تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     14-02-2017

فاٹا اصلاحات: عمل درآمد کب ہو گا؟

فاٹا یعنی وفاق کے زیر انتظام پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سیاسی آئینی اور انتظامی اصلاحات پر عملدرآمد ہونا ابھی باقی ہے۔ یہ علاقہ جات‘ جو سات ایجنسیوں اور چھ فرنٹیئر رینجز پر مشتمل ہیں‘ گزشتہ تقریباً سوا صدی سے ایک ایسے نظام کے تحت چلے آ رہے ہیں جس میں جدید جمہوری اور ترقی یافتہ نظام کی کسی سہولت کا کوئی وجود نہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ انگریزوں نے اپنے سامراجی مفادات کے تحفظ کے لیے ان علاقوں کے عوام پر جو نظام مسلط کیا تھا‘ قیام پاکستان کے بعد بھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں لائی گئی تھی۔ آئین کی رو سے یہ علاقے پاکستان کا حصہ ہیں‘ مگر آئین کے تحت جو حقوق اور مراعات ملک کے دیگر حصوں میں رہنے والے پاکستانیوں کو حاصل ہیں ان سے فاٹا کے لوگ محروم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان علاقوں کے لوگ بنیادی سہولتوں مثلاً تعلیم‘ صحت‘ پینے کے پانی‘ ذرائع روزگار اور علاج معالجے کے شعبوں میں ملک کے دیگر علاقوں میں بسنے والے لوگوں سے بہت پیچھے ہیں۔ تعلیم کو ہی لے لیجیے۔ ایک سروے کے مطابق ان علاقوں میں مجموعی شرح خواندگی 33.3 ہے جبکہ قومی اوسط 58 فیصد۔ مردوں کے مقابلے میں عورتوں میں شرح خواندگی اور بھی کم ہے۔ یہاں بالغ مردوں میں شرح خواندگی 45 فیصد ہے جبکہ عورتوں میں صرف 7.8 فیصد۔ پرائمری سطح پر سکولوں میں داخلہ حاصل کرنے والے بچوں کی شرح اوسطاً 52 فیصد‘ جبکہ قومی سطح پر یہ شرح اوسطاً 65 فیصد ہے۔ سرکاری ذرائع کی طرف سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں مجموعی طور پر تقریباً ایک چوتھائی یعنی 25 فیصد افراد غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں لیکن فاٹا میں اس کیٹگری میں شامل لوگوں کی تعداد 70 فیصد ہے۔
سیاسی شعور اور عوام کے لیے ہمدردی کے جذبات رکھنے والے حلقوں نے اس کی سب سے اہم وجہ فاٹا کے اس نظام کو ٹھہرایا ہے جسے انگریز حکمرانوں نے اپنے مخصوص مفادات کے لیے تراشا تھا۔ اس لیے جب ہندوستان میں آزادی کا سورج طلوع ہوا تو ان حلقوں کی طرف سے فاٹا میں ضروری اصلاحات اور اس کی حیثیت میں تبدیلی کے مطالبات سامنے آنے لگے۔ لیکن ملک کے حکمرانوں نے اس پر کوئی توجہ نہ دی‘ حتیٰ کہ 1955ء میں مغربی پاکستان کے صوبوں اور ریاستوں کو ضم کرکے ''ون یونٹ‘‘ تشکیل دیا گیا۔ اس میں صوبائی حکومتوں کے زیرِ اہتمام قبائلی علاقوں میں بدنام زمانہ ایف سی آر ختم کرکے انہیں متعلقہ صوبوں کا حصہ بنا دیا گیا؛ تاہم فاٹا کی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہ کی گئی‘ حالانکہ جغرافیائی‘ لسانی‘ ثقافتی اور معاشی لحاظ سے فاٹا‘ کے پی کے کا حصہ ہے۔ اس کا انتظام براہ راست صدر کے ہاتھ میں ہے‘ جو صوبے کے گورنر کے توسط شمالی علاقوں کے بارے میں اپنے اختیارات استعمال کرتے ہیں حتیٰ کہ فاٹا سیکرٹریٹ میں فرائض سرانجام دینے والے تمام اہل کار نہ صرف صوبائی انتظامیہ کی طرف سے تعینات کیے جاتے ہیں بلکہ ان کے دفاتر بھی صوبائی دارالحکومت واقع ہیں۔ فاٹا میں ترقیاتی کاموں کے لیے منصوبہ بندی اور ان پر عملدرآمد کے پروگرام بھی صوبائی دارالحکومت میں تیار کئے جاتے ہیں۔ ان حقائق کی بنیاد پر فاٹا کے مستقبل کے بارے میں اب تک جتنی بھی تجاویز پیش کی گئی ہیں یا آرا سامنے آئی ہیں‘ ان میں سب سے زیادہ مناسب اور حقیقت پسندانہ تجویز فاٹا کو صوبہ کے پی کے میں ضم کرنے کے بارے میں رہی ہے۔ موجودہ حکومت نے بھی گزشتہ برس نومبر میں وزیر اعظم کے مشیر برائے امورِ خارجہ سرتاج عزیزکی سربراہی میں فاٹا کے مستقبل کے بارے میں تجاویز پیش کرنے کے لیے جو کمیٹی قائم کی تھی‘ وہ بھی 9 ماہ کے صلاح مشورے اور سوچ بچار کے بعد اسی نتیجے پر پہنچی تھی کہ فاٹا کے عوام کو قومی سیاست کے دھارے میں شامل کرنے اور ان علاقوں میں ترقیاتی عمل کو تیز کرنے کے لیے ان قبائلی علاقوں کو صوبہ کے پی کے میں شامل کر دیا جائے۔ 
یہ تجاویز وزیر اعظم کو پیش کی جا چکی ہیں‘ اور حکومت نے اس پر اپنی ابتدائی رضامندی کا اظہار بھی کر دیا تھا؛ تاہم دو سیاسی پارٹیوں یعنی جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پختون خوا ملی عوامی پارٹی کو اس تجویز پر تحفظات تھے۔ دونوں پارٹیوں کی سیاست پختون آبادی کی حمایت پر مبنی ہے‘ اور انہوں نے یہ شرط عاید کی تھی کہ فاٹا کے مستقبل کا فیصلہ کرنے سے پہلے ان علاقوں میں عوامی رائے معلوم کرنے کے لیے ریفرنڈم کروایا جائے۔ سرتاج عزیز کمیٹی نے ریفرنڈم کی تجویز مسترد کر دی تھی اور یہ رائے پیش کی تھی کہ ایسا کرنے سے کئی نئی پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ اس لیے ریفرنڈم کا راستہ اختیار کرنے کی 
بجائے کمیٹی‘ جس کے ارکان میں نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ناصر خاں جنجوعہ‘ عبدالقادر بلوچ وفاقی وزیر برائے سرحدی علاقہ جات (سیفران) اور سیکرٹری سیفران بھی شامل تھے‘ نے قبائلی عمائدین اور بااثر لوگوں سے تفصیلی ملاقاتیں کرکے ان کی رائے لی‘ اور اپنی تجاویز مرتب کیں۔ چونکہ حکومت ان تجاویز کے حق میں ہے اس لیے اس نے جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن گروپ) اور پختون خوا ملی عوامی پارٹی کی طرف سے جو تحفظات پیش کیے گئے تھے‘ ان کو دور کر دیا۔ پارلیمنٹ میں فاٹا کے نمائندہ ارکان بھی اس تجویز کی حمایت کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سے بھی فاٹا کو کے پی کے میں ضم کرنے کی تجویز کی حمایت کی جا چکی ہے۔ ان سیاسی جماعتوں میں پاکستان مسلم لیگ ن‘ پیپلز پارٹی‘ پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی بھی شامل ہیں۔ اتنے وسیع پیمانے پر حمایت حاصل کرنے والی تجاویز کی حتمی منظوری اور ان پر عملدرآمد کے راستے میں بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے‘ لیکن 7 فروری کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ان تجاویز کی منظور نہ کیا جا سکا‘ حالانکہ فاٹا اصلاحات کا معاملہ وفاقی کابینہ کے اجلاس کے ایجنڈے میں شامل تھا‘ اور وفاقی وزیر اور کمیٹی کے رکن عبدالقادر بلوچ آج سے دو ماہ قبل یہ یقین دہانی کروا چکے تھے کہ فاٹا میں اصلاحات کے پیکیج پر قومی اتفاق رائے حاصل کر لیا گیا ہے‘ اور کابینہ کے اگلے اجلاس میں اسے منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا‘ جس کے بعد اس پیکیج کو ایک بل کی شکل میں بحث کے لیے 
پارلیمنٹ میں لایا جائے گا‘ جہاں حتمی منظوری کے بعد اس پر عملدرآمد کا آغاز کر دیا جائے گا‘ لیکن 7 فروری کے کابینہ کے اجلاس میں اصلاحات کا پیکیج پیش کرنے اور اسے منظورکرانے میں ناکامی سے جمہوریت پسند حلقوں کو سخت مایوسی ہوئی‘ کیونکہ انہیں امید تھی کہ فاٹا کے عوام کی محرومیوں کا طویل دور ختم ہونے والا ہے۔ کابینہ کے اجلاس میں اس آئیٹم کے پیش نہ کیے جانے کے بارے میں حکومت کی طرف سے جو وضاحتیں پیش کی جا رہی ہیں‘ ان میں ایک یہ ہے کہ اصلاحات کے اس پیکیج کے بعض پہلوئوں پر مزید بحث اور صلاح مشورے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حکومت اس پیکیج پر تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک پیج پر لانا چاہتی ہے‘ لیکن حکومتی موقف کے مقابلے میں دیگر حلقوں کی رائے میں جمعیت علمائے اسلام (ف) اور محمود خاں اچکزئی کی پارٹی پختون خوا ملی عوامی پارٹی کی طرف سے فاٹا کو صوبہ کے پی کے ضم کرنے پر تحفظات ابھی باقی ہیں‘ اور ان کا خیال ہے کہ اس صورت میں انہیں آئندہ انتخابات میں سیاسی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وفاق فاٹا میں اصلاحات کے پیکیج میں شامل ترقیاتی بجٹ کے لیے اپنی جیب سے 121 ارب روپے دینے کے لیے تیار نہیں اور وہ یہ رقم این ایف سی ایوارڈ کے تحت صوبوں کو ملنے والی رقم سے منہا کرنا چاہتا ہے‘ لیکن صوبے اس کے لیے تیار نہیں‘ اس لیے ان اصلاحات پر ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا ہے۔ وجوہ کچھ بھی ہوں‘ فاٹا میں اصلاحات کا عمل مزید تاخیر کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ اگر اس سلسلے میں حسب سابق غفلت یا غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا گیا تو پاکستان میں نہ صرف قومی یکجہتی اور امن و امان کو نقصان پہنچے گا بلکہ جمہوری نظام بھی ایک نئے بحران کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved