تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     13-02-2017

ایٹمی شہر بمقابلہ میٹرو

واہگہ سرحد کی دوسری جانب جو لوگ بقول وزیر اعظم نوازشریف ''گھیا گوشت‘‘کھاتے ہیں، لگتا ہے2017ء میں وہ گھیا چھوڑ کر صرف گوشت خور ہونے کا اعلان کر دیں گے۔ گوشت خور بھی ایسا نہیں جسے گائے ذبح کرنا آتی ہو۔ واہگہ سرحد کے اس طرف کی تیاریاں بتاتی ہیں، یہ انفرادی گوشت خوری نہیں بلکہ اجتماعی آدم خوری کا پلان ہے۔
ہمارے ہاں امن کے جو متلاشی بھارت کی ہر ادا کو دل رُبا کہہ کر قبول کرتے ہیں، اُن کے لیے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی طرف سے2017ء میں نیو ایئر کے دو تحفے آئے۔ پہلا تحفہ شدت پسند ہندو ریاست کا دفاعی بجٹ ڈبل کرنے کا ہے جبکہ دوسرا زیر زمین پہلا نیوکلیئر سٹی تعمیرکرنے کا۔ پہلی خبر بھارت نے سرکاری طور پر جاری کی، لہٰذا اس کے جاری ہونے میں پاکستان کی طرف سے کوئی ''خفیہ ہاتھ‘‘ ملوث نہیں۔ زیر زمین نیوکلیئر سٹی والی خبر ایک مؤقّر بین الاقوامی جریدے نے مغربی دنیا میں چھاپی۔ خبر کی تفصیل کے مطابق بھارت نے زیر زمین ایسا شہر تعمیر تیارکرلیا ہے جو اپنے باسیوںکو ایٹمی حملے کی صورت میں محفوظ رکھے گا۔ یہ خبر کوئی فکشن نہیں، نہ کہانی ہے۔ اس سے پہلے زیر زمین نیوکلیئر شہرموجود ہیں، بلکہ زمین کے نیچے تعمیر شدہ ایک عدد ایٹمی شہر میں نے اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ رکھا ہے۔ یہ شہر ایک ایسی قوم نے پچھلی صدی کے وسط میں تعمیر کیا تھا جسے مغرب میںکارپوریٹ میڈیا بھوک کی ماری ہوئی ''Poverty Stricken‘‘ ریاست کہنا پسند کرتا ہے۔ 1930ء کے عشرے میں اس جزیرہ نما ریاست پر امریکہ بہادر اپنے اس وقت کے سہولت کار رائل جاپان کے ہمراہ حملہ آور ہوا۔ اس حملے کے نتیجے میں مبینہ طور پر شہر کی ایک ملین آبادی پر تین ملین سے زیادہ بم گرائے گئے۔ کوئی اینٹ بھی ایسی نہ بچی جو آتش و آہن سے محفوظ رہ گئی ہو۔ اس جزیرہ نما ملک کے دیہاتی علاقے کے ایک نوجوان نے امپیریل جاپان اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے خلاف مزاحمت کی جنگ شروع کی۔ ساتھ ہی اپنے عوام کو ''جوچھے‘‘ کا نظریہ دیا جس کا مطلب ہے Self Reliance یا خود انحصاری۔
پیانگ پانگ کا نیا شہر تعمیر کرتے وقت تین نادر تصورات سامنے رکھے گئے۔ پہلے کا تعلق ٹریفک انجینئرنگ سے ہے۔ اس شہر کی ہر سڑک اس قدر چوڑی بنائی گئی ہے کہ اس پر لڑاکا اور بمبار طیارے توکیا، بوئنگ جہاز بھی آسانی سے اُتر سکتا ہے۔ ساری سڑکیں تارکول اور بجری کے بجائے سریے کا جنگلا بچھا کر کنکریٹ کے ذریعے تعمیر کی گئی ہیں، بم جن کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اس شہر ِتباہ حال کو شہرِ بے مثال بنانے کے لیے دوسرا نادر خیال یہ سامنے رکھا گیا کہ کسی ایئر پورٹ پر جہازوں کا ''ہینگر‘‘ کھلی فضا میں نہیں بنے گا۔ چنانچہ اب یہاں جہاز ہوائی پٹی پر اُترتے ہیں اور سیدھے پہاڑکے اندر جا کھڑے ہوتے ہیں۔ تیسرا کام سب سے بڑا عجوبہ ہے۔ کِم ال سُنگ کے شہر پیانگ یانگ کے نیچے280 میٹر کی گہرائی میں ایٹمی شہر آباد ہے۔ جب لفٹ سطح زمین سے نیچے کی طرف جانا شروع ہوتی ہے تو زمین کے پیٹ (Belly of the earth) میں اُترنے کے پہلی بار تجربے سے گزرنے والے شخص کا دل ڈوب رہا ہوتا ہے۔ یہ مدھم روشنی والا ٹنل جوں جوں گہرا ہوتا جاتا ہے، ویسے ہی اُس میں چکا چوند روشنی کا ہالہ نمودارہوتا جاتا ہے۔ تھوڑا مزید نیچے جائیں تو یوں لگتا ہے جیسے زمین کے پیٹ کی کوئی مخلوق یا پھر یاجوج ماجوج آپس میں لڑ رہے ہیں۔ یکدم نیوکلیئر شہر میں ہزاروں لوگوں کو چلتے پھرتے، برق رفتار ریل گاڑیاں اور زندگی کا سازو سامان دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ یہ یقیناً کسی نئے جنم کا خواب ہے، حقیقی شہرنہیں۔
