1398 ء کا سال تھا۔ تیمور ہندوستان کی سرحد پر فوج لے کر کھڑا تھا ۔ اس سے کچھ عرصہ پہلے چنگیز خان دریائے سندھ سے آگے نہیں بڑھ سکا تھا کیونکہ اس وقت دلی محفوظ ہاتھوں میں تھی ۔
چنگیز خان سے تیمور تک اب دلی بدل گئی تھی ۔دلی پرفیروز شاہ کو مرے دس برس گزر چکے تھے۔ تخت کے دعویداروں نے لڑ لڑ کر دلی کو کمزور کردیا تھا۔ اب دو کٹھ پتلی بادشاہ جنہیں دلی کے شرفاء نچا رہے تھے اور وہ آپس میں اقتدار کی جنگ میں مصروف تھے۔ ہندوستان میں داخل ہوتے ہی تیمور جہاں سے گزرتا گیا ہر طرف لاشوں کے ڈھیر لگتے گئے۔مقامیوں نے مال غنیمت تیمور کے قدموں میں ڈھیر کیے تو جان چھوٹی۔ اگر بدقسمتی سے مال غنیمت پر مذاکرات کے دوران بحث ہوگئی تو تیمور نے ہندوستانیوں کے قتل عام کا حکم دیا ۔ مغل فوجیوں کی اپنے سپہ سالار سے وفاداری کی ایک ہی شرط تھی کہ وہ انہیں ان علاقوں میں لوٹ مار کی کتنی اجازت دے گا اور وہ واپسی پر کتنا مال سمیٹ کر گھر لوٹیں گے؟ اس لیے تیمور ہندوستان کی کسی بستی یا شہر پر رحم افورڈ ہی نہیں کرسکتا تھا ۔ وہ لوٹ مار اور قتل عام پر ہی فوج کو قابو میں رکھ سکتا تھا۔ اگر وہ دلی کی طرف جلدی چل رہا تھا تو بڑی وجہ یہ تھی جہاں سے وہ گزرتا لاشوں کی بو وہاں نہ ٹھہرنے دیتی۔ صرف ان ہندوستانیوں کی جان بچ جاتی تھی جنہیں تیمور کی فوج سامان اٹھانے کے لیے غلاموں کے طور پر استعمال کرتی تھی‘ باقی سب کے سرقلم کر دیے جاتے۔
تیمور دلی کے قریب پہنچ گیا تھا ۔ اب دلی پر مالو خان کی حکومت تھی جس نے دو کٹھ پتلی بادشاہوں میں سے ایک محمود شاہ کو قابو میں کررکھا تھا اور اس کے نام پر حکومت کررہا تھا ۔ اتفاقاً ایک رات تیمور جس جگہ موجود تھا وہاں مالو خان نے حملہ کیا ۔ حملہ ناکام رہا لیکن اس حملے کی خبر نے پچاس ہزار ہندوستانیوں کی جان لے لی ۔ پہلے تو ان قیدیوں کو قتل کیا گیا جو تیمور کے کیمپ پر ہونے والے حملے پر اپنی خوشی نہ چھپا سکے تھے ۔ تیمور نے حکم دیا کہ جس کے پاس بھی ہندوستانی غلام ہے اس کا سر قلم کر دیا جائے۔ آدھے گھنٹے میں سب کے سرقلم ہوچکے تھے اور تو اور ایک ایسے بوڑھے کو بھی معاف نہ کیا گیا جو شاید ایک بھیڑ بھی نہ مارسکتا تھا۔ تیمور نے ہندوستانی ہاتھیوں کی فوج سے لڑنے کا یہ حل ڈھونڈا کہ بہت بڑی تعداد میں اونٹوں اور بھینسوں پر خشک گھاس لاد کر ہاتھیوں کی طرف ہانک دیا گیا اور آخری لمحے پر ان پر لدی گھاس کو آگ لگا دی گئی۔ آگ کے شعلوں میں گھرے دہشت زدہ جانوروں کا شور اور خوف اتنا شدید تھا کہ انہوں نے ہاتھیوں کو بھی بھاگنے پر مجبور کردیا۔
آخر محمود شاہ اور مالو خان دلی کے قلعے سے باہر نکلے۔ ان کے ساتھ دس ہزار گھوڑے اور پچاس ہزار پیدل فوج اور ہاتھیوں کی فوج تھی‘ شام تک دلی فتح ہوچکی تھی اور اگلے دن دلی کے لوگ تیمور کے قدموں میں پڑے جان کی امان مانگ رہے تھے۔ تیمور جان بخشی کے بدلے بہت بڑا تاوان مانگ رہا۔ ایک سو بیس ہاتھیوں کی تیمور کے آگے پریڈ کرائی گئی اور وہ ایسے قدموں پر جھکے جیسے وہ بھی معافی مانگ رہے ہوں۔ جمہ کے دن تیمور کے نام کا خطبہ پڑھا گیا اور ساتھ ہی تمام مسلمانوں سے تاوان کی وصولی شروع کر دی گئی ۔
تاوان کی ادائیگی پر تیاردلی کے باشندوں کو خون میں نہلا دیا گیا اور دلی جلائی گئی یہ کیسے ہوا اس پر کچھ اختلافات پائے جاتے ہیں۔ تیمور کے فوجی جتنے زیوارت لوٹ رہے تھے وہ آج تک کہیں سے نہیں لوٹے تھے۔ کیونکہ ہندوستان میں غریب سے غریب عورت بھی زیورات ضرور پہنتی تھی۔ فوجی ہر عورت کے گلے میں ہاتھ ڈالتے اور زیورچھین لیتے۔ کسی نے ہاتھ روکا تو تلوار گھونپ دی اور زیور لے لیا ۔ ہر فوجی نے زیوارت تو لوٹے ساتھ ہی ایک ایک کے پاس بیس بیس ہندوستانی مسلمان اور دیگر غلام بھی تھے۔ بعض نے تو ڈیڑھ ڈیڑھ سو تک غلام بنا لیے دلی آگ کے شعلوں میں جل رہی تھی اور تیمور اپنے خیمے میں فتح کا جشن منا رہا تھا۔
جب ہزاروں ہندوستانیوں کو زنجیروں میں جکڑ اور غلام بنا کر تیمور کے سامنے کھڑا کر دیا گیا تو ان میں جو ہنرمند تھے انہیں علیحدہ کر کے تیمور کے حوالے کر دیا گیا اور انہیں بھی ہندوستانی ہاتھیوں کی طرح سمرقند روانہ کردیا گیا۔ یہ تیمور کی پالیسی تھی ہر شہر فتح، برباد اور آگ کے شعلوں کے حوالے کرنے کے بعد وہ وہاں کے ہنر مندوں کو سمرقند بھیج دیتا تھا جو اس کے شہر کو مزید خوبصورت بنانے کے کام آتے۔ دوسرے شہروں کو برباد کرنے کے بعد تیمور نے اپنے شہر کو دنیا کا خوبصورت شہر بنادیا ۔ ہر شہر کی بربادی اور تباہی سمر قند کے لیے خوش خبری، دولت، نئے غلام اور نئے ہنر مند لاتی۔ تیمور دس دن مزید دلی میں رہا اور اطراف کے لوگوں اور علاقوں سے تاوان اکھٹا ہوتا رہا۔ ایک روایت مطابق تیمور کی فوج کے پاس اب اتنا لوٹا ہوا مال و دولت تھا کہ وہ بمشکل روزانہ چار کلومیٹر کا سفر طے کر سکتی تھی‘ تاہم کچھ کہتے ہیں غلط ہے کیونکہ وسط دسمبر میں دلی فتح کرنے کے بعد مارچ میں تیمور کی فوج دریائے سندھ عبور کررہی تھی۔ تیمور چھ ماہ سے بھی کم عرصہ ہندوستان میں رہا اور اپنے پیچھے جو تباہی اور بربادی چھوڑ گیا وہ آج بھی دل دہلا دیتی ہے۔ تیمور کے جانے کے بعد ہندوستان میں قحط پھیل گیا اور ساتھ ہی لاشوں کے انبار کی وجہ سے‘ جو کتوں اوردرندوں کے کھانے سے بچ گئے تھے ‘ بیماریاں پھیل گئیں بچے کھچے ہندوستانی باشندے ان بیماریوں سے مرگئے۔
کہتے ہیں تیمور کے جانے کے بعد دو ماہ تک کچھ چیز حرکت کرتی نہیں دیکھی گئی ۔ انسان تو چھوڑیں دلی کی فضائوں میں کوئی پرندہ بھی اڑتا نہیں دیکھا گیا جب کہ ہندوستان سے لوٹی گئی دولت اور انسانی غلاموں سے سمرقند نے اتنی ترقی کی کہ چند برس بعد 1404 ء میں جب سپین کے سفیر نے سمرقند کا دورہ کیا تو اس نے اتنے غیرملکی قیدی ہنرمند دیکھے لگتا تھا کہ سونے کی جگہ نہ تھی ۔ وہ باہر غاروں اور درختوں کے نیچے رہتے تھے۔ تیمور کے جانے کے تقریبا ایک سو سال بعد مغل دوبارہ ہندوستان کی سرحد پر دستک دے رہے تھے۔ اب کی دفعہ وہ یہیں مستقل رہنے آئے تھے۔ ان کے منہ کو خون اور دولت کی لت لگ چکی تھی۔ انہیں اس سے فرق نہیں پڑتا تھا دلی پر مسلمان حکمران تھے یا دیگر مذاہب کے لوگ۔ انہیں پیسہ اور دولت چاہیے تھے اور انسانی سر اور ہندوستان کی بدقسمتی یہ سب کچھ نہ صرف یہاں موجود تھا بلکہ بہت بڑی تعداد اور مقدار میں تھا۔لاہور اور ملک کے دیگر علاقوں میں دھماکوں میںبے گناہ انسانی جانوں کے ضیاع پر دل بہت اداس تھا۔ سوچا شاید نئی کتاب دل بہلائے گی ۔
رات گئے تک The Great Moghuls/Indians most flamboyant rulers پڑھتا رہا ۔ دل کڑھتا رہا ‘ انسان کتنا ظالم ہے‘کیسے اپنی جیسے انسانوں کی جان لے لیتا ہے۔
ایک دفعہ ایک رشتہ دار خاتون کو خونریزی کا یہ جواز دیا کہ تاریخ میں ہمیشہ خون بہایاجاتا رہا ہے اور بہتا رہے گا ۔ اس نے کیا خوبصورت جواب دیا تھا اگر ہزار سال پہلے کے قدیم وحشی انسان اور آج کے جدید مہذب انسان میں وقت فرق نہیں ڈال سکا تو پھر کیسی ترقی، کیسی تہذیب اور کیسا جنون...!
شاید آج سے ایک ہزار سال بعد کسی اور زمانوں میں کوئی اور میری طرح آج کے انسانوں کے دکھوں کی کہانی پڑھ رہا ہوگا جیسے میں تیمور کی لگائی آگ کے شعلوں میں گھری دلی کی رُلا دینے والی داستان پڑھ رہا تھا...!
مجھے نہیں پتہ چلا کب میرے ہاتھوں سے کتاب پھسل گئی۔ دوبارہ اٹھا کر پڑھنے کا حوصلہ نہ ہوا ۔ ایک اور طویل اور اداس رات کا مجھے سامنا تھا ...!!!