تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     16-02-2017

سیاسی مہم جوئی کی کہانی‘ اور سعود ساحر کا خط

''آئیے کھانا کھائیں‘‘ ڈاکٹر مہدی حسن کے حوالے سے کچھ دلچسپ واقعات گزشتہ کالم میں بیان ہو چکے‘ آج ایک واقعہ یا مشاہدہ ہمارا اپنا۔ یہ نومبر 1992ء کی بات ہے‘ محترمہ بے نظیر بھٹو نے پیپلز ڈیموکریٹک الائنس کی طرف سے کراچی سے اسلام آباد تک ٹرین مارچ اور پارلیمنٹ کے گھیرائو (اور یوں نواز شریف حکومت کے خاتمے) کا اعلان کیا۔ اس سے پہلے 17 اکتوبر کو آرمی چیف جنرل آصف نواز کے نجی دورۂ کراچی کے دوران محترمہ کی ان سے ملاقات ہو چکی تھی‘ جسے صیغۂ راز میں رکھا جا رہا تھا۔ وہ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب بلاول ہائوس میں نہیں تھیں۔ بعد میں پیپلز پارٹی نے تصدیق کر دی کہ جنرل آصف نواز اور بے نظیر کی یہ ملاقات پہلے سے طے شدہ تھی کہ فوجی قیادت اور قومی قیادت میں ایسے رابطے ملکی مفاد میں ہیں۔ ذرائع کے مطابق‘ محترمہ نے جنرل آصف نواز کے ذریعے صدر غلام اسحاق خاں کو‘ وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف کسی کارروائی کے لیے‘ مشروط حمایت کی پیشکش کر دی تھی۔
اگست میں این ڈی اے کے نام سے اپوزیشن کا ایک اور الائنس بھی وجود میں آ چکا تھا‘ جس میں نواب زادہ نصراللہ خان‘ اکبر بگٹی‘ حفیظ پیرزادہ‘ غلام مصطفی کھر‘ معراج محمد خاں‘ فتح یاب علی خاں اور کوثر نیازی کے علاوہ جناب غلام مصطفی جتوئی بھی شامل تھے۔ چند ماہ قبل جتوئی صاحب نے وفاقی کابینہ سے اپنے صاحبزادے غلام مرتضیٰ جتوئی کی برطرفی کے بعد وزیر اعظم نواز شریف سے اپنی راہیں جدا کر لی تھیں۔
23 نومبر کو محترمہ نے کراچی سے ٹرین مارچ کا آغاز کیا تو جنابِ جتوئی‘ حفیظ پیرزادہ‘ کوثر نیازی اور غلام مصطفی کھر بھی شامل باجہ ہو گئے۔ ادھر نواب زادہ صاحب اور اکبر بگٹی سمیت این ڈی اے کے دیگر رہنمائوں کے اپنے تحفظات تھے۔ ان کا ایک مطالبہ یہ تھا کہ پیپلز پارٹی نواز شریف حکومت کے خاتمے میں مخلص ہے تو بلوچستان میں اسلامی جمہوری اتحاد کی مخلوط حکومت سے الگ ہو جائے۔ 24 مارچ کو لانگ مارچ ٹرین لاہور پہنچی‘ جہاں دو روز قیام کے بعد محترمہ کو راولپنڈی کے لیے روانہ ہونا تھا۔ جنابِ خورشید محمود قصوری پیپلز ڈیموکریٹک الائنس کے سیکرٹری جنرل تھے۔ 25 نومبر کی شب ان کے ہاں (مین بلیوارڈ گلبرگ میں) عشائیہ تھا۔ کھانے سے پہلے فوٹو سیشن اور میڈیا سے گفتگو کے لیے محترمہ بے نظیر بھٹو اور جناب غلام مصطفی جتوئی ایک ہی صوفے پر موجود تھے۔ اخبار نویس نے محترمہ سے سوال کیا‘ ایک ایسی پارلیمنٹ کے گھیرائو اور ایک ایسی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کا کیا جواز ہے جسے عوام نے 5 سال کے لیے منتخب کیا‘‘؟... ''لیکن وہ تو Rigged Election تھے۔ یہ حکومت اور پارلیمنٹ دھاندلی کی پیداوار ہے جسے ہم تسلیم نہیں کرتے‘‘... ''گویا آپ کی یہ مہم الیکشن رگنگ کے خلاف ہے‘‘؟... ''ہاں! آپ درست سمجھے‘‘... ''اس صورت میں آپ کو یہ مہم اس شخص کے خلاف چلانی چاہیے‘‘ ... منہ پھٹ اور بے لحاظ اشرف ممتاز کا اشارہ جتوئی صاحب کی طرف تھا۔ محترمہ کے چہرے پر مسکراہٹ کی لہر سی آئی اور گزر گئی۔ اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتیں‘ جتوئی صاحب کا استفسار تھا‘ ''سائیں! میرے خلاف کیوں؟ مجھے معاف رکھو بابا!‘‘ ... ''آپ کے خلاف اس لیے کہ وہ الیکشن آپ ہی نے کروائے تھے‘ تب آپ ہی نگران وزیر اعظم تھے‘‘۔ جتوئی صاحب مشکل میں پڑ گئے تھے کہ محترمہ اپنے انکل کی مدد کو آئیں‘ خورشید محمود قصوری کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے پوچھا‘ کھانے میں کتنی دیر ہے؟ ''جی! تیار ہے۔ آپ اخبار والوں سے فارغ ہوں تو...‘‘۔ ''ہم تو فارغ ہو چکے‘‘... محترمہ یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں‘ ''آئیے! کھانا کھائیں‘‘۔ جتوئی صاحب ان سے بھی پہلے اٹھ گئے تھے۔
ٹرین مارچ کس ناکامی سے دوچار ہوا‘ یہ الگ کہانی ہے۔ پھر ہوا یہ کہ قائدِ حزبِ اختلاف بے نظیر بھٹو صاحب قومی اسمبلی کی فارن افیئرز کمیٹی کی بلا مقابلہ چیئرپرسن منتخب ہو گئیں۔ امورِ خارجہ کے وزیر مملکت محمد صدیق کانجو نے ان کا نام تجویز کیا‘ اور جناب شہباز شریف نے حمایت کی۔ حکومت کا یہ فیصلہ سیاسی حلقوں کے لیے غیر متوقع تھا۔ بی بی سی اسے وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے سیاسی مفاہمت کی اہم کوشش قراردے رہا تھا۔ سپیکر قومی اسمبلی جناب گوہر ایوب خاں نے پارلیمانی سیمینار میں شرکت کے لیے بیرونِ ملک جانے والے وفد میں محترمہ نصرت بھٹو کا نام بھی شامل کر دیا تھا۔ مولانا فضل الرحمن کا کہنا تھا‘ پیپلز پارٹی نے ثابت کر دیا کہ اس کا کوئی اصول یا نظریہ نہیں۔ نواب زادہ حیران تھے کہ ایسی قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی کی چیئرپرسن شپ قبول کر لینا کہاں کی دانش مندی ہے جسے بوگس قرار دیا جا رہا تھا‘ اور جسے توڑ کر نئے الیکشن کرانے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔
اسی دوران ایک اور دلچسپ پیش رفت یہ ہوئی کہ 25 جنوری کو آصف زرداری نے خاموشی سے بلاول ہائوس کراچی میں بختاور کی تیسری سالگرہ میں شرکت کی۔ ان کی آمد اور روانگی کو دوسرے مہمانوں سے خفیہ رکھا گیا تھا۔ وہ تین بجے سہ پہر ایک پرائیویٹ کار میں جیل سے بلاول ہائوس پہنچے‘ خاموشی سے ایک کمرے میں جا کر صاحبزادی کی سالگرہ کا کیک کاٹا اور دو گھنٹے بعد خاموشی سے جیل واپس چلے گئے۔
29 جنوری کو محترمہ بے نظیر بھٹو لندن چلی گئیں۔ 2 فروری کی شب انہوں نے بیٹی (آصفہ) کو جنم دیا۔ بیگم نصرت بھٹو بھی ہسپتال میں موجود تھیں۔ سابق برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر نے مبارکباد کے پھول بھجوائے۔ وفاقی حکومت نے ہسپتال کو 15ہزار پونڈ کے بل کی ادائیگی کی منظوری دے دی۔ الطاف حسین نے بھی گلدستہ بھجوایا‘ جسے محترمہ نے یہ کہتے ہوئے قبول کر لیا کہ وہ ملک دشمن ہے‘ اس سے ملاقات نہیں ہو سکتی۔
ادھر پاکستان میں بابائے اسٹیبلشمنٹ صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان کشمکش فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی تھی۔ محترمہ 17 اپریل کی صبح لندن سے پاکستان واپس پہنچ گئیں۔ اسی شام وزیر اعظم نواز شریف نے قوم سے خطاب میں ایوان صدر پر یلغار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ہر سازش کا مقابلہ کریں گے‘ ایڈوائس قبول کریں گے‘ نہ پارلیمنٹ توڑیں گے‘ نہ استعفیٰ دیں گے۔ فیصلے کی گھڑی آن پہنچی تھی۔18 اپریل کو شام ساڑھے چھ بجے محترمہ ایوانِ صدر پہنچیں۔ صدر سے ملاقات میں انہیں مکمل تائید و حمایت کا یقین دلاتے ہوئے اپنے ارکان اسمبلی کے استعفے بھی ان کے سپرد کر دیے۔ کہا جاتا ہے‘ اس شب وزیر اعظم نواز شریف کی برطرفی اور اسمبلی کی تحلیل والی صدارتی تقریر (مولانا) کوثر نیازی نے تیار کی تھی۔ 
اور قارئین! اب گزشتہ جمہور نامہ پر ہمارے برادر بزرگ جناب سعود ساحر کا میڈیا ٹائون راولپنڈی سے غصے بھرا خط... السلام علیکم! آپ کا کالم پڑھنا ضرورت بھی ہے اور مجبوری بھی۔ اس ضرورت اور مجبوری کی وضاحت میں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے مگر اس کا یہ محل نہیں‘ موضوع اور ہے۔ ایک عرصہ سے لگتا یوں ہے کہ میاں صاحب (اور ان کی مسلم لیگ) کی مدح اور ان کے معترضین کی قدح میں لکھنے سے آپ اکتا چکے ہیں اور اس حوالے سے لکھنے کو کچھ رہا بھی نہیں۔ لیکن کالم کا پیٹ بھرنے کے لیے لکھنا بھی ضروری ہے‘ سو اس کا آسان طریقہ آپ نے یہ اختیار کیا ہے کہ ہم جیسے عمر رسیدہ دوستوں کو سزا دینے کی روش اپنائی جائے۔ میرے لیے تو یہ دوہری سزا ہی کافی ہے کہ آپ جنگ و جدل کا راستہ ترک کرکے دنیا کی گداز بانہوں میں راحت تلاش کریں۔ ہم ایک قاری کے طور پر آپ کے نقشِ قدم گنتے ہیں اور جب نیم حاضرانہ اور نیم غائبانہ ملاقات ہو تو آپ کا یہ قولِ صادق سننے کو ملے‘ ''اچھا آپ نے بھی لکھا؟ کب؟ کیا امت میں‘‘؟ یہ دونوں طرح کی سزائیں مسلسل بھگت رہا ہوں۔ اب آپ نے تازہ ستم یوں ایجاد کیا کہ ایک ترقی پسند دانشور کے منہ سے جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم پر اچھا سامع اور حیرت انگیز قوتِ برداشت رکھنے کی تہمت لگا دی۔ میرے نزدیک بھٹو مرحوم سیاسی تاریخ کا ایک انوکھا کردار ہیں۔ وہ کیا تھے‘ کیسے تھے؟ اس کا فیصلہ کسی ''دانشور‘‘ کی خود ستائی پر مبنی گفتگو سے نہیں لگایا جا سکتا۔ کیا آپ نے بھٹو مرحوم کا مارشل لا سے بدتر زمانہ نہیں دیکھا‘ نہیں بھگتا؟ حیرت ہے‘ آپ نے دانشور موصوف کی اس بات پر کیسے یقین کر لیا (اور پھر اسے اپنے قارئین تک بھی پہنچا دیا) کہ اس نے بھٹو صاحب کو طعنہ دیا (کہ جب آپ ایوب خاں کی کابینہ میں وزیر تھے‘ میں اس کی مخالفت میں منٹگمری (اب ساہیوال) جیل