ایک زمانے سے جو مطالبہ کیا جارہا تھا وہ پورا کردیا گیا یعنی سندھ میں بھی بلدیاتی انتخابات کرائے جاچکے ہیں۔ مگر اس کے بعد بھی پرنالے وہیں بہہ رہے ہیں۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ صوبائی حکومت کہتی ہے کہ بلدیاتی اداروں کو وہ تمام اختیارات دے دیئے گئے ہیں جو اُنہیں موثر انداز سے چلانے کے لیے ضروری ہوا کرتے ہیں۔ دوسری طرف بلدیاتی اداروں کے منتخب سربراہان کا شکوہ ہے کہ اختیارات دینے کی صرف بات کی گئی ہے، دیئے نہیں گئے ہیں۔
جب بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے تھے تب بھی یہ تاثر پوری شدت کے ساتھ موجود تھا کہ کراچی، حیدر آباد، میر پور خاص، ٹنڈو الٰہ یار اور دیگر شہروں میں ممکنہ طور پر وہ لوگ بلدیاتی اداروں کے سربراہ منتخب ہوں گے جن کا پیپلز پارٹی سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ کراچی، حیدر آباد اور میرپور خاص میں تو سبھی کو یقین تھا کہ ایم کیو ایم ہی مینڈیٹ لے کر ابھرے گی۔ اور ایسا ہی ہوا۔ کراچی کے میئر وسیم اختر کہتے ہیں کہ کام کیسے کریں، اختیارات دینے میں اب تک ٹال مٹول سے کام لیا جارہا ہے۔ دوسری طرف سندھ حکومت کہتی ہے کہ بلدیاتی اداروں کو آئین کے تحت جو اختیارات دیئے جانے چاہئیں وہ دے دیئے گئے ہیں۔ ان اختیارات کے تحت عوام کی خدمت کرنا ان کا فرض ہے۔
اتوار کو جامعہ کراچی میں ''قومی یکجہتی اور صوبائی روابط میں نوجوانوں کا کردار‘‘ کے زیر عنوان سیمینار منعقد ہوا جس کے شرکاء سے سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ، قومی اسمبلی کی رکن شازیہ مری، بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی، بلوچستان اسمبلی کی اسپیکر راحیلہ درانی، ایم کیو ایم پاکستان کے مرکزی رہنما ڈاکٹر فاروق ستار اور پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین سید مصطفی کمال نے خطاب کیا۔ سیمینار سے خطاب میں سید مراد علی شاہ نے کہا ''کوئی ہمیں اختیارات دینے کا درس نہ دے کیونکہ ہم ہی تو اختیارات کے چیمپئن ہیں۔ آئین کے تحت قانون سازی کے ذریعے بلدیاتی اداروں کو اختیارات دیئے جاچکے ہیں۔ کراچی اور دیگر شہروں کے بلدیاتی اداروں کو اختیارات نہ دینے کا الزام بے بنیاد ہے۔‘‘ پھر وزیر اعلیٰ سندھ نے ڈاکٹر فاروق ستار سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ''آپ بجٹ نہ دینے کی بات کر رہے ہیں۔ ایم کیو ایم نے اپنے دور میں بلدیاتی اداروں پر حد سے زیادہ بھرتیوں کا بوجھ لاد دیا۔ صرف واٹر بورڈ میں دس ہزار افراد بھرتی کیے گئے۔‘‘
سیمینار کی خاص بات یہ تھی کہ ڈاکٹر فاروق ستار اور سید مصطفی کمال نے مصافحہ کیا۔ اِس موقع پر سید مصطفٰی کمال نے کہا کہ ہم لوگوں کو سمجھانا چاہتے ہیں کہ قومی پرچم کو تھامنے والے ایک دوسرے کے دشمن نہیں ہوسکتے۔ اِس سے قبل ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ مقامی اداروں کو ضرورت کے مطابق اختیارات اور بجٹ فراہم کیے بغیر کوئی بھی ملک ترقی نہیں کرسکتا۔
ایک سندھ پر کیا موقوف ہے، پورے ملک میں بلدیاتی اداروں کے اختیارات کا مسئلہ رہا ہے۔ وفاق میں حکومت بنانے والی جماعت اگر یہ دیکھتی ہے کہ وہ مقامی اداروں پر متصرّف نہیں ہوسکتی تو بلدیاتی انتخابات کرانے سے گریز کی راہ پر گامزن رہتی ہے۔ ن لیگ ہو یا پیپلز پارٹی ... دونوں ہی نے بلدیاتی انتخابات کی راہ پر گامزن ہونے سے ہمیشہ گریز کیا ہے۔ کیوں؟ اِس سوال کا جواب دونوں کے پاس نہیں ہے۔ اور اِس کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ عوام کو جواب اچھی طرح معلوم ہے۔ سیدھی سی بات ہے، دونوں ہی بڑی جماعتیں اِس بات کو پسند نہیں کرتیں کہ بڑے اور درمیانے حجم کے شہروں کا اختیار اُن کے ہاتھ سے نکلے۔ سچ یہ ہے کہ اُن سے دوسرے صوبوں میں دیگر جماعتوں کی حکومت بھی برداشت نہیں ہوتی۔ یہی سبب ہے کہ وفاق اور صوبوں میں ٹھنی رہتی ہے۔ چھوٹے صوبے خاص طور پر وفاق کے رویّے سے شاکی رہتے ہیں۔ جب وفاق میں پیپلز پارٹی اقتدار میں ہوتی ہے تب پنجاب میں ن لیگ یا کسی اور پارٹی کی حکومت سے اس کے تعلقات خوشگوار نہیں ہوتے۔ اِسی طور ن لیگ اقتدار میں ہو تو سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت سے اس کے تعلقات الجھن کا شکار رہتے ہیں۔
لڑائی ہاتھیوں کی ہے اور شامت کھیت میں اُگے ہوئے گنّے کی آتی ہے۔ عوام اپنے مسائل کے حل کی راہ تکتے تکتے ہر بات سے، حتّٰی کہ زندگی سے بھی وحشت سی محسوس کرنے لگتے ہیں۔ اس وقت کراچی سمیت سندھ پر یہی کیفیت محیط ہے۔ صوبہ پیپلز پارٹی کے ہاتھ میں ہے اور ملک کا سب سے بڑا شہر ایم کیو ایم کے تصرّف میں ہے۔ سندھ اور کراچی دونوں ہی ایک بار پھر اختیارات کے اکھاڑے میں ہیں۔ عوام کی خواہش ہے کہ وہ ہاتھ ملائیں اور ایک دوسرے کو قبول کرنا سیکھیں مگر یہاں تو ملاکھڑا ہو رہا ہے۔ عوام نے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو ووٹ، ظاہر ہے، اِس لیے نہیں دیئے کہ وہ آپس میں الجھیں اور مسائل کا ڈھیر لگا ہی رہے۔
آئین اور قانون کی بُھول بُھلیّوں میں گم رہنے کا عوام کو ذرا بھی شوق نہیں۔ وہ تو اپنا معیار زندگی بلند کرنے کی فکر میں غلطاں رہتے ہیں۔ اور اِس منزل تک پہنچنے سے بھی بہت پہلے اُن کی شدید خواہش ہے کہ بنیادی سہولتیں آسانی اور کافی تناسب سے میسّر ہوں۔
سید مراد علی شاہ نے پیپلز پارٹی کو اختیارات کی چیمپئن قرار دیا ہے۔ ٹھیک ہے، پیپلز پارٹی اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کی باتیں کرتی آئی ہے مگر سوال یہ ہے کہ عوام کے لیے کون سی تبدیلی اِس حد تک ممکن بنائی جاسکی ہے کہ دکھائی بھی دے؟ غریبوں کے پرنالے تو وہیں بہہ رہے ہیں۔ کراچی کی حالت اس وقت ناگفتہ بہ ہے۔ جس شہر کی بہتر کارکردگی پر قومی معیشت کا مدار ہے اور جہاں سے ملک بھر کے لوگ معاش کے ذرائع پاتے ہیں اُسی کو یوں نظر انداز کردیا گیا ہے کہ جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر ہیں۔ گیس کے سوا کسی بھی بنیادی سہولت کا مثالی نظام موجود نہیں۔ کہیں پانی کی فراہمی کا نظام قابل رحم حالت میں ہے تو کہیں نکاسی کا۔ صوبائی حکومت پر الزام ہے کہ اُس نے اختیارات کچھ اِس انداز سے اپنے ہاتھ میں رکھے ہیں کہ مقامی اداروں کے منتخب سربراہان کے لیے خاطر خواہ آزادی کے ساتھ کام کرنا ممکن نہیں رہا۔ دوسری طرف صوبائی حکومت یہ الزام عائد کر رہی ہے کہ ماضی میں مقامی ادارے جن کے ہاتھ میں تھے انہوں نے اختیارات انتہائی غلط طریقے سے بروئے کار لاتے ہوئے معاملات کو یوں بگاڑا کہ اداروں کا ڈھانچا ہی تباہ ہوگیا۔ اس حوالے سے غیر ضروری اور غیر قانونی بھرتیوں کا معاملہ سے سب نمایاں رہا ہے۔ کے ایم اور واٹر بورڈ کی مثال سامنے ہے۔ ان دونوں اداروں کو عملے کی زیادتی نے ایسا کچلا کہ پھر یہ سَر اُٹھا ہی نہ سکے۔
کراچی سمیت پورے صوبے کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم دونوں ہی کو تھوڑا پیچھے ہٹنا ہے اور تھوڑا آگے بڑھنا ہے۔ جامعہ کراچی کے سیمینار میں ڈاکٹر فاروق ستار اور سید مصطفی کمال کا مصافحہ توجہ کا مرکز بنا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ سید مراد علی شاہ اور وسیم اختر کے مصافحے کا بھی اہتمام کردیا جاتا۔ اور مصافحہ کیا، اِس معاملے میں تو معانقے کی ضرورت ہے!
عوام کو اختیارات کی بحث سے کیا غرض؟ وہ تو اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں۔ اُن کی آرزو تو بس اِتنی ہے کہ ڈھنگ سے زندہ رہنے کے لیے جو بنیادی سہولتیں درکار ہیں وہ مطلوبہ تناسب اور آسانی سے مل جائیں۔ سیاسی اکھاڑے سجانے کے لیے ابھی کئی زمانے پڑے ہیں۔ اِِشوز کی کون سی کمی ہے؟ سندھ حکومت اور بلدیاتی اداروں کے درمیان اختیارات کی چیمپئن شپ پھر کبھی سہی۔ فی الحال تو عوام کی بنیادی ضرورتیں پوری کردی جائیں۔ اِتنا بھی ہو جائے تو عوام سمجھیں گے کہ رب نے التجا سُن لی، من کی مراد مل گئی۔ اور پھر وہ تاحیات جمہوریت کے گُن گاتے رہیں گے۔