تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     11-02-2017

سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان از سید انیس جیلانی

۔۔۔۔پڑھنے کا موقع آئے گا تو ایسی بدحواسی میں ورق الٹیں پلٹیں گے جیسے قیامت کا سامنا ہو۔ چھانٹ کر سناٹا چھا جائے تو ترنم نہیں تحت اللفظ میں اپنا کلام پیش کرتے ہیں۔ تحت اللفظ بڑا جاندار ہے، خوب کراری آواز اور اس پر اُن کے غزلانہ تیور۔ بالکل پارے کی طرح بیتاب اور بے قرار‘ پرانی غزلیں یہ کہہ کر پڑھا کرتے ہیں کہ لوگوں کے لئے نئی ہیں۔ یہی ہندوستان میں کیا۔ رئیس غزل سے زیادہ نظم کے شاعر ہیں مگر وہ نہیں مانتے۔ میں تو غزل کا شاعر ہوں۔ اگر ایسا ہوتا تو اُردو ادب میں رئیس کی غزل گوئی موضوع بن چکی ہوتی۔ رہے قطعات تو ایک طرح کی تاریخی حیثیت تو رکھتے ہیں لیکن بات پہلو بہ پہلو رات گئی بات گئی والی بھی تو ہے۔ کنور صاحب نے رئیس صاحب کی قطعہ نگاری کی تعریف کرتے ہوئے کہا‘ ہم نے ظفر علی خاں کو بھی پڑھا ہے، وہ بھٹک جاتے تھے، ان کے اشعار وزن سے گر بھی جاتے تھے۔ یہ عیب رئیس کے ہاں نہیں ہے، یہ تو بیدی صاحب کی مہمان نوازی کا عالم تھا، یہ کوئی ایسی بات نہیں۔ عروضی غلطیاں کس سے نہیں ہوتیں۔ پکڑنے والوں نے غالب جیسوں کو بھی دار پر لٹکا رکھا ہے‘ رئیس صاحب بھی کبھی کبھار پٹڑی سے اُتر جاتے ہیں‘ مگر یہ اُن کے ہاں عام بات نہیں ہے اور زُود گوئی میں تو گرفت سے نکل ہی جاتا ہے آدمی۔ مشاعرہ کچھ جم نہیں سکا۔ پہلی خرابی تو یہ تھی کہ سب کے سب بے طرح پٹے ہوئے تھے۔ صدر خدا جانے کون تھے‘ نام تو یاد نہیں رہا، بار بار ان کی آمد کا اعلان ہوتا رہا‘ وہ تو آخر تک نہیں آئے یا شاید آئے، البتہ کرشن موہن صاحب آئے جن کا کنور صاحب نے باقاعدہ اعلان کیا۔ لیجیے تشریف لا رہے ہیں ہمارے ملک کے مشہور ارب پتی کرشن موہن صاحب، گوشت پوست کا چلتا ہوا ایک پہاڑ جو لڑھکتا ہوا میرے اور محمود صاحب کے پہلو میں براج گیا۔ بشرٹ پتلون خوشبو میں بسے ہوئے، ہاتھوں میں سفید سونے کے کڑے پڑے ہوئے۔ مصاحبوں میں نوجوان سکھ ، خود بھی جوان۔ میں تو کرشن موہن شاعر سے متعارف تھا‘ ''شبنم شبنم‘‘ کرشن موہن کا مجموعہ کلام حیرت شملوی مرحوم کا عطا کردہ نسخہ آج بھی محفوظ ہے اور دل میں اُترے ہوئے یہ شعر ؎
کیا کہوں ہم نفس شب فرقت
کس قدر غم نواز ہوتی ہے