جن دنوں دوسری جنگ عظیم زوروں پر تھی لندن میں ایک اصطلاح یا'' ون لائنر‘‘ بڑامشہورہوا۔ وہ تھا Eagles over London یعنی لندن پر عقابوں کا سایہ۔ اس اصطلاح کی ایجاد کا سبب ایڈولف ہٹلر کے تاجِ برطانیہ پر فضائی حملے تھے۔ نازی جرمنی کے ہوائی جہاز ہر روز انگلش چینل عبورکرتے اور ان کی تعداد ہمیشہ سینکڑوں میں ہوتی۔کبھی 500 کبھی 800 بمبار طیارے دن رات لندن پر بم برساتے۔ شہر کے طول وعرض میں عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔ مگر بڑی تعداد میں شہری، بچے اور عورتیں ہٹلر کے طیاروں کی رینج سے بچ نکلے۔ اس دورکی تصویریں یا ڈاکومنٹری دیکھیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ لندن کے شہری روز و شب زیر زمین ٹرین کی سیڑھیوں اور سٹاپوں پر گزارتے تھے۔ یہ بھی ایک طرح کا ایٹمی شہر ہی ہے جس کی عمر اب 100سال سے زیادہ ہو چکی ہے۔ فرانس میں ایک اور زیر زمین شہر آباد ہے۔ نازی جرمنی اور ہٹلر کی فوجوں کے خلاف اسی زیر زمین شہرکی زیر زمین گلیوں اور شاہراہوں میں مزاحمت کی تحریک منظم ہوئی۔
فرانس کا شہر پیر س اوپر سے جتنا کھلا ، شفاف نظر آتا ہے اس کے نیچے کا ایٹمی شہر اتنا ہی پُرپیچ اور مامون ہے۔ اسی لیے ایڈولف ہٹلر نے پیر س / فرانس کو 9 گھنٹے میں فتح کر لیا، لیکن اپنے وقت کی دنیا کی بہترین فوج پیرس کے نیوکلیئر شہرکوفتح نہ کر سکی۔ بھارت نے ایک اور کام بھی کرلیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس کے مرکزی دارالحکومت دہلی میں زیر زمین ٹرین ہے۔ بھارت کئی دوسرے شہروں میں بھی زیر زمین ٹرین بنا رہا ہے۔ کئی شہروں میں منصوبے مکمل ہوگئے ہیں، باقی زیر تکمیل ہیں۔ خدا نہ کرے کہ کبھی پاک بھارت ایٹمی جنگ برپا ہو، یہ میری ذاتی خواہش بھی ہے اور دعابھی، لیکن ریاستوں کے درمیان سیاست نہ خواہشوں کا احترام کرتی ہے نہ مناجات کی کوئی پروا۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ ممکنہ یا خیالی ایٹمی جنگ کے تناظر میں اپنی تیاری مکمل کر رہا ہے۔ صرف ایک بھارت پر کیا مو قوف، دنیا کے درجنوں ممالک زیر زمین پناہ گا ہیں، بستیاں، شہر اور نیوکلیئر پروف ٹھکانے بنا چکے ہیں۔ ایک ایسا ہی ٹھکانہ پچھلی صدی میں عالمی سطح پر مشہور ہوا تھا۔ جرمنی کے شہر برلن میں واقع ایڈولف ہٹلر کا بنکر جس میں راہداریاں، کانفرنس ہال، وار روم، مواصلاتی مرکز، انڈر گرائونڈ ٹرانسپورٹ، زیر زمین بجلی ہوا پانی، کولنگ اور ہیٹنگ، جرمن فوج کا جی ایچ کیو، خفیہ والوں کے اڈے،اطلاعات ونشریات،گولہ بارود، سب کچھ موجود تھا۔ یہ ایٹمی شہر اس قدر محفوظ ثابت ہوا کہ ساری دنیا کے بمبار طیارے مل کر کروڑوں ٹن بارود برلن پر گرانے کے باوجود ہٹلر کی گَرد کو بھی نہ چھو سکے۔ اور تواور اس نے اپنے اور اپنی گرل فرینڈ ایوا برائون کے لیے اپنی پسند کی موت مرنے میں بھی کامیابی حاصل کرلی۔
ہمارے حکمران زیر زمین ایٹمی شہر کے جواب میں کھلے آسمان کو چھوتی ہوئی بلکہ ہوا میں لہراتی ہوئی اور بل کھاتی ہوئی میٹرو بنا رہے ہیں۔ اس قدر شاندار اور محفوظ میٹرو جس کا ہر چند ہفتے بعد کوئی نہ کوئی تودا اپنے ہی شہریوں پر آ گرتا ہے۔ اس سے آگے لکھنے کو جی نہیں چاہتا۔ قلم رُک سا گیا ہے مختصر سی دعاپر۔۔۔ یااللہ خیر!
حضرت علامہ اقبال کا شعر ایک لفظ مطلب سے یاد آگیا ہے ؎
شکایت ہے مجھے یا رب خدا وندانِ مطلب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved