تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     14-02-2017

صبر و قرار

شاعری نہیں‘ زندگی کچھ اورہے ۔ اس میں برف زار اور ریگستان آتے ہیں۔ خود کو یاد دلانا پڑتا ہے کہ یہ آزمائش کے لیے بنائی گئی۔
اضطراب کی ساعت میں یوسف علیہ السّلام کی کہانی کسی نے یاد دلائی اور ان کے پدرِ محترم کی۔ کیسی دل و جاں میں چراغ جلاتی ہوئی۔
غالب کا شعر کبھی کیسا دلآویز لگتا تھا۔ آج بے معنی سا محسوس ہوا‘ جب قرآن کریم کے طالب علم سے یہ داستان سن چکا ؎
قید میں یعقوبؑ نے لی‘ گو‘ نہ یوسفؑ کی خبر
لیکن آنکھیں روزنِ دیوارِ زنداں ہو گئیں
غنی کاشمیری کے شعر کو اہل ذوق اور بھی گراں بہا پاتے ہیں۔ اپنے تمام تر حسن و جمال کے باوجود وہ بھی آج کچھ ادھورا سا لگا۔ کیوں نہ ہو جو بات انسانوں کے خالق نے کہی‘ اس کی جامعیت آدمی کے ادراک میں کیسے اترے۔ غنی کا شعر یہ ہے ؎
غنی روز سیاہ پیر کنعاں را تماشا کن
کہ نورِ دیدہ اش روشن کنند چشم زلیخارا
غنی‘ پر کنعاں کے روز سیاہ میں عجب ماجرا ہوا کہ اُن کی آنکھوں کے نور نے چشم زلیخا کو روشن کیا۔
یوسفؑ نے خواب یہ دیکھا کہ ستارے انہیں سجدہ کرتے ہیں۔ باپ نے منع کیا کہ بتانا کسی کو نہیں۔ جلیل القدر آدمی نے جان لیا کہ فرزند کو بھی نبوت عطا ہونے والی ہے۔ ضرر اسے پہنچے گا اور بے حساب۔
بیشتر نے سن رکھی ہو گی مگر دہرانی چاہیے۔ باپ متامل تھے مگر بھائی ساتھ لے گئے۔ انہیں اندیشہ تھا اور اس کا انہوں نے اظہار کیا مگر وہ مصر رہے۔ عہد و پیمان کئے مگر دل میں کھوٹ تھا۔ ''شیطان ایک کاشتکار ہے‘‘ صوفی نے کہا تھا اور وہ نفس کی زمین میں کاشت کرتا ہے۔
باقی سب تاریخ ہے۔ لیکن پھر کنوئیں میں انہیں ڈال دیا۔ یوسفؑ اس وقت کیا سوچتے ہوں گے۔ ان کے دل و جان پر کیا گزری ہوگی۔ سرکارﷺ پہ آوارہ لڑکوں نے طائف میں جب پتھر برسائے تو آپؐ کیا سوچتے تھے؟۔
عداوت سے کسی کو نجات نہیں اور حسد کیسی ہلاک کر دینے والی قوت ہے۔ کم ہی جس سے چھٹکارا پاتے ہیں۔
پھر وہ ڈھونڈ لئے گئے۔ ایک قافلے نے انہیں دیکھا اور انہوں نے یہ کہا : کیسا اچھا غلام ہے۔ مصر کے بازار میں بیچ ڈالے گئے...اور یہ آزمائشوں کے ایک طویل عہد کا آغاز تھا۔ غلام بنا کر بیچے گئے۔ ظاہر ہے کہ پاکیزہ اور شائستہ تھے۔ اس کے باوجود ان کے ساتھ کیا ہوا۔ ایک ایسے نفیس اور اجلے آدمی پر ہاتھ ڈالا گیا۔ کیسی ٹھیس ان کی خودداری کو لگی ہو گی۔ اس پہ بس نہیں‘ بادشاہ آ پہنچا تو ملکہ نے الٹا انہی کو موردِ الزام ٹھہرایا۔ پھر سوال کیا کہ ایسے آدمی کی سزا کیا ہے؟ عزیز مصر نے کہا : قید یا ہلاکت۔
کریم اپنے غلاموں کو کبھی رسوا نہیں کرتا۔ ادنیٰ تصرف کے ساتھ یہ افتخار عارف کا مصرعہ ہے‘ جو معلوم نہیں کہاں ہیں۔ کل برسر بزم پروفیسر احمد رفیق اختر نے انہیں یاد کیا اور داد دی۔ بادشاہ کو بات کھٹکی تو ایک دانا کو بلایا۔ کیسا مشورہ اس نے دیا اور فیصلہ کرنے کا کیسا گر؟...دامن اگر سامنے سے قطع ہوا ہے تو آدمی ذمہ دار ہے اگر عقب سے تو ملکہ معظمہ ۔یوسفؑ کا دامن تو ظاہر ہے کہ پیچھے سے کھینچا گیا تھا۔
آدمی کو اس کے گناہوں کی سزا ہی نہیں ملتی۔ اپنی خطائوں پر ہی وہ آزمایا نہیں جاتا۔ کبھی اس کے درجات کی بلندی‘ اس کی استعداد میں اضافے کے لیے۔ کبھی ہم خود بھی بھول جاتے ہیں۔ ایک مشکل گھڑی میں یہ بات ایک ممتاز لیڈر کو سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ اس پہ الٹا اثر ہوا۔ اور زیادہ مشتعل ہو گیا۔ آج کل آگ اگلتا رہتا ہے اس کے حریف سنگ زنی کرتے رہتے ہیں۔ اقبالؔ نے کہا تھا‘ حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے۔ پاکستان سے صبر و قرار رخصت ہوا۔ صبر چلا جائے تو شکایت اور غیبت رہ جاتی ہے‘ پھر وحشت اور جنون‘ حتیٰ کہ پاگل پن۔ جتھے داری اور دوسروں کو تباہ کرنے کی ہمہ وقت غالب رہنے والی بے تاب تمناّ۔ سب کے سب برباد ہوتے ہیں۔
اس کے باوجود کہ معصوم قرار پائے‘ یوسفؑ زندان میں کیوں ڈالے گئے؟۔ ظاہر ہے کہ بادشاہ اور ملکہ کی جھوٹی عزت کو سچا ثابت کرنے کے لئے۔ بادشاہ سے کون احتجاج کرتا۔ آج بھی کم ہی کرتے ہیں۔ اللہ کی پناہ حکمرانوں کی پردہ پوشی کے لئے کیسے کیسے بزرجمہر بروئے کار آتے ہیں۔ خوف جب رگ رگ میں ہو‘ رزاق اللہ کو نہ مانا جائے تو قصیدہ نگاری کے ہزار ڈھنگ ؎
براہمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینے میں بنا لیتی ہے تصویریں
زنداں میں بھی یوسفؑ معتبر اور معزز تھے۔ کیوں نہ ہوتے۔ اللہ کے پیغمبر تھے۔ خود ان کی اپنی زبان سے قرآنِ کریم قرار دیتا ہے کہ خوابوں کا علم انہیں عطا کیا گیا تھا‘ دو آدمی ان کے پاس آئے۔ ایک نے کہا:پرندے اس کے سر سے کھا رہے ہیں۔ اسے بتا دیا کہ وہ پھانسی پائے گا۔ دوسرے نے کہا‘ سپنے میں اس نے دیکھا ہے کہ بادشاہ کو وہ شراب پلاتا ہے۔ فرمایا‘ تو اس کا ندیم ہو گا‘ قابل اعتماد درباری۔ واضح کہا کہ اللہ کے حکم سے وہ بتاتے ہیں۔ دینِ ابراہیم پر ہیں اور ظالموں سے کنارہ کش ہیں۔ قیدی سے کہا: بادشاہ سے میرا ذکر کرنا۔
یا للعجب‘ وہ بھول گیا اس زندانی کو محل سے جو بالشت بھر کے فاصلے پر تھا‘ جس نے زندگی کی سب سے بڑی خوشخبری اسے دی تھی۔ ایسا احسان فراموش بھی کوئی ہو گا؟ جی ہاں‘ بہت ہوتے ہیں۔ خود یوسفؑ کے بھائی تھے‘ پیغمبر کی اولاد۔
آخر کار آزمائشوں کے عہد کا اختتام ہونے لگا اور یہ بھی ایک پورا دور تھا۔ عزیزِ مصر نے ایک خواب دیکھا اپنے درباری اور مشیر سے اس کا ذکر کیا۔ سات دبلی اور سات فربہ گائیں اس نے دیکھی تھیں‘ خواب کے اثر سے پریشان تھا‘ اس کے ٹوٹ رہے تھے۔
تب بادشاہ کی اجازت سے وہ زنداں میں گیا اور یہ کہا: اے سچّے آدمی۔ پیمبر کے صبر کی کوئی داد دے سکتا ہے کہ آزردہ خاطر ہوئے اور نہ جتلایا۔ بس یہ بتا دیا کہ قحط پڑے گا اور نیل کی وادیوں میں اگنے والے گیہوں محفوظ رکھنے چاہئیں‘ بالیوں میں ۔ پھر وہ بلائے گئے‘ پھر وہ خزانوں کے نگراں بنائے گئے۔ صاحبِ صدق و امانت۔ صادق اور امین نہیں۔ یہ لقب فقط اللہ کے رسولﷺ کا تھا‘ جو جنرل محمد ضیاء الحق نے اپنے مشیروں کے کہنے پر دستور کا حصہ بنایا۔ ان ارکان اسمبلی سے صادق اور امین ہونے کا مطالبہ ان الفاظ کی توہین ہے جو خائن نہیں کہلاتے‘ وہ بھی صادق اور امین نہیں۔ ایاز صادق ایسے ہیں ۔پھر وہ وقت آیا کہ قحط کے مارے ہوئے ان کے بھائی آئے اور انہیں غلہ دیا گیا۔ وہ پہچان نہ سکے مگر نبی کی نگاہ نے پہچانا۔ باردگر وہ بلائے گئے اور اس شرط کے ساتھ کہ یوسف ؑ کے سگے بھائی بنیامین کو لے کر وہ آئیں گے۔ وہ لائے گئے اور اس حال میں کہ یعقوب علیہ السلام کا جی نہ چاہتا تھا۔ پھر ان کے غلّے میں سونے کا پیمانہ رکھا گیا۔ وہ روک لیے گئے۔ بنیامین بھی۔ بھائیوں نے کہا: اس کا ایک بھائی تھا یوسفؑ‘ وہ بھی ایسا ہی تھا۔
تب انکشاف ہواکہ یوسفؑ ان کے سامنے کھڑے ہیں۔ ان کے محسن۔ تب وہ کرتا بھیجا کہ دور سے پیغمبر کو جس کی خوشبو آئی اور لوگوں نے کہا: آپ تو گویا دیوانگی کا شکار ہیں۔ تب انہوں نے اپنی آنکھوں کو اس سے چھوا اور بینائی لوٹ آئی۔ اس آدمی کی آنکھوں میں‘ امتحان کی ابتدا میں‘ جس نے کہا تھا‘ صبر'‘ جمیل‘ بے شک صبر بڑی ہی خوبصورت چیز ہے اور اب انہوں نے یہ کہا: بے شک اللہ ہی اپنے امر پہ غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ 
کتاب کہتی ہے: کیسے تم صبر کرو‘ تم جانتے جو نہیں جانتے تو ہم واقعی نہیں ۔سوال یہ ہے کہ ایمان کی ایک رمق بھی اگر آدمی میں ہو تو کیا ذرا سا غور وفکر بھی وہ نہ کرے گا۔ ایک ذرا سا قرار بھی نہ پکڑے گا۔ کچھ بھی توکل سے کام نہ لے گا؟ شاعر کو یاد کرتا رہے گا ۔ ع
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک
شاعری نہیں‘ زندگی کچھ اورہے ۔ اس میں برف زار اور ریگستان آتے ہیں۔ خود کو یاد دلانا پڑتا ہے کہ یہ آزمائش کے لیے بنائی گئی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved