ہار تین قسم کا ہوتا ہے۔۔۔۔ سونے یا چاندی کا ہار‘ پھولوں کا ہار اور جوتیوں کا ہار۔ ان میں سب سے سستا جوتیوں کا ہار ہے جس پر کچھ بھی خرچ نہیں آتا کیونکہ گھر بھر کی جوتیاں اکٹھی کر کے اور انہیں آپس میں پرو کر یہ ہار تیار کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لوازمات میں سے یہ بھی ہے کہ جس شخص کو جوتیوں کا ہار پہنانا مقصود ہو اس کا منہ کالا کر کے اورگدھے پر سوار کر کے بازار میں پھرایا بھی جاتا ہے لیکن گدھے چونکہ مفقود ہو گئے ہیں کہ یار لوگوں نے ان کی کھالیں اتار اتار کر اور گوشت بیچ بیچ کر ان کا بیج ہی مار دیا ہے‘ اس لیے جوتیوں کا ہار پہننے والے کو اب پیدل ہی چلنا پڑتا ہے۔ سونے کے اور جڑائو ہار کی ایک اپنی تاریخ ہے جو بینظیر بھٹو سے لے کر سید یوسف رضا گیلانی تک پھیلی ہوئی ہے۔ ہار کا مطلب شکست بھی ہے اس لیے یہ زیور زیادہ پسند نہیں کیا جاتا؛ تاہم خواتین کا اب بھی یہ پہلا چوائس ہے۔ منقول ہے کہ میاں بیوی لیٹے ہوئے تھے کہ بیوی کو کھانسی آئی جس پر میاں بولے‘ ''بیگم تمہارے گلے کے لیے کچھ لائوں؟‘‘ بیوی بولی، ''ہاں‘ وہ جڑائو ہار جو ہم نے پچھلے ہفتے جیولر کے ہاں دیکھا تھا!‘‘
انگوٹھی
اصولی طور پر اسے انگوٹھے میں پہننا چاہیے لیکن یہ انگلی میں پہنی جاتی ہے اس لیے اس کا نام انگھیٹی کی طرح کا ہونا چاہیے۔ یہ ہوتی تو منگنی پر پہننے کے لیے ہے لیکن شادی کے موقع پر اسے پہننا ایک مفت کی فضول خرچی ہے جبکہ اس کے لیے ایک انگلی بھی مخصوص ہے جسے رنگ فنگر کہا جاتا ہے۔ یہ نگینے والی بھی ہوتی اور اس سے مہر کا کام بھی لیا جاتام ہے لیکن اب شاید یہ رواج ختم ہو چکا ہے۔ بغیر نگینے کے ہو تو یہ چھلا کہلاتی ہے جو نشانی کے طور پر بھی دیا اور لیا جاتا ہے۔ نگینے کی جگہ مختلف قسم کے پتھر بھی استعمال ہوتے ہیں، اسے انگریزی میں رنگ کہتے ہیں۔ اسی طرح ایک رِنگ لیڈر بھی ہوتا ہے جو اپنی انگوٹھی سے پہچانا جاتا ہے۔ رنگ روڈ کے لیے ذرا بڑی انگوٹھی بنوانا پڑتی ہے۔ منقول ہے کہ ایک خاتون نے ایک بڑی مہنگی انگوٹھی بنوائی۔ وہ کئی روز تک اسے پہنے پھری لیکن اس کا کسی نے نوٹس ہی نہ لیا۔ اسے ایک ترکیب سوجھی اور اس نے اپنے گھر کو آگ لگا دی۔ لوگ اکٹھے ہو گئے، ایک نے پوچھا کہ آگ کس طرف سے لگی ہے تو خاتون نے انگوٹھی والی انگلی سے اشارہ کر کے بتایا جس پر شخص مذکورہ نے پوچھا‘ یہ اتنی اچھی انگوٹھی کب بنوائی ہے تو وہ بولی‘ ''اگر پہلے پوچھ لیتے تو مجھے گھر کو آگ ہی نہ لگانا پڑتی‘‘۔
آویزہ
یہ کان کا زیور ہے اور چونکہ ہر وقت لٹکتا رہتا ہے اس لیے آویزہ کہلاتا ہے۔ کانٹا‘ جُھمکا اور بالی اس کے مزید نام ہیں۔ ایک وزن کرنے والا کانٹا بھی ہوتا ہے لیکن یہ صرف کان کا وزن کرتا ہے۔ جھمکے کا اب کچھ زیادہ رواج نہیں رہا کیونکہ یہ عام طور پر گر جاتا ہے اور وہ بھی بریلی کے بازار میں۔ ڈاکو حضرات کے پاس چونکہ زیادہ وقت نہیں ہوتا اس لیے وہ کانٹا اتارنے کی زحمت اٹھانے کی بجائے کان سے نوچ کر ہی اتار لیتے ہیں، لہٰذا خواتین کو اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اسے پہننے کے لیے پہلے کان بیندھنا پڑتے ہیں جو کہ ایک خاصا غیر انسانی فعل ہے جو ایزد خداوندی کے بھی بغیر ہوتا ہے ورنہ اللہ میاں کی طرف سے خواتین کی پیدائش کے وقت ہی یہ کام ہو چکا ہوتا۔ بھارتی فلمی ہیروز بھی کان بیندھوانا ضروری سمجھتے ہیں جن میں وہ کوئی چھوٹی موٹی چیز پہنے رہتے ہیں۔ بعض اوقات انہیں پہچاننے میں بھی دقت ہوتی ہے کہ یہ ہیرو ہے یا ہیروئن؟
چُوڑی
اس زیور کے بغیر خاتون کو مکمل نہیں سمجھا جاتا۔ کانچ کی چوڑی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اسے توڑ کر معلوم کیا جا سکتا ہے کہ محبوب آپ کو یاد کر رہا ہے یا نہیں۔ ایک چُوڑی دار پاجامہ بھی ہوتا ہے جسے الگ سے چوڑیاں پہنانا پڑتی ہیں۔ فلم ''چوڑیاں‘‘ بنا کر باقی زیورات کے ساتھ زیادتی کی گئی تھی۔ کپڑوں کے ساتھ میچنگ کر کے بھی پہنی جاتی ہے۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو جوتے کے ساتھ میچنگ کر کے بھی گزارہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک گھڑی چوڑی بھی ہوتی ہے جس پر ایک گھڑی الگ سے لگوانا پڑتی ہے۔ کمزور حریف کو بھی چوڑیوں کا تحفہ بھیجا جاتا ہے، اس کی بزدلی یا کمزوری ظاہر کر نے کے لیے یا یہ کہا جاتا ہے کہ ہم نے کوئی چوڑیاں نہیں پہن رکھیں یعنی ع
جو آئے آئے کہ ہم دل کُشادہ رکھتے ہیں
پازیب
یہ پائوں کا زیور ہے جو پائوں کی بد صورتی چھپانے کے لیے پہنا جاتا ہے۔ اسے پائل بھی کہتے ہیں جس میں چھم چھم کے گیت ہوتے ہیں اور یہ زیادہ تر گیت سننے یا سنوانے کے لیے پہنی جاتی ہے اور جس کے لیے گوری کا تھم تھم کے چلنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ ڈانس کے لیے یہ جزو اعظم کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ یہ اگر پہنی ہوئی نہ ہو تو یقین ہی نہیں آتا کہ ناچ ہو بھی رہا ہے یا نہیں ورنہ آنگن ٹیڑھا ہی نظر آتا ہے جس میں ناچنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ پایل دراصل ٹخنے کے اوپر والے حصے پر پہننے کی چیز ہے اس لیے اسے پائوں کی چوڑی کہنا زیادہ درست نہیں ہے۔
کوکا
یہ ناک کا زیور ہے اس لیے اس کا نام نوکا ہوتا تو زیادہ بہتر تھا۔ اس کا سائز اس قدر چھوٹا ہوتا ہے کہ گویا ع
ہر چند کہیں کہ ہے‘ نہیں ہے
اس میں اگر دھاگا ڈال دیا جائے تو اچھی خاصی نکیل کا بھی کام دے سکتا ہے یعنی ایک پنتھ دو کاج۔ بیوی کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کے لیے تیر بہدف ہے ورنہ تو ناک میں پہننے کی اصل چیز کو کا نہیں بلکہ نتھلی ہے جو تقریباً جھمکے ہی کی طرح سجائی جاتی ہے۔ موتیوں یا نگوں کے ساتھ البتہ کوکے کی سہولت یہ ہے کہ خواتین اسے ہر وقت سوتے جاگتے پہنے رکھتی ہیں اور بعض اوقات یاد بھی نہیں رہتا ہے کہ یہ زیبِ ناک ہے بھی یا نہیں۔ فارسی میں ناک کو بینی کہتے ہیں جس کے بارے قولِ فیصل ہے کہ ''مُشتے کہ بعد از جنگ یاد آید‘ بر بینیٔ خود باید زد‘‘ یعنی جو مُکّا جنگ کے بعد یاد آئے وہ اپنی ناک پر مار لینا چاہیے‘ تاہم اگر خاتون نے کوکا پہن رکھا ہو تو اس صورت میں اپنی ناک پر مُکّہ مارنے سے پہلے کوکا اتار لینا چاہیے ؎
مانو نہ مانو جانِ جہاں اختیار ہے
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
آج کا مطلع
کچھ ہوئے باغی یہاں کچھ لوگ بے دل ہو گئے
اور کچھ شائستۂ معیارِ محفل ہو گئے
نوٹ: ظفر اقبال کے 8فروری کو شائع ہونے والے کالم بہ عنوان ''پنجابی صفحے دی ویل‘‘پر قارئین کے ایس ایم ایس پیغامات اسی صفحہ پر '' ایس ایم ایس دنیا ‘‘میں ملاحظہ فرمائیں۔