تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     12-02-2017

’’آئیے‘کھانا کھائیں‘‘! سٹیٹس کو کا حیلہ؟

ہمدمِ دیرینہ اسلم ڈوگر کے ہونہار صاحبزدے طلحہ نے مجھے واپڈا ٹائون سے لیا‘ تو پروفیسر ڈاکٹر مہدی حسن بھی اس کی گاڑی میں تھے۔ ڈاکٹر صاحب پنجاب یونیورسٹی ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد ایک نجی یونیورسٹی میں ڈین کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پاکستان میں رائٹ اور لیفٹ کی نظریاتی تقسیم میں ان کا شمار لیفٹ کے ممتاز دانشوروں میں ہوتا ہے۔ ان کا ایک حوالہ بھٹو صاحب کے پہلے وزیر خزانہ (پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل بھی رہے) ڈاکٹر مبشر حسن کا کزن ہونا بھی ہے۔ ان کے ساتھ بیس پچیس منٹ کی ہم سفری دلچسپ رہی۔
گجرات کے چودھریوں کا دستر خوان شروع ہی سے وسیع رہا ہے۔ گلبرگ لاہور میں بڑے چودھری صاحب (شہید) کی کوٹھی میں کھانے کی وسیع و عریض میز ڈائننگ ہال کے اندر ہی تیار کی گئی تھی کہ اسے باہر تیار کر کے اندر لے جانا مشکل تھا۔ چودھری صاحب کے انتقال کے بعد ان کے سیاسی جانشینوں نے بھی مہمان نوازی کی اس روایت کو زندہ رکھا۔ ''مٹی پائو‘‘ کے علاوہ ''روٹی شوٹی کھا کے جائو‘‘ بھی چودھری شجاعت کا معروف فقرہ ہے۔ لیکن ڈاکٹر مہدی حسن کے بقول ''آئیے کھانا کھائیں‘‘ در اصل کسی معاملے کو ٹالنے‘ بات کو بدلنے کا حربہ بھی ہے‘ سٹیٹس کو جاری رکھنے کا حیلہ۔ اس حوالے سے انہوں نے دلچسپ کہانیاں سنائیں:
سقوط مشرقی پاکستان کے بعد ''نئے پاکستان‘‘ میں ٹیک اوور کے بعد بھٹو صاحب لاہور آئے تو ڈاکٹر مبشر حسن کے ہاں میٹنگ میں اہم عہدوں پر تقرریوں کا معاملہ زیر بحث تھا۔ مہدی حسن‘ پنجاب یونیورسٹی میں لیکچرر شپ جوائن کر چکے تھے۔ ان کا ایک فوٹو گرافر دوست بھٹو صاحب کی تصاویر بنانا چاہتا تھا۔ اس کی سہولت کے لیے وہ بھی ساتھ ہو لیے۔ بھٹو صاحب انہیں جانتے پہچانتے تھے‘ چنانچہ یہ بھی میٹنگ میں بیٹھ گئے۔ پنجاب یونیورسٹی کی وائس چانسلر شپ کے لیے علامہ علائوالدین صدیقی کے جانشین کا معاملہ زیر غور آیا تو مہدی حسن نے صفدر میر کا نام تجویز کر دیا۔ صفدر میر اس دور کے ترقی پسند دانشوروں میں ممتاز مقام کے حامل تھے۔ وہ پاکستان ٹائمز میں ZENO کے قلمی نام سے کالم بھی لکھا کرتے۔ میٹنگ میں ایک حنیف رامے تھے‘ جنہوں نے اس تجویز کی حمایت کی اور یاد دلایا کہ صفدر میر انیس سال تک تدریس کے فرائض بھی انجام دیتے رہے ہیں۔ لیکن بھٹو صاحب کو یہ آئیڈیا پسند نہ آیا۔ بات آگے بڑھی تو انہوں نے مہدی حسن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا‘ یہ تو کمیونسٹ ہے۔ جواب میں ان کا خون بھی جوش میں آ گیا کہ آتش جواں تھا۔ ترکی بہ ترکی جواب دیا:1961ء میں جب آپ جنرل ایوب خاں کے وزیر تھے، میں اس کے مارشل لاء کی مخالفت پر منٹگمری (اب ساہیوال) جیل میں تھا۔ تب میزبان بروئے کار آیا: ''آئیے! کھانا کھائیں‘‘۔
ضیاء الحق کی رحلت کے بعد نومبر 1988ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں محترمہ بے نظیر بھٹو برسر اقتدار آئیں تو اپنی ترجیحات کے تعین کے لیے ہم خیال دانشوروں کے ساتھ مشاورت کا اہتمام کیا۔ مہدی حسن کا مشورہ تھا‘ پہلا کام تو یہ کریں کہ 5 جولائی 1977ء کے مارشل لاء سے تعاون کرنے والوں کے خلاف آرٹیکل6 کے تحت مقدمہ چلائیں اور دوسرا یہ کہ جنرل ضیاء الحق کا تابوت فیصل مسجد کے احاطے سے نکلوائیں کہ موصوف ایک متنازعہ شخصیت تھے جبکہ فیصل مسجد ایک نیشنل مانومنٹ ہے۔ اور اسے پورے فوجی اعزاز کے ساتھ فوجی قبرستان میں منتقل کر دیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ وعدے وعید‘ ضمانتوں اور یقین دہانیوں کے ساتھ وزارت عظمیٰ حاصل کرنے والی محترمہ بینظیر بھٹو نے مشاورت کا سلسلہ سمیٹا اور کہا: ''آئیے کھانا کھائیں‘‘۔
اور اب ڈاکٹر مہدی حسن‘ محترمہ نصرت بھٹو کے ساتھ ملاقات کی روداد سنا رہے تھے۔ نومبر 1988ء میں پنجاب اسمبلی کے انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد کا پلڑا بھاری رہا تھا (اسی کے نتیجے میں نواز شریف وزیر اعلیٰ بنے۔) نصرت بھٹو اس کا تجزیہ چاہتی تھیں۔ مہدی حسن کا کہنا تھا کہ 1970ء میں پیپلز پارٹی نے پنجاب میں قومی اسمبلی کی 83 میں سے 62 نشستیں جیتی تھیں،اب 1988ء میں یہاں قومی اسمبلی کی 115میں سے 67 نشستیں حاصل کیں اور اس کا سبب یہ ہے کہ آپ نے پارٹی کی 1970ء والی ''پروپیپل ‘‘ اور ''اینٹی اسٹیبلشمنٹ‘‘ ، ''اینٹی سٹیٹس کو‘‘ پالیسی چھوڑ دی اور ضیاء الحق کی وکٹ پر آ گئیں۔
ڈاکٹر صاحب نے یہاں ایک اور دلچسپ بات کی طرف بھی توجہ دلائی۔ نومبر1967ء میں لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے ہاں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تو اس کے29 تاسیسی ارکان میں 25 نئے چہرے تھے۔ یہ سب ''اینٹی اسٹیبلشمنٹ‘‘ ، ''اینٹی سٹیٹس کو‘‘ اور ''پروپیپل‘‘ سیاست کرنے آئے تھے۔ 1970ء کے انتخابات میں پنجاب میں اسٹیبلشمنٹ اور سٹیٹس کو کی تمام علامتیں‘ ساری قوتیں بھٹو اور پیپلز پارٹی کی مخالف تھیں۔ ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والوں کی غالب اکثریت مڈل اور لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتی تھی۔ اور 1977ء کے انتخابات کے لیے پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی فہرست پر بھی نظر ڈال لیں۔ یہاں کے سارے وڈیرے جو 1970ء میں بھٹو کے خون کے پیاسے تھے اب پیپلز پارٹی کے ٹکٹ ہولڈر تھے۔ پارٹی کا نظریاتی رُخ تو خود بھٹو صاحب کے دور میں بدل گیا تھا۔
پارٹی کی تنظیمی ابتری کے حوالے سے ڈاکٹر صاحب نے بیگم صاحبہ کو یاد دلایا کہ 1970ء کے لاہور میں پارٹی کے 500 تنظیمی یونٹ تھے، اب کتنے ہیں؟ شاید 50 بھی نہیں اور پارٹی کے سیکرٹری جنرل کو پنجاب کے اضلاع کے نام اور تعداد بھی شاید معلوم نہ ہو۔ بیگم صاحبہ خاموش تھیں، پھر وہی الفاظ کام آئے: ''آئیے! کھانا کھائیں‘‘۔
اور اب جنرل مشرف کی بریفنگ کا قصہّ۔ بات مکمل نہیں ہوئی تھی کہ ڈاکٹر مہدی حسن نے سوال کے لیے ہاتھ کھڑا کر دیا۔ جنرل کا کہنا تھا کہ ابھی بات جاری ہے۔ جنرل اپنی بات مکمل کر چکا تو اس کے وزیر اطلاعات شیخ رشید نے مائک سنبھالا اور اپنے پسندیدہ اخبار نویسوں کے چار پانچ سوالات لینے کے بعد بریفنگ سمیٹ دی۔ لیکن ڈاکٹر مہدی حسن ڈٹ گئے۔ جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا‘ سوال کے لیے سب سے پہلے میں نے ہاتھ کھڑا کیا تھا۔ اب آپ میری بات سنے بغیر نہیں جا سکتے۔ شیخ کھسیانا سا ہو گیا‘ جنرل نے دوبارہ نشست سنبھال لی۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا‘ قومی تعمیر و ترقی کے لیے آپ کے عزائم اپنی جگہ‘ لیکن آپ کو ایک واضح نیشنل پالیسی بھی دینا ہو گی اور اس کے لیے انہوں نے قائد اعظم کی گیارہ اگست کی تقریر تجویز کی (ڈاکٹر صاحب اور ان کے ہم خیال دانشور جسے سیکولر ازم کا حوالہ بناتے ہیں۔) لبرل ازم اور روشن خیالی میں ڈکٹیٹر بھی کم نہ تھا لیکن وہ پاکستانی معاشرے میں ''ملاّ‘‘ کے اثر و رسوخ اور مسجد و مدرسے کی طاقت سے بھی بخوبی آگاہ تھا۔ صوبہ سرحد میں تو ''ملاّ‘‘ کی حکومت بھی تھی۔ ڈاکٹر مہدی حسن کے مفت مشورے پر عملدرآمد آسان نہ تھا۔ تب آواز آئی: ''آئیے کھانا کھائیں‘‘ اور ڈائننگ ہال میں ڈکٹیٹر کے بعض ساتھی چپکے سے کہہ رہے تھے، آپ نے صحیح مشورہ دیا‘ آپ کی بات درست تھی، جس پر ڈاکٹر صاحب چڑ گئے: ''لیکن وہاں آپ نے میری تائید کیوں نہ کی‘‘؟
جون ایلیا یاد آئے ؎
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved