تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     13-02-2017

شاخیں

یہ البتہ درست ہے کرپشن رک نہیں سکتی۔ ہرگز نہیں رک سکتی۔ اس لئے کہ ساری دنیا غلط ہو سکتی ہے مگر آمنہ کا لعلﷺ نہیں۔ ان کی ہر بات سچی ہے‘ تمام جہات سے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ طاقتور سزا سے بچتے رہیں اور بدعنوانی دفن کر دی جائے۔ جڑیں کاٹنی ہوتی ہیں‘ شاخیں نہیں۔
کئی بار اس آدمی کا قصّہ میں لکھ چکا۔ نام کا کیا ذکر‘ شیکسپئرکا ایک قول قائد اعظمؒ کو پسند تھا۔ پُھول کو کسی نام سے بھی پکارو وہ پُھول ہی رہے گا۔ صدر زرداری نے اس سے پوچھا : ٹیکس وصولی میں کیا اضافہ ہو سکتا ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ ''کتنا؟‘‘ بتایا کہ ایک برس میں دوگنا۔
دو ہزار ارب روپے سے چار ہزار ارب کا مطلب کیا ہے؟ غیر ملکی امداد سے نجات‘ امریکہ پر انحصار سے نجات‘ آزاد خارجہ پالیسی‘ ترقی میں بگٹٹ‘ سب شہریوں کے لیے بہترین تعلیم اور علاج۔ تاریخ کے اُفق پر ایک جگمگاتی قوم کا ظہور۔ عہد آئندہ کے لیے ایک لہکتا ہوا ستعارہ۔ ماضی کی تمام ذلتوں سے نجات اور موج در موج ایک درخشاں مستقبل! صدر نے پوچھا: اس کے لئے کیا کرنا ہو گا؟ امن و امان، انٹیلی جنس، نوکر شاہی اور ٹیکس وصولی کے معاملات کا شعور رکھنے والے آدمی نے جواب دیا: چند بڑے آدمیوں کو گرفتار کرنا ہوگا‘ دو تین وزراء کو بھی۔ صدر صاحب ٹھنڈے پڑ گئے اور ٹھنڈے نہ پڑتے تو کیا کرتے۔ یہ تو ایک انقلاب کا آغاز ہوتا۔ گردنوں کی فصل کاٹنے کا نہیں‘ انقلاب عدل و شعور کے بروئے کار آنے کا نام ہے۔ فرانسیسی‘ روسی‘ چینی اور ایرانی انقلاب سے دنیا کو کچھ حاصل نہ ہوا۔ سیکولرازم سے‘ سوشلزم سے اور نہ ''اسلامی‘‘ انقلاب سے۔ جتنے مسائل انہوں نے حل کئے‘ اس سے کہیں زیادہ پیدا کر دیے۔ 
چار برس ہونے کو آئے‘ نوروز کے موسم میں‘ ایران جانے کا اتفاق ہوا۔ تہران سے طوس تک مسکراتا ہوا ایک بھی چہرہ دیکھنے کو نہ ملا۔ واپس آیا تو گرامی قدر استاد نے پوچھا: کسی کو دیکھا‘ اللہ اللہ کرنے والے کو؟ عرض کیا کسی کی زبان سے سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ‘ امام حسن ؓ اور امام حسینؓ کا نام نہ سنا‘ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا کیا ذکر۔ چہار جانب انقلابِ اسلامی اور امام خمینی ہیں۔ مشہد ایک مرغزار ہے۔ تہران میں شمالی بلندیوں پرجہاں آبشار دھوم مچائے رکھتی ہے۔ چنار کے درختوں کی قطاریں‘ آرٹ گیلریاں اور وہ دلنواز تعمیرات‘ دل و جان سے آدمی جن پر فدا ہو جاتا ہے۔ راستوں پہ بہتی ہوا، جو داستان پہ داستان کہتی سنائی دیتی ہے ؎
اے بادِ بیابانی مجھ کو بھی عنایت ہو
خاموشی و دل سوزی‘ سرمستی و رعنائی
گداز نہ رچائو‘ فضا اندیشوں میں گندھی ہے۔ یہاں سے وہاں تک۔ ایک ایران ہی کا کیا ذکر‘ ہر کہیں عالم اسلام کا یہی حال ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان خوش نصیب ہے کہ چیخنے چلانے کی اجازت ہے۔ دل کا غبار آپ نکال سکتے ہیں۔ کبھی ہنس بول بھی سکتے ہیں۔ کچھ دیر کے لئے اپنے غم بھلا سکتے ہیں۔ اکثر ملکوں میں تو یہ بھی نہیں۔ عالمِ عرب میں نہیں۔ اب تو طیب اردوان کے ترکی میں بھی نہیں۔
ترقی وہاں ضرور ہوئی جو قابلِ داد ہے‘ چین میں بھی‘ جو اب ایک عالمی قوت بن کر ابھر رہا ہے۔ معاشی بھی‘ عسکری بھی۔ مگر پارٹی کی حکومت ہے اور یاللعجب اب بھی اسے کمیونسٹ پارٹی کہا جاتا ہے۔ ہزاروں افراد کو بدعنوانی پہ ٹانک دیا گیا مگر دولت ہی جب عزت کا واحد معیار ہے، آدمی کو جب معاشی حیوان بننے ہی کی ترغیب دی جائے، تو زندگی ثمر بار نہیں ہوتی‘ سبک اور سہل نہیں ہو سکتی۔ ایک سے سحر و شام‘ کولہو میں جتے بیل کی طرح‘ ایک سے سحر و شام۔
کبھی جی چاہتا ہے‘ چین جانے کو۔ اس دیار کو‘ جسے آدمیت کے مستقبل میں بہت اہم کردار ادا کرنا ہے۔ جس پر ہمارے آنے والے کل کا بہت کچھ انحصار ہے۔ ممکن ہے کہ کوئی کلید ہاتھ آئے۔ اس معمے کو سمجھا جا سکے کہ ہزار پابندیوں کے باوجود نمو اور نمود کیسے ہے۔ ایک بار دعوت ملی تھی۔ چینی صنعت کاروں کے ایک سرخیل کی طرف سے۔ اصرار بھی اس کا بہت تھا مگر میں ٹھٹکا کہ اس قدر وہ بے تاب کیوں ہے۔ معلوم ہوا کہ ریل کے انجن بیچنا چاہتا ہے۔ اسی طرح کے‘ جن کے لیے پلیٹ فارم توڑنا پڑے۔ ایک فوجی افسر نے خریدے تھے اور غالباً اسی لئے بچ نکلا۔ وہ تو الگ، مگر پھر یہ انجن بھی بیمار پڑ گئے۔
سچا انقلاب کس طرح رونما ہوتا ہے۔ کل ایک شائستہ علمی محفل میں درویش کا ذکر تھا اور اس کی بادشاہی کا۔ امام حسینؓ کی شہادت کو تاریخ جس کی نظیر پیش نہیں کرسکتی ایک زمانہ گزر چکا تھا۔ امویوں کا اقتدار پورے کروفر سے برقرار تھا۔ عبدالملک‘ ہشام بن عبدالملک‘ سلمان بن عبدالملک۔ پھر وہ آدمی نمودار ہوا کہ دنیا کی سب سے بڑی حکومت سر سے پائوں تک بدل گئی۔ عمر بن عبدالعزیز۔ اسلام کا پہلا مجدّد‘ عظیم فقیہ اور خلفائِ راشدین کے بعد خلیفہ راشد۔بعض اہل علم ان کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں۔
اصحابِ رسولؐ کی بات دوسری ہے۔ ان کے مرتبے پر قرآن کریم کی مہر ثبت ہے۔ اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی‘ کسی کا ان سے کوئی موازنہ ممکن نہیں۔ پہلوں کا اور نہ بعد میں آنے والوں کا۔ عمر بن عبدالعزیز مگر دور دور تک پھیلی ظلمت میں نَکہت و نور کا ابدی اور سرمدی استعارہ ہے۔ ایک نظر اس آدمی پہ ڈالو اور فوراً ہی ادراک ہو جاتا ہے کہ اپنا رخ‘ جس نے اللہ کی طرف پھیر لیا، ''من خاش مقام ربہ وصلٰی‘‘ جو اللہ کے سامنے کھڑا ہونے کے تصور سے ڈرا اور اس احساس کے ساتھ نماز پڑھی‘ وہ کیا سے کیا ہو جاتا ہے۔ ایسے میں ہر بار اقبالؔ ہی یاد آتے ہیں ع
عبد دیگر عبدہ چیزے دگر
بندہ ایک چیز ہے اور اس کا بندہ‘ ایک دوسری ہی چیز۔
بادشاہت ملی تو فوراً ہی خلق کو واپس کر دی۔ کہا: تم پر میں مسلط ہونا نہیں چاہتا۔ بے تابی و بے قراری‘ انس اور الفت کے ساتھ‘ ایک ولولے کے ساتھ انہوں نے اصرار کیا تو قبول کی۔۔۔۔ پھر کیا کیا؟
اولین تقریب کے لیے چلے تو حاجب آگے بڑھا۔ اسے ہٹا دیا۔ کہا: میں ایک عام آدمی ہوں۔ جاگیروں کے کاغذات منگوائے اور ایک ایک کر کے سب قینچی سے قطع کر دیے۔ اسی طرح بنو امیہ کی سب جاگیریں۔ یوں بھی تاخیر سے سویا کرتے اور تھوڑی دیر۔ اس روز، شب بھر جاگتے رہے۔ دوپہر ہونے کو آئی تو کچھ دیر آرام کرنا چاہا۔ ان کے فرزند نے‘ اس کا نام بھی شاید عبدالملک تھا‘ کہا: آپ کو کچھ فیصلے فوراً ہی صادر کرنے ہیں۔ اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اس نیند سے آپ زندہ اٹھیں گے۔ اٹھ کھڑے ہوئے اور فرامین کا اجرا کیا۔ ان سے پہلے کے بعض بادشاہ کوئی وحشی سے وحشی تھے۔ رسول اکرمﷺ کے خاندان پر‘ اہلبیت پر‘ حتیٰ کہ جناب علی ابن طالب پر تبرّا کیا کرتے۔ ایسے نافرمان کہ نو مسلموں سے جزیہ وصول کیا کرتے۔ یک قلم انہوں نے موقوف کر دیا اور فوراً ہی۔ درباری ہمیشہ ایک سے ہوتے ہیں۔ ان کے درباری تو خیر کیا تھے، امور سلطنت اور عبادت کے سوا اگر کوئی شغف تھا تو کارگر اور لائق لوگوں کی تلاش۔ نماز عشاء کے بعد دیر تک اہل علم سے گفتگو۔ بعض سرگوشیاں کیا کرتے کہ خزانہ خالی ہو جائے گا۔ تب وہ تاریخی جملہ کہا اور جب تک جیے‘ دہراتے رہے: اللہ نے اپنے آخری پیغمبر کو تحصیلدار یعنی ٹیکس وصولی کرنے والا بنا کر نہ بھیجا تھا۔ ایک بار کسی کو لکھا: ہاں ہاں! میں چاہتا ہوں کہ خزانہ خالی ہو جائے اور میں اس میں جھاڑو پھیر دوں۔ نتیجہ بالکل برعکس نکلا۔ آخری سے پہلے برس سیدنا عمر فاروق اعظمؓ کے عہد کی طرح دس کروڑ اشرفیاں وصول ہوئیں۔ کہا: اگلے برس انشاء اللہ اس مبارک عہد سے بھی بڑھ جائیں گی۔ باقی تاریخ ہے۔ حکمران طبقہ ایسا ہی خون آشام ہوتا ہے۔ عوامی قوت سے اسے آگ کی لگام پہنانا پڑتی ہے۔
معاف کیجئے‘ نجم سیٹھی پہ اب کی بار تنقید بیجا ہے۔ بے شک حکمران طبقے کا وہ سعادت مند رفیق ہے مگر اس نے ٹھیک فیصلہ کیا کہ جن پر بدعنوانی کا الزام ہے احتیاطاً انہیں الگ کر دیا جائے۔ معاف کیجئے‘ اس بیچارے عامر پر تنقید بیجا ہے۔ اللہ کے آخری رسولﷺ نے اس آدمی کو عزت کا مستحق قرار دیا اپنا جرم جو مان لے اور سزا بھگت لے۔
یہ البتہ درست ہے کرپشن رک نہیں سکتی۔ ہرگز نہیں رک سکتی۔ اس لئے کہ ساری دنیا غلط ہو سکتی ہے مگر آمنہ کا لعل ﷺنہیں۔ ان کی ہر بات سچی ہے‘ تمام جہات سے۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ طاقتور سزا سے بچتے رہیں اور بدعنوانی دفن کر دی جائے۔ جڑیں کاٹنی ہوتی ہیں‘ شاخیں نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved