نہیں ہے کہ کچھ اصلاح طلب نہیں ہے۔ سماجی ترقی کی سطح پر ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم ایسا نہیں ہے کہ اس شعبے کو بالکل نظر انداز کیا گیا ہے۔ پیش رفت ہوئی ہے لیکن اگر نتیجہ خیزی میں کمی ہے تو اس کا تعلق سماجی رویے کے ساتھ ہے۔کرپشن اور کام چوری ہمارے ہاں ایک کلچر ہے۔ اس کو محض حکومتی اقدامات سے دور نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے نظامِ اقدارکو بدلنا ہو گا۔ یہ بات درست ہے کہ بالا دست طبقے کو اس میں پہلے اپنی مثال پیش کرنی چاہیے۔ لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ اس کے لیے ایک ہمہ گیر تبدیلی لازم ہے جو معاشرتی ہونی چاہیے۔ سماجی تبدیلی یک دم نہیں آتی۔ یہ صبر آزماکام ہے۔ 
دنیا میں کہیں مثالی معاشرہ موجود نہیں۔ ہم مغرب کی اچھائوں کا تقابل اپنی برائیوں سے کرتے ہیں۔ اگر کوئی اس کے بر خلاف شواہد جمع کر نا چاہے تو اس پر کئی کتابیں مرتب ہو سکتی ہیں۔ امریکہ او رچین میں اس وقت جو معاشی تفاوت واقع ہو چکا ہے،وہ تباہ کن ہے۔ ٹرمپ کا ظہور اس کی ایک علامت ہے۔کرپشن چین کے معاشی نظام کے رگ و پے میں اتری ہوئی ہے۔ یہ صرف چین ہی میں ممکن ہے کہ ایک شے کی دس اقسام بنائی جائیں اور انہیں دنیا بھر میں فروخت کیا جائے۔ انصاف یہ ہے کہ تقابل حقیقی اور ہر پہلو سے ہو۔
ہم نے ریاستی سطح پر اہم پیش رفت کی ہے۔ تاہم،ابھی ریاست کو اپنے بہت سے بنیادی تصورات کی اصلاح کر نی ہے جن میں سب سے اہم قومی سلامتی کا تصور ہے جس کے ساتھ دہشت گردی جیسے معاملات جڑے ہوئے ہیں۔ اس کا تعلق صرف حکومت سے نہیں ہے۔ اس کے لیے ظاہر ہے کہ تنقید اور اصلاح کا کام جاری رہنا چاہیے۔ تاہم مسلسل مایوسی پھیلانا اور یہ تاثر قائم کرنا کہ ہر طرف ظلم کا دور دورہ ہے اور کہیں خیر نہیں ہے،کہیں شخصی غصے کا اظہار ہے اور کہیں ریاست و سماج کے باب میں بنیادی تصورات سے لاعلمی کی دلیل ہے۔
اسی لیے میں نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا سماجی علوم،مذہب اور تاریخ کے مبادیات سے عدم واقفیت کے ساتھ کسی کو رائے سازی کا حق دیا جا سکتا ہے؟ کیا رائے سازی کے لیے صرف کاغذ وقلم یا ایک ٹائی اور چرب زبانی کافی ہیں؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved