ایک سال بعد دبئی آنا ہوا ہے۔ روزانہ ٹی وی پروگرام کی وجہ سے زندگی بدل کر رہ گئی ہے۔ اب تو میں اپنا پرنٹ جرنلزم کا دور مس کرتا ہوں، جب سارے دن کے بعد رات گئے مرضی سے ایک اچھی خبر فائل کر کے صبح اپنے نام کے ساتھ خبر پڑھنے کا بے چینی سے انتظار کرتے۔ اب وہ سب کچھ ختم ہو چکا۔ ٹی وی نے سب کچھ بدل دیا ہے۔
جب دبئی لیکس کا سکینڈل بریک کیا تھا تو اندازہ نہ تھا کہ کتنی دولت پاکستان سے لوٹ کر دبئی لائی گئی ہے۔ داد دیں صحرا کے ان باشندوں کو جنہوں نے سات دریائوں کی سر زمین کے پاکستانی باشندوں پر اپنا ایسا اعتماد بٹھا دیا کہ وہ اپنے ملک سے سب کچھ لوٹ کر یہاں لا رہے ہیں۔ رہتے پاکستان میں ہیں تاکہ یہاں لوٹ مارکریں اور دبئی جا کر جائیدادیں خریدیں۔ میں ابھی تک کسی ایسے عربی سے نہیں ملا جس نے اس طرح پاکستان میں جائیداد خریدی ہو جیسے ہمارے زکوٹا یہاں خرید رہے ہیں۔ ہاں، ہم سب ان کے تلور کے شکار کے لیے ضرور استمعال ہوتے ہیں۔
ابوظہبی ایئرپورٹ سے دبئی تک ڈیرھ گھنٹے کے سفر میں اندازہ ہوتا ہے کہ جنہیں ہم بدو کہتے اور سمجھتے تھے، انہوں نے کیسے اپنی تقدیر بدل لی۔ ایک طویل صحرا کے درمیان ایک نیا جہاں آباد کر دیا ہے۔ دور دور تک پھیلے صحرا کو دیکھتے ہوئے میں نے گرو عامر متین سے یہی بات کی کہ صحرا کے ان پرانے مکنیوں کو داد دینی چاہیے کہ ہم جو دریائے سندھ، ہڑپہ ، موئن جو دڑو اور گنگا جمنا تہذیب کے ہزاروں سال پرانے باسی تھے اب روزی کمانے کے لیے اس صحرا کا رخ کرتے ہیں۔ ہمارے حکمران یہاں بیٹھ کر پاکستان پر حکمرانی کرتے ہیں۔ یہ سب اس جدید دنیا
کے مزے لیتے ہیں لیکن اپنے ملک پاکستان کو اس طرح ترقی یافتہ بنانے کو تیار نہیں ہیں۔ صحرا کے ان باسیوں کو ترقی کا راز سمجھ آگیا جو ہم ہزاروں سال پرانے تہذیب یافتہ باشندے نہ سمجھ سکے۔ انہوں نے جمہوریت، آزاد میڈیا اور عدالتیں ایک طرف رکھ کر اپنے معاشرے اور نظام کو اس حد تک ترقی یافتہ کر لیا ہے کہ اب جنرل مشرف سے کے کر زرداری تک سب یہیں رہتے ہیں۔ نواز شریف کا داماد ہو یا پھر اسحاق ڈار کے بچے، جن کی کامیابیوں کے یہاں بڑے چرچے ہیں، یا پھر سول ملٹری بیوروکریٹس اور سیاستدان جو پاکستان سے پیسہ لوٹ کر یہاں لائے ہیں، سب چند لاکھ کی آبادی کے شہر میں خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔
علی ڈار کا یہاں بڑا نام ہے۔ وہی علی ڈار جنہیں ان کے ابا حضور اسحاق ڈار نے اکتالیس کروڑ روپے کا قرض حسنہ دیا تھا اور موصوف اتنے غریب ہیں کہ ٹیکس مجھ سے کم دیتے ہیں۔ پچھلے سال ہونہار بیٹے نے اکتالیس کروڑ میں سے بیس کروڑ روپے کا قرض حسنہ واپس کردیا۔ باپ بیٹا یہ قرض حسنہ کا کھیل کھیلتے رہتے ہیں کیونکہ اس کے فوائد بہت ہیں۔ اب تو سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق بھی قرضہ حسنہ کے اس کھیل میں شریک ہوگئے ہیں اور گوشواروں میں اپنے بیٹے کو لاکھوں کا قرض حسنہ دکھایا ہے۔ اپنے بچوں کو لاکھوں کروڑوں کا قرض حسنہ دینے والوں کا ٹیکس دیکھیں تو پتا چل جائے گا کہ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔
ٹیکسی میں گھومتے ہوئے میں نے عامر متین سے پوچھا، ہمارے حکمرانوں اور سول ملٹری بیوروکریٹس کو رتی برابر شرم نہیں آتی جو پاکستان کو امریکہ، یورپ چھوڑیں دبئی تک نہیں بنا سکتے؟ یہ سب ہمارے ملک کوصحرا میں بدل رہے ہیں جبکہ یہاں صحرا ایک نئی دنیا میں بدل گیا ہے۔ ان لوگوں نے مزدور پاکستان سے ضرور منگوائے لیکن کنٹریکٹ انہوں نے یورپین کمپنیوں کو دیے اور آپ کو یہاں انجینئرنگ کے اعلیٰ شاہکار ہر طرف نظر آتے ہیں۔ ہم نے اس کے برعکس کیا۔ ہم نے نالائق کنڑیکٹرز ڈھونڈے اور اپنا کمیشن کھرا کیا۔ دوہزار ایک کے بعد ہر ٹھیکے میں آپ کو چینی کمپنیاں نظر آتی ہیں۔ ہر ڈیل میں اور سکینڈل میں وہ ملوث ہیں۔ ایک کنڑیکٹ میں وہ بلیک لسٹ ہوتے ہیں تو دوسرا مل جاتا ہے۔ پہلے ریلوے کے نام پر لوٹ مار ہوئی تو اب پاور سیکٹر کے نام پر ہو رہی ہے۔ چین خود، پالیوشن کی وجہ سے کوئلے کے پلانٹ بند کر رہا ہے اور ہمارے ہاں ساہیوال جیسی زرعی زمین پر بارہ سو ایکڑ پر کوئلے کا پلانٹ لگا دیا گیا ہے۔ اس کے نتائج وہی نکلیں گے جو چین میں نکلے۔ سپریم کورٹ میں ایک اور خوفناک انکشاف یہ ہوا کہ پاکستان میں جرمن، امریکن اور جاپانی سٹنٹ دل میں ڈالنے کی اجازت نہیں دی جا رہی، لیکن چینی اسٹنٹ ہر جگہ دستیاب ہیں۔ ہم امریکی اور یورپی ٹیکنالوجی چھوڑ کر چینی مال کے گاہک بن گئے ہیں۔
ہم سے تو بدو اچھے نکلے جنہوں نے مٹی میں ہاتھ ڈالا اور اسے سونا بنا دیا۔ ہم نے سونے کو مٹی میں بدل دیا۔ یقین کریں دوسروں کی ترقی دیکھ کر خوش ہونے کی بجائے دل جلتا ہے۔ دبئی کی ان قطار در قطار کھڑی بلند و بالا عمارتوں پر پاکستانیوں کا پیسہ لگا ہوا ہے۔
ایک منظر اور بھی دیکھا۔ جنرل مشرف، جن کا پاکستان میں پروٹوکول نہیں سنبھالا جا سکتا تھا وہ دبئی کے گرائونڈ کے باہر بغیر پروٹوکول کے موجود تھے۔ پاکستان میں یہ سب پروٹوکول کے بغیر سانس نہیں لے سکتے، لیکن یہاں سب اچھے بچے بن جاتے ہیں۔ ان سب کا یہ طوفان بدتمیزی پاکستان کے لیے ہے۔
دوسری طرف نجم سیٹھی اور شہریار خان نہیں سنبھالے جا رہے کہ وہ پی ایس ایل میں بکیوں کے ہاتھوں بکنے اور اب معطل ہونے والے کھلاڑیوں کو نہ چھوڑیں۔ ان کی بڑھکیں سن کر ہنسی آتی ہے۔ جب آپ نے پاکستان کولارڈز میں فروخت کرنے والے بائولر محمد عامر کو دوبارہ ٹیم میں لیا۔ ہمارے ٹی وی چینل کئی دن تک اس سزا یافتہ مجرم کی شادی دکھاتے رہے تو پھر جو کچھ ہوا اس پر حیرانی کیوں؟
کھلاڑی بھی تو وہی کچھ کر رہے ہیں جو انہوں نے اپنے حکمرانوں اور بیوروکریٹس سے سیکھا ہے کہ لُٹو تے پُھٹو! جب تک کھلاڑی کچھ پڑھے لکھے بیک گراونڈ سے آتے رہے کچھ شرم حیا تھی، اب تو اکثریت بمشکل پڑھی لکھی ہے اور اخلاقیات بھی اسی طرح زیرو۔ پیسہ ان کا پیر بن گیا ہے۔ دائو لگانے کے لیے ہمہ وقت تیار۔ شرجیل خان نے لندن کائونٹی کے ساتھ ستر ہزار پائونڈ کا معاہدہ کیا پھر بھی دبئی میں باز نہیں آئے۔
ایک لحمے میں اپنی اور ملک کی عزت بیچ دی۔ دوسری طرف نجم سیٹھی اور شہریار خان کی گیدڑ بھبکیاں سن کر ہسنی آتی ہے۔ جن حکمرانوں کے مقدمے سپریم کورٹ میں چل رہے ہیں یہ دونوں بزرگ ان کے ساتھ کام کرنے کو تو تیار ہیں لیکن جواری کھلاڑیوں کو برداشت نہیں کریں گے۔
صاحب یہ منافقت چھوڑیں اور ان جواریوں کے ساتھ ویسے ہی ایڈجسٹ کریں جیسے آپ دونوں نے کرپٹ حکمرانوں کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ زیادہ ڈرامے مت کریں۔ جب آپ دونوں جواریوں کو ٹیم میں دوبارہ لا کر ہیرو بنائیں گے تو پھر روازنہ اس ملک اور قوم کی عزت کے سودے ہوں گے۔ روزانہ عزت بکے گی۔
ویسے آپس کی بات ہے، اگر کسی کھلاڑی نے الٹا نجم سیٹھی اور شہریار خان سے پوچھ لیا کہ آپ بھی تو ان لوگوں کے بیگ اٹھاتے ہیں اور ان کی ملازمت کرتے ہیں جن پر پاناما، لندن اور دبئی میں حرام کے پیسے سے جائیدادیں بنانے کا مقدمہ چل رہا ہے؟ ہم نے کبھی پوچھا ہے یا اعتراض کیا ہے کہ آپ ہمارے یہاں دبئی میں بکیوں سے ملاقاتوں اور بکنے پر خفا ہیں؟
محمد عامر جیسے سزا یافتہ جواری کو دوبارہ ٹیم کا حصہ بنانے اور اسے دوبارہ ہیرو بنانے والے پاکستانی بورڈ اور اس کے عہدے داروں کو اب دبئی میں نئے جواریوں کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے کچھ شرم، کچھ حیا آنی چاہیے تھی۔