ارب پتی کرشن موہن اور شاعر کرشن موہن دونوں اپنی اپنی جگہ حقیقت ہیں۔ ارب پتی کی زیارت ہو گئی، شاعر مفلس وفادار ہو گا، نہ کہیں دیکھا نہ سُنا۔ عزیز وارثی زیادہ پی گئے تھے، وہ بار بار بلکہ مسلسل کنور صاحب کے کانوں میں کچھ نہ کچھ کہتے اور ہدایات لیتے رہے۔ خود بدولت بھی دو تین بار غائب ہوئے‘ کبھی اِدھر نکل جاتے کبھی اُدھر۔ مشاعرہ کیا تھا ایک نشست تھی گھریلو قسم کی۔ سامعین میں ایک سخُن فہم کُتا بھی ٹہلتا رہا۔ کہیں اصحاب کہن کے پہلو سے اُٹھ کر نہ آیا ہو۔ کوئی روک ٹوک نہ تھی اُس کے لیے۔ خُدا خُدا کر کے رئیس صاحب نے غزلوں کا جھٹکا کیا۔ کوئی آدمی کوئی آدھی کوئی پونی سنائی اور اُدھر محفل تمام ہوئی۔ ہاتھ کے ہاتھ نوٹوں سے لبریز ایک لفافہ رئیس صاحب کے ہاتھوں سے ہوتا ہوا میری جیب میں پہنچا۔ گنے تو پورے تین ہزار‘ تین ہی ہزار اختر فیروز کو دیئے گئے۔ اختر فیروز، دلی میں بالکل اُسی طرح کھلا کہ شاعر ہیں، جیسے بزم انصاری۔ پاکستان میں شعرا کی یہ تیسری جنس ہنوز متعارف نہیں ہوئی۔ یہ سب رئیس صاحب کی شاعر گری کا اعجاز ہے اور کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کا کمال۔ گھوڑے گدھے کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا۔ رئیس صاحب کی قیمت بھی تین ہزار، اختر بھی تین ہزاری‘ لطف آ گیا۔ عام طور پر مشاعروں میں معاوضے کے لیے بھٹکنا پڑتا ہے۔ ایک مشاعرہ پڑھنے کے لیے کراچی میں دو سو طے ہوئے تھے لیکن اختتام مشاعرہ پر منتظمین معذرت اور رئیس صاحب صبر کا گھونٹ پی کر رہ گئے تھے۔ جگن ناتھ آزاد کیا کہتے ہیں، یہ بھی دیکھ لیں۔ ہمارے ہاں یہ بتانا تو میں بھول ہی رہا ہوں‘ ذرا ہماری بھی تو ہوا بندھے، تعریفیں ہوں۔ جگن ناتھ نے شعر اچھے سنائے اور سامعین میں شامل ہو کر تین بار وقفے وقفے سے نعرہ لگایا۔ کیا انیس جیلانی نہیں پڑھیں گے۔ میں نے کہا حضرت میں سُن رہا ہوں، یہی غنیمت ہے۔ اس پر مسکراہٹیں پھیل جانی چاہئیں تھیں جو نہیں پھیلیں۔ جگن مجھے بھی میری مکتوب نگاری کی روشنی میں شاعر سمجھ بیٹھے تھے۔ مشاعرہ اور معاوضہ کیا ہوتا ہے، جگن ناتھ آزاد کی زبانی سُنیے۔ اپنے سفر پاکستان کی یادگار ایک شعر یہ بھی تھا ؎
تمہارے شہر کا اب کے سفر عجیب لگا
جو گھر کو لوٹ کے آئے تو گھر عجیب لگا
''اور اب معاوضہ : 
مشاعرے کے بعد بالعموم ہم شعراء کی حالت دیدنی ہوتی ہے‘ ہم قریب قریب کاسۂ گدائی بن جاتے ہیں۔ مشاعرے کے بعد اکثر شعراء کی نظر منتظمین پر ہوتی ہے کہ کب وہ آ کر اپنا موجودہ زر کثیر شعراء کی نذر کرتے ہیں‘‘۔
(اقتباس از آنکھیں ترستیاں ہیں۔ از پروفیسر جگن ناتھ آزاد ص 171 )
اختتام مشاعرہ ہوا تھا، پریس کلب کی حاضری ابھی باقی تھی۔ دوبارہ شراب اور ٹھنڈے کباب پیش کئے گئے اور جب جی بھر چکا تب ڈیڑھ دو بجے رات کو چیمس فورڈ میں کھانے پر بلایا گیا۔ وہاں متعدد شعرا اور ممبران کلب کھانا تقریباً صاف کر چکے تھے۔ بچا کھچا یاروں نے نگلا۔ میں نے میٹھے پر اکتفا کیا اس لیے زیادہ گھاٹے میں نہ رہا۔ گیسٹ ہائوس پہنچتے پہنچتے پینے والے موٹر ہی میں انٹا غفیل ہو چکے تھے۔ متعین صدیقی کی موٹر تھی۔ کنور صاحب کا کمال یہ تھا کہ اپنی گاڑی خود چلا کر لے گئے ، حالانکہ بے طرح پٹے ہوئے تھے‘ نہ چال میں لڑکھڑاہٹ نہ زبان میں لکنت‘ پینے کا حق ایسے ہی لوگ ادا کرتے ہیں۔ ویسے اختر فیروز موٹر کی اگلی نشست پر بیٹھنا اب بھی نہ بھُولے تھے۔ رئیس صاحب پچھلی نشست پر ہمارے حصے میں آئے۔ اختر فیروز اور رئیس صاحب میں عمر کا تفاوت بیس برس کا ہو گا، لیکن بولتے رئیس صاحب سے بزرگانہ انداز میں ہیں‘ ہم تو تھے ہی پانچ برس اختر فیروز سے کم۔
پاکستانی سفارت خانے میں اختر فیروز نے ٹہوکا دیا تو رئیس صاحب نے بڑی لجاجت سے کہا ذرا گھومنے پھرنے کے لیے موٹر مل جاتی تو اچھا تھا۔ پریس منسٹر حسن عسکری کا جواب 'ہاں صاحب کوشش کریں گے‘ تھا تو کافی و شافی، اس پر بھی چیمس فورڈ کلب میں اختر فیروز کے اُکسانے پر پھر تقاضا کیا گیا تو وہ پہلو بچا نہ سکے اور وعدہ کر گئے کہ صبح دس بجے گاڑی پہنچ جائے گی۔ پکا وعدہ اس لیے بھی تھا کہ چھُٹی کا دن تھا تو جناب یہ رہی ہمارے پہلے دن 9 اکتوبر 1982ء کی مصروفیت۔
دسویں اکتوبر کی صبح خوشگوار ہی تھی۔ بتایا گیا کہ سفارت خانے سے گاڑی دس بجے آئے گی۔ میں نے سوچا میں حضرت امیر حمزہ شنواری کے دوست بابر صاحب سے بھی تو مل لوں اور پشاور یونیورسٹی سے نکلنے والے جریدے کا امیر حمزہ نمبر بھی پہنچا دوں، یہ پورے کا پورا پشتو میں ہے۔ اس کے باوجود میں اسے اپنے کتب خانے میں محفوظ کر دینے کے درپے تھا۔ حمزہ صاحب کا وعدہ ہے ایک جلد فراہم کر دیں گے۔ امیر حمزہ شنواری، جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، تصّوف کے آدمی ہیں۔ اُردو میں متعدد کتابوں کے مصنف لیکن ہیں وہ پشتو غزل کے اُستاد۔ میں نے ترجمے کا سہارا لے کر موصوف کو سمجھانے کی کوشش کی ہے اور کچھ تو اپنے دامن میں نہ سمیٹ سکوں پھر بھی خیال و فکر کی رفعتیں دامن دل کو کھینچ ہی لیتی ہیں۔۔۔۔
آج کا مقطع
دیواں ہی اپنے نام سے چھپوا لیا، ظفرؔ
اے سینہ زور! کیا کوئی ایسا بھی چور ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved