تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     12-02-2017

روشنی کی کرنیں

علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے اور اُمیّ کو تعلیم دینا ارشادات نبویہؐ کے عین مطابق ہے۔ آج کے اس تیز رفتار دور میں افراد کے پاس دوسروں کے لیے وقت کم رہ گیا ہے۔ حکومت کا تعلیمی شعبہ روبہ زوال ہے آبادی بے تحاشا بڑھ رہی ہے لاکھوں بچے سکولوں سے باہر ہیں علم دنیاوی ترقی کا زینہ بھی ہے۔ غرباء کے بچوں کو جاہل رکھ کر ہم سماجی بُعد و تفریق مزید بڑھا رہے ہیں‘ اشرافیہ کا اقتدار اور وسائل پر کنٹرول مزید مضبوط کر رہے ہیں۔
اسلام آباد اور اس کے گردو نواح میں مجھے چند ایسے لوگ ملے ہیں جو ظلمتِ شب کا رونا رونے کی بجائے تعلیم کے اہم شعبے میں اپنے اپنے حصے کی شمعیں جلا رہے ہیں ان تمام لوگوں میں غریبوں کی مدد کرنے کا جذبہ نظر آتا ہے وہ پاکستان سے جہالت کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں وسائل کی کمی اور نامساعد حالات نے ان کے جذبے کو ماند نہیں پڑنے دیا آج پاکستان کو ایسے انسان دوست جنونی درکارہیں۔
ان عظیم لوگوں میں سب سے پہلے ماسٹر ایوب کا ذکر مناسب ہو گا کیونکہ وہ اس کار خیر میں سب سے سینئر ہیں۔ ماسٹر ایوب دراصل اسلام آباد میں سی ڈی اے کے فائر بریگیڈ کے ملازم ہیں لیکن روزانہ شام کو سپر مارکیٹ کے پاس ایک پارک میں کھلے آسمان کے نیچے غریب بچوں کو تعلیم بلا کسی معاوضے کے دیتے ہیں اور یہ عمل 1982ء سے مسلسل جاری ہے بچے اپنی چٹائیاں گھروں سے خود لاتے ہیں۔ ماسٹر ایوب بچوں کو کاغذ پنسل خود خرید کر دیتے ہیں ایک بلیک بورڈ اور دو کرسیاں ایک ہمسائے کے گھر سے آ جاتی ہیں اور ہر شام یہ سکول آباد ہو جاتا ہے۔
یہ سکول اب پارک سکول کے نام سے مشہور ہے۔ ماسٹر ایوب قریب ہی واقع کرسچین کالونی کے ایک کچے گھر میں رہتے ہیں۔ وہ گلی کوچوں میں آوارہ پھرنے والے بچوں کو تعلیم کی ترغیب دیتے ہیں وہ گھروں میں محنت مزدوری کرنے والی مائوں کو کہتے ہیں کہ اپنے بچے ان کے پاس بھیجیں اس سکول میں نہ کوئی انٹری ٹیسٹ ہے اور نہ کوئی داخلہ فیس۔ اگر کوئی داخلے کے لیے شرط ہے تو وہ غریب اور نادار ہونا ہے۔ 1982ء میں جو لڑکا سب سے پہلے اس سکول میں داخل ہوا اس کا نام اسلم تھا اور وہ سپر مارکیٹ میں دن کو کاریں دھوتا تھا‘ شام کو ایوب صاحب کے سکول آنے لگا۔ اس کام کی ابتداء ہوئی تو اور لڑکے لڑکیاں آنے لگے پھر اس عظیم انسان نے فرحت عباس نامی لڑکے کو اپنے سکول کی طرف راغب کیا یہ لڑکا جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر اپنے خاندان کی مدد کرتا تھا‘ سنا ہے کہ فرحت اب بی اے میں ہے۔
انسانیت کا ایک اور محسن خاندان گولڑہ کے علاقے میں آٹھ پرائمری سکول چلا رہا ہے نئی کرن نامی ان سکولوں کو جمشید اختر قریشی ایجوکیشن ٹرسٹ چلا رہا ہے۔ ٹرسٹ 2000ء میں رجسٹر ہوا اور آج مستفیض ہونے والے بچوں کی تعداد اٹھارہ سو سے تجاوز کر چکی ہے۔ پہلی کلاس کے بچوں سے تیس روپے کی علامتی فیس لی جاتی ہے جبکہ پانچویں جماعت کے بچوں کی ماہانہ فیس ایک سو بیس روپے ہے۔ سال میں ایک مرتبہ یونیفارم اورکتابیں سکول والے مفت دیتے ہیں جو بچہ فیس نہ دے سکے اس کی بھی تعلیم جاری رہتی ہے سکول میں چالیس فیصد تعداد لڑکیوں کی ہے۔ ایک ٹیچر کی اوسطاً ماہانہ تنخواہ بارہ ہزار روپے ہے۔
قریشی فیملی کو میں عرصے سے جانتا ہوں کہ ہمارے بچے اسلام آباد کے ایک ہی سکول میں پڑھتے تھے۔ یہ پڑھے لکھے اور علم دوست لوگ ہیں۔ فیملی کے کئی لوگ امریکہ چلے گئے ہیں لیکن پاکستان کو فراموش نہیں کیا۔ ٹرسٹ کا سالانہ بجٹ ایک کروڑ روپے ہے اور یہ تمام عطیات سے آتا ہے۔ تقریباً ایک چوتھائی یعنی پچیس لاکھ روپیہ امریکہ سے آتا ہے پچھتر(75 ) لاکھ روپے پاکستان سے جمع ہوتے ہیں حال ہی میں ان سکولوں میں تعلیم کا جدید نظام مانٹی سوری Montessori متعارف کرایا گیا ہے۔
کوئی دو سال ہوئے قریشی فیملی نے خواہش ظاہر کی میری فیملی بھی عطیات دینے والوں میں شامل ہو جائے ساتھ ہی یہ تجویز دی گئی کہ عطیہ دینے سے پہلے آپ ایک سکول خود دیکھ آئیں چنانچہ ہم سکول دیکھنے گولڑہ کے مضافات میں گئے۔ پورا سکول تین چار سو گز کا پلاٹ تھا۔ کونے میں ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جسے آپ سٹاف روم کہہ سکتے ہیں۔ بچوں کو دھوپ اوربارش سے بچانے کے لیے ٹین کی چھت لوہے کے پائپوں پر لگا دی گئی تھی۔ میر آباد اور میرا جعفر غربا کی بستیاں ہیں‘ سکول کرائے پر لیا گیا تھا اور ماہانہ کرایہ دس ہزار روپے تھا۔ تمام ٹیچر اور سٹوڈنٹ مقامی تھے میں نے ایک گھنٹہ اپنی فیملی کے ساتھ سکول میں گزارا ٹیچرز اور بچوں سے باتیں کیں اور کافی متاثر واپس لوٹے ان سکولوں کے پڑھے ہوئے کئی طلباء اب سکینڈری سکولوں اور کالجوں میں زیر تعلیم ہیں۔
اسلام آباد کے مضافات میں بارہ کوہ اور سملی ڈیم کے درمیان پنڈیگوال Begwalنام کا گائوں واقع ہے۔ 2005ء میں اسی گائوں کے رہائشی راجہ قیصر غفار کی شادی آنسہ سعدیہ سے ہوئی۔ راجہ قیصر کا خواب تھا کہ گائوں کے غریب بچوں کی تعلیم کا مفت بندوبست کیا جائے۔ انہوں نے اپنی خواہش کا ذکر شریک حیات سے کیا تو دلہن اس کار خیر کے لیے خاوند کے ساتھ فوراً شریک ہو گئیں۔ سکول کرائے پر لیے گئے ایک کمرے سے شروع ہوا۔ پہلی کلاس میں پچیس بچے داخل ہوئے۔ آج اس سکول میں جس کا نام House of lightہے۔ دوسو ستر(270) بچے زیر تعلیم ہیں۔ دسویں جماعت والے ان دنوں فیڈرل بورڈ کے میٹرک کے امتحان کی تیاری کر رہے ہیں۔
سکول میں مزید بچے داخل ہو گئے تو بڑی عمارت کی ضرورت محسوس ہوئی۔ راجہ قیصر نے اٹھارہ کنال ذاتی زمین سکول کو عطیہ کر دی۔ عمارت کے لیے ڈونرز کی تلاش شروع ہوئی تو جاپان کے سفارت خانہ نے ایک کروڑ روپے کی گرانٹ دی۔ 2013ء میں اس رقم سے بارہ کمروں پر مشتمل سکول کی عمارت بن گئی۔
ہائوس آف لائٹ سکول میں داخلے کی واحد شرط یہ ہے کہ والدین کی ماہانہ آمدنی بارہ ہزار یا اس سے کم ہو۔ بچوں سے کوئی فیس نہیں لی جاتی۔ یونیفارم کتابیں اور سٹیشنری سکول انتظامیہ بچوں کو مفت دیتی ہے راجہ قیصر کی بیگم سکول کی ہیڈ مسٹریس ہیں اور بچے انہیں میڈم سعدیہ کہتے ہیں اس نیک دل اور پرعزم خاتون کے لیے بچوں کی محبت اور احترام کا میں خود شاہد ہوں۔
سابق سفیر افضال اکبر خان میرے پرانے کولیگ اور دوست ہیں وہ باقاعدگی سے ہائوس آف لائٹ جاتے ہیں وہاں انتظامی امور اور اکائونٹس کی نگرانی کرتے ہیں۔ سکول کا سارا نظام عطیات پر چل رہا ہے افضال اکبر سکول کے حساب کتاب کی شفافیت سے مکمل طور پر مطمئن ہیں اپنے اچھے کاموں کی وجہ سے راجہ قیصر غفار تحریک انصاف کے ٹکٹ پر مقامی یونین کونسل کے چیئرمین منتخب ہوچکے ہیں۔
ڈاکٹر عتیقہ ریٹائرڈ میڈیکل ڈاکٹر ہیں کافی عرصہ ملائشیا میں یو این کا جاب کیا اور ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آ گئیں۔ ڈاکٹر صاحبہ فلاحی کاموں میں پیش پیش رہتی ہیں وہ ہائوس آف لائٹ سکول باقاعدگی سے جاتی ہیں اور بچوں کی صحت کی نگرانی کرتی ہیں۔ چند ماہ قبل میں نے ایک دن اس سکول کے بچوں اور ٹیچرز کے ساتھ گزارا۔ بچے ایمبیسیڈر افضال اکبر اور ڈاکٹر عتیقہ کا بے حد احترام کرتے ہیں اور میڈم سعدیہ کے تو دیوانے ہیں۔ ڈاکٹر عتیقہ نے مجھے بتایا کہ چالیس فیصد بچے غذا کی کمی کا شکار ہیں اور ان کے خون میں ہیمو گلوبن Hemoglobinکی کمی ہے سکول والے دوپہر کو کھانے کے لیے بسکٹ یا تھوڑا سا پھل دیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کا کہنا تھا کہ ایک دو بچوں کے والدین اتنے غریب ہیں کہ وہ انہیں ناشتہ تک نہیں دے سکتے اور یہ بچے سکول کے ہلکے پھلکے لنچ کا بیتابی سے انتظار کرتے ہیں۔
ان تینوں تعلیمی اداروں کاجائزہ لینے کے بعد میری حکومت سے درخواست ہے کہ اسلام آباد کے کسی سکول کو ماسٹر ایوب کے نام سے منسوب کر دے اس شخص نے پینتیس (35) سال غریبوں کی بے لوث خدمت کی ہے ہائوس آف لائٹ والے سکول میں سائنس اور کمپیوٹر لیبارٹری بنانا چاہتے ہیں وہاں بھی حکومتی مدد درکار ہے راجہ قیصر غفار کا تحریک انصاف میں ہونا اس امر میں مانع نہیں ہونا چاہیے کہ بچے غیر سیاسی ہوتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved