تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     14-02-2017

ایک نئی صبح کا آغاز

ہمارے کرم فرما خواجہ سعد رفیق نے ایک بار پھر کہا ہے کہ ووٹ سے آئے ہیں‘ ووٹ سے ہی جائیں گے۔ اس کے دو مطلب ہیں‘ ایک تو یہ کہ ہم عوام کی طاقت سے آئے ہیں اور عوام ہی ہمیں اقتدار سے محروم کر سکتے ہیں اور دوسرا اصل یہ کہ ووٹ کے علاوہ کوئی طاقت یا ادارہ ہمیں اقتدار سے محروم نہیں کر سکتا جبکہ دوسرا مطلب زیادہ واضح ہے کیونکہ یہ بات حکمران طبقے کی طرف سے بار بار کہی جا رہی ہے اور جوں جوں عدالتی فیصلے کا وقت قریب آ رہا ہے‘ یہ تکرار بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔
موصوف یا تو بہت بڑی غلطی فہمی کا شکار ہیں یا تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں کیونکہ صاف نظر آ رہا ہے کہ نہ تو آپ ووٹ سے جائیں گے اور نہ ہی کسی طور آپ ووٹ سے آئے ہیں۔ کیونکہ الیکشن کمیشن وغیرہ بنیادی طور پر آپ کو اقتدار دلانے کے ذمہ دار ہیں جبکہ دھاندلی اور بیورو کریسی وغیرہ اس کے علاوہ ہیں۔ اپنے تیس سالہ دورِ اقتدار کے آغاز میں ان حکمرانوں نے میرٹ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے جو تین تین نائب تحصیلدار بھرتی کیے وہ اب گریڈ اکیس اوربائیس تک پہنچ چکے ہیں۔ اسی طرح 
اے ایس آئی بھرتی ہونے والے اب کم از کم ڈی آئی جی کے رُتبے پر براجمان ہیں۔ جو اب ایک پورے گٹھ جوڑ کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں جس نے ملک اور خاص طور پر پنجاب کو اپنے جکڑ بند میں لے رکھا ہے۔ اس لیے بھی کہ سیاسی جماعت کی جو اولین شرط ہے اور جمہوریت کا جو پہلا لفظ ہے اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس پارٹی نے کبھی اپنے الیکشن نہیں کرائے اور سارا کام پرچی سسٹم اور نامزدگیوں پر ہی چلایا جا رہا ہے جو بجائے خود ایک مذاق کی حیثیت رکھتا ہے اس کے علاوہ طرز حکمرانی ایسا ہے کہ عدلیہ تک اسے بادشاہت قرار دے چکی ہے۔ موروثیت جس کی شرطِ اوّل ہے۔ پولیس نے لوگوں کا جینا حرام کر رکھا ہے جو آپ کی شہ کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ آپ اس کے کانے ہیں کہ وہ آپ کو ہر بار الیکشن جتواتی ہے۔ گورننس کی صورت حال یہ ہے کہ عام آدمی کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی جا رہی ہے اور حکمرانوں کے پیٹی بھائی جاگیر دار اور اشرافیہ امیر سے امیر تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ عام آدمی بے روزگاری اور مہنگائی کی چکی میں پس رہا ہے کسان بھوک سے مر رہا ہے اور آپ 
اجناس بھارت سے درآمد کر رہے ہیں جو پیسہ عوام کی فلاح و بہبود مثلاً ہسپتالوں اور درس گاہوں پر لگنا چاہیے تھا وہ میٹرو بسوں اور اورنج لائن پر خرچ ہو رہا ہے ملک کھربوں کے قرض تلے دبا ہوا ہے جس کی ادائی کا ذمہ دار آپ شاید خود کو نہیں سمجھتے۔
کرپشن کو اس حکومت نے اس قدر عام کر دیا ہے کہ لوگ کرپشن کو کرپشن سمجھتے ہی نہیں کیونکہ آپ کی طفیل پورا معاشرہ کرپٹ ہو چکا ہے سرکاری ملازمین ان سے بڑھ کر کرپٹ ہیں۔ آپ لوگ الیکشن اور جمہوریت کا راگ تو پورے زور و شور سے الاپتے ہیں لیکن کرپشن پر لب کشائی کی زحمت گوارا نہیں کرتے ماسوائے کرپشن کے خلاف خالی بیان دینے کے جو بجائے خود ایک کھلا مذاق ہے جبکہ آپ کی ساری عمارت جھوٹ پرکھڑی ہے۔
کرپشن کے اربوں کے سکینڈلز آئے روز منکشف ہو رہے ہیں حتیٰ کہ ایک سرکاری رپورٹ ہی کے مطابق ملک میں ہر روز12ارب کی کرپشن ہو رہی ہے اور اگر کرپشن میں حصے داری نہیں ہے تو اتنے وسیع پیمانے پر کرپشن کیوں ہو رہی ہے‘جہاں ڈی پی اوز سے منتھلیاں لی جاتی ہوں وہاں پولیس نے بھی مال پانی ہی اکٹھا کرنا ہے‘ روز کے ڈاکوں اور چوریوں کا انسداد وہ کیوں کرے گی جبکہ ان ڈاکوں میں بھی اس کا باقاعدہ حصہ ہوتا ہے جبکہ منشیات فروشی میں بھی پولیس ہی اگلی صفوں میں نظر آتی ہے۔
پاناما گیٹ کیس اپنے منطقی نتیجے پر پہنچنے والا ہے اور جس کی پوری پوری خبر آپ کو بھی ہے اور جو آپ لوگوں کی حواس باختگی سے ظاہر ہے۔ اور یہ نتیجہ صرف وزیر اعظم کی فارغ خطی سے مکمل نہیں ہو گا کیونکہ نواز شریف کے جانے کے بعد بھی اگر یہ گلا سڑا نظام اسی طرح باقی رہتا ہے تو موصوف کو اُتارنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ جب تک یہ سارا گند صاف نہیں ہوتا یہ محض ایک سعیٔ رائگاں ہو گی کیونکہ جس بد حکومتی اور کرپشن کی دہائی خود سپریم کورٹ اب تک دیتی آئی ہے وہ اگر نواز شریف کے بغیر اور بعد بھی جاری رہتی ہے تو یہ سب کچھ لاحاصل ہو گا اور یہ بات طے ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ سارا پھیلا ہوا گند اکیلی سپریم کورٹ صاف نہیں کر سکتی جبکہ اسے صاف کرنے والے بعد میں آئیں گے اور یہ گند دنوں اور مہینوں میں صاف ہونے والا بھی نہیں بلکہ اس کام پر برسوں لگیں گے‘یہ گند پورا جھاڑو پھیرے بغیر صاف نہیں ہو سکتا۔ جب تک اس پورے نظام کی اصلاح نہیں ہوتی‘ جب تک ملک کی لوٹی ہوئی اور بیرونی بینکوں میں پڑی دولت اور اثاثے ضبط ہو کر واپس نہیں آتے‘ یہ صفائی ہو ہی نہیں سکتی۔
لیکن‘ خاطر جمع رکھیے‘ اس کے لیے مارشل لاء نہیں لگانا پڑے گا کیونکہ مارشل لاء لگائے بغیر بھی ایک سے زیادہ ایسے طریقے موجود ہیںکہ یہ دیمک زدہ ملک نیا نکور ہو جائے۔یہ ملک لاوارث نہیں ہے اور اس کے وارث جاگ رہے ہیں اور مناسب وقت کا انتظار کر رہے ہیں‘ ملک سے ہر قسم کا مافیا ختم ہونے والا ہے۔ تبدیلی نہ فی الحال عمران خاں سے آئے گی نہ موجودہ حکمرانوں سے ؛البتہ وہ روشن صبح ضرور طلوع ہو گی جس کی آئے روز بشارت دی جاتی ہے یعنی 'جس کا کام اُسی کو ساجے اور کرے تو ٹھینگا باجے۔
آج کا مقطع
ظفر‘ بیماریٔ دل کو یونہی رہنے دیا میں نے
میں واقف تھا مرض کے لادوا ہونے سے پہلے ہی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved