تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     12-02-2017

شوگر ملز، حکمرانی اور کاروبار کا حسین امتزاج

جب تک کاروبار اور کارِ سرکار دو علیحدہ علیحدہ چیزیں تھیں تب تک معاملات میں کچھ نہ کچھ توازن برقرار تھا، مگر جونہی دونوں کام یعنی کاروبار اور کارِ سرکار میں باہمی تعاون شروع ہوا، توازن غائب ہو گیا۔ ایک زمانہ تھا پنجاب کی شوگر ملیں صرف اور صرف کاروباری افراد اور خاندانوں کی ملکیت ہوتی تھیں۔ کچھ قاعدے ضابطے تھے جن پر عمل ہوتا تھا۔ زون تھے جن میں شوگر ملیں لگ سکتی تھیں اور کچھ زون تھے جہاں شوگر ملز لگانے پر پابندی تھی۔ ہر شوگر مل کا علاقہ مختص تھا جہاں سے وہ گنا خرید سکتی تھی اور اس زون سے باہر گنا خریدنا دوسری مل کے لیے ممکن نہ تھا۔ ہر مل اپنے زون میں کاشتکاروں کو گنے کی کاشت میں سہولیات فراہم کرتی تھی۔ گنے کی فصل کی ادائیگی بر وقت کرتی تھی کہ اسے پتا تھا اگلے سال انہی کاشتکاروں اور زمینداروں سے گنا خریدنا ہے، ان سے کسی قسم کی ہینکی پھینکی نہیں کی جا سکتی۔ مجبوراً کل انہی کے در پر حاضری دینی پڑے گی۔ پنجاب میں پتوکی‘ کمالیہ اور پسرور شوگر ملز پنجاب انڈسٹریل ڈویلپمنٹ بورڈ کی ملکیت تھیں جبکہ لیہ شوگر ملز تھل انڈسٹریز کارپوریشن کی ملکیت۔ 
بہاولنگر کی تحصیل چشتیاں میں آدم شوگر ملز‘ بہاولپور میں اشرف شوگر ملز‘ خان پور میں حئی سنز شوگز ملز‘ صادق آباد میں یونائیٹڈ شوگر ملز‘ دریا خان میں فیکٹو شوگر ملز‘ جڑانوالہ میں حسین شوگر ملز‘ بھلوال میں نون شوگر ملز‘ جھنگ میں شکر گنج ملز‘ اوکاڑہ میں بابا فرید شوگر ملز‘ فیصل آباد میں کریسنٹ شوگر ملز، جوہر آباد میں کوہ نور شوگر ملز اور منڈی بہائوالدین میں شاہ تاج شوگر ملز تھیں۔ یہ تقریباً تمام شوگر ملز کاروباری افراد یا خاندانوں سے وابستہ تھیں۔ نون فیملی‘ حئی سنز والے‘ فیکٹو گروپ‘ کریسنٹ گروپ‘ سہگل اور اسی قبیل کے خاندان اور لوگ شوگر ملز کے مالکان تھے۔ نہ سیاسی پاوا اور نہ زور آوری۔ سیدھا سا کاروبار تھا اور طے شدہ قاعدے ضابطے۔ پھر سیاسی خاندان اس کاروبار میں داخل ہو گئے۔ پنجاب میں پہلی زور دار انٹری اتفاق گروپ کی تھی۔ تب اس گروپ میں واقعتاً اتفاق ہوتا تھا۔
اتفاق گروپ نے پنجاب میں جہاں اپنی شوگر ملیں لگانے کا آغاز کیا وہیں انہوں نے اتفاق فائونڈری کی تیار کردہ شوگر ملز کی مشینری بھی بیچنی شروع کر دی۔ بقول شخصے‘ تب صرف ایسی پارٹی کو شوگر مل لگانے کا لائسنس ملتا تھا جو اتفاق والوں سے مشینری خریدتا تھا۔ اتفاق شوگر ملز ساہیوال‘ حسیب وقاص شوگر ملز ننکانہ صاحب‘ برادر شوگر ملز چونیاں‘ عبداللہ شوگر ملز دیپالپور و سرگودھا‘ کشمیر شوگر ملز شورکوٹ‘ چوہدری شوگر ملز گوجرہ اور رمضان شوگر ملز چنیوٹ حکمران خاندان کے افراد کی ملکیت ہیں۔ زون بندی ختم ہو گئی۔ کاٹن ایریا میں شوگر ملز لگانے پر جو پابندی تھی وہ ختم ہو گئی۔ گنے کی خریداری کے لیے کوئی خاص زون یا ایریا کی قید نہ رہی۔ جس مل کا جہاں سے جی چاہا گنا خرید لیا۔ اس سے ایک بڑی قباحت یہ پیدا ہوئی کہ ایک سال ایک مل نے ایک علاقے کے کاشتکاروں کو لوٹا، ان سے گنا خریدا، سی پی آر ہاتھ پکڑائی اور ادائیگی کے لیے ملز کے چکر لگوانے شروع کر دیے۔ بعض لوگوں کو دو دو سال تک ادائیگی نہ کی۔ ایک سال تک ادائیگی نہ کرنا تو تقریباً معمول بن گیا۔ اگلے سال دوسرے علاقے سے گنا خرید لیا اور دوسرے علاقے کے کاشتکاروں کے ساتھ ہاتھ کر دیا۔
میاں صاحبان کی دیکھا دیکھی چوہدری بھی میدان میں آ گئے، خانیوال اور پھالیہ میں دوشوگر ملز لگا لیں۔ پنجاب میں اپنی حکومت کے دوران انہوں نے یہ دونوں ملز آگے فروخت کر دیں اور شنید ہے اس پیسے سے سپین میں پراپرٹی خرید لی۔ بہرحال اس کے بعد سیاستدانوں کا ایک سنہرا دور شروع ہوا جس میں انہوں نے گنے کے کاشتکاروںکے استحصال سے نوٹ بنانے شروع کر دیے۔ نوبت یہاں تک آ گئی کہ پرانے کاروباری اور صنعت کاروں سے کئی ملز سیاستدانوں نے یا ان کے ہالیوں موالیوں نے خرید لیں۔ ہمایوں اختر و جہانگیر ترین اینڈ کمپنی مع مخدوم احمد محمود وغیرہ بھی شوگر ملز کے مالکان میں شامل ہو گئے۔ اس دوران پنجاب کی چار چلتی ہوئی سرکاری شوگر ملز بھی اپنے چاہنے والوں کے سپرد کر دیں۔ اسی دوران ایک اور چکر چلایا گیا اور پہلے سے منظور شدہ ملز کے نام پر ہی ان کا یونٹ نمبر دو لگانے کا گھپلا شروع کر دیا، ایک یونٹ کہیں اور دوسرا کہیں اور لگانا شروع کر دیا۔ مثلاً تاندلیانوالہ شوگر ملز شروع میں فیصل آباد کے قریب کنجوانی تحصیل سمندری میں تھی، اس کا یونٹ نمبر دو مظفرگڑھ میں لگایا گیا۔ یہ شوگر ملز ہارون اختر وغیرہ کی تھی۔ میاں صاحبان کی فیملی کی یوسف شوگز ملز کا نام عبداللہ شوگر ملز ہو گیا اور اس کا ایک یونٹ دیپالپور اوکاڑہ میں تھا تو دوسرا یونٹ شاہ پور سرگودھا میں بن گیا۔ قانون ساز خود شوگر ملز کے مالکان تھے، لہٰذا جو قانون اپنے لیے مناسب سمجھا بنا لیا۔ راوی اس حساب سے ہر طرف چین لکھتا تھا۔
سندھ میں تو آپ پوچھیں ہی نہ کہ کیا ہوا۔ سندھ میں کل اڑتیس شوگر ملز تھیں۔ زرداری صاحب، جن کی ملکیت کبھی کراچی میں ایک بی کلاس کا سینما ہوا کرتا تھا، چند ہی سالوں میں سندھ کی کئی شوگر ملز کے مالک بن گئے۔ کئی صنعت کاروں نے اپنی ملیں جس طرح ان کے حوالے کیں وہ قصے سینہ بہ سینہ بہت سے لوگوں تک پہنچے ہوئے ہیں، تاہم یہ باتیں کاغذوں میں کہیں نہیں ملتیں۔ محتاط اندازے کے مطابق اس وقت ان اڑتیس شوگر ملز میں سے سترہ کے لگ بھگ ملز کسی نہ کسی طور زرداری صاحب سے وابستہ ہیں۔ ان میں دادو‘ نوڈیرو‘ سکرنڈ‘ بانڈی‘ ٹنڈو اللہ یار‘ باوانی‘ کھوسکی‘ انصاری‘ چنبڑ‘ لاڑ‘ سیری‘ پانگریو اور ٹھٹھہ شوگر ملز کے نام لیے جاتے ہیں۔ یہ تیرہ ملز ہیں، چودھویں وہی مرزا شوگر ملز تھی جس پر زرداری اور مرزا کا باہمی پھڈا شروع ہوا۔ شنید ہے کہ ذوالفقار مرزا سے جھگڑے کی ابتدا ایک شوگر ملز کی ملکیت سے شروع ہوا جس کے فرنٹ مین مرزا صاحب تھے اور جب واپس مانگی گئی تو پھڈا پڑ گیا۔ گزشتہ چند سالوں سے زرداری صاحب اپنے فرنٹ مین انور مجید کے ذریعے یہ ملز کاشتکاروں سے زور زبردستی کے ذریعے گنا خرید کر چلا رہے تھے۔ نہ پوری ادائیگی ہو رہی تھی اور نہ ہی سرکاری ریٹ دیا جا رہا تھا۔ گزشتہ چند برس تو یہ چلتا رہا، اس سال جب علاقے کے کاشتکاروں سے زبردستی گنا سستے بھائو خریدنے کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا اور بذریعہ پولیس گنے کی ٹرالیاں زبردستی زرداری صاحب کی ملز میں پہنچانے کا معاملہ آئی جی سندھ پولیس تک پہنچا تو انہوں نے مقامی پولیس کے افسران کو ایسا کرنے سے منع کر دیا اور خلاف ورزی کی صورت میں محکمانہ کارروائی کی دھمکی دی۔ اس پر زرداری صاحب بذریعہ انور مجید ہونے والی سپلائی مہم میں رکاوٹ ڈالنے پر آئی جی صاحب کے خلاف بھڑک اٹھے اور وزیر اعلیٰ کے ذریعے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو زبردستی چھٹی پر بھجوانے کے درپے ہو گئے اور اس پر عملدرآمد بھی کروا لیتے تاہم ہائی کورٹ نے اس ''زبردستی کی چھٹی‘‘ کے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔ واقفان حال بتا رہے تھے کہ زرداری صاحب کی دو ملیںدادو شوگر ملز اور پانگریو شوگر ملز تو گنا نہ ملنے کے سبب بند پڑی ہیں۔ اگر آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ ہمت نہ کرتے تو علاقے کے کاشتکار ایک سو اسی روپے من والا گنا زرداری صاحب کی ملز کو ایک سو پچاس روپے فی من میں اسی طرح فروخت کرتے جس طرح پہلے معاملہ چل رہا تھا، تو زرداری صاحب کی یہ ملیں بھی چل رہی ہوتیں۔ یہ بات الگ ہے کہ اگلے سال یہ سارے کاشتکار اس ایک سو پچاس روپے فی من فروخت والی رقم کو بھی رو رہے ہوتے۔ 
ادھر پنجاب میں حکمرانوں نے ایک اور گیم شروع کر دی اور اپنی تین شوگر ملیں جو ساہیوال‘ ننکانہ صاحب اور گوجرہ میں چل رہی تھیں وہاں سے اکھاڑ کر کپاس پیدا کرنے والے جنوبی پنجاب میں منتقل کرنا شروع کر دیں۔ ساہیوال سے اکھاڑی گئی اتفاق شوگر ملز چنی گوٹھ صادق آباد ضلع رحیم یار خان ۔ حسیب وقاص شوگر ملز ننکانہ صاحب سے علی پور ضلع مظفر گڑھ اور چوہدری شوگر ملز گوجرہ سے اکھاڑ کر کوٹ سمابہ ضلع رحیم یار خان منتقل کر دی۔ رحیم یار خان اور اس کے نواح میں جہانگیر ترین کی بھی شوگر ملز تھیں، انہوں نے اپنی ملز کو ملنے والے گنے کے تحفظ کے لیے اس منتقلی کے خلاف ہائی کورٹ میں کیس دائر کر دیا جو بظاہر تو کپاس کے علاقے کے تحفظ کے نام پر کیا گیا مگر حقیقت تھوڑی مختلف ہے۔ تاہم ہائی کورٹ نے اس پر حکم امتناعی جاری کر دیا ہے۔
شوگر ملز لگانا دراصل ہیروئن کے نشے جیسا معاملہ ہے اور ایک بار منہ کو لگ جائے تو چھوٹنے کا نام نہیں لیتا۔ گزشتہ سے پیوستہ سال گنے کا ریٹ ایک سو اسی روپے من اور چینی کا بھائو چالیس روپے فی کلو تھا۔ اس سال بھی گنے کا بھائو ایک سو اسی روپے فی من ہی ہے جبکہ چینی پینسٹھ روپے من فروخت ہو رہی ہے۔ ملز مالکان دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹ رہے ہیں اور کاشتکار مل کے باہر دھکے کھا رہے ہیں۔ ملز سے بقایا جات وصول کرنے والے تو چلیں پھر بھی تھوڑی سہولت میں ہیں کہ ان کی نادہندہ ملز زیادہ فاصلے پرنہیں، البتہ گوجرہ‘ ننکانہ صاحب اور ساہیوال کی ملز سے بقایا جات لینے والوں کا کیا بنے گا جنہیں علی الترتیب کوٹ سمابہ رحیم یار خان‘ علی پور ضلع مظفر گڑھ اور چنی گوٹھ تحصیل صادق آباد ضلع رحیم یار خان جانا پڑے گا؟
میں کہہ چکا ہوں کہ جب سے کاروبار اور کار سرکار یکجا ہوئے ہیں سارا معاملہ خراب ہو گیا ہے، تاہم یہ حسین امتزاج شوگر ملز مالکان کے لیے بڑا سعد ثابت ہوا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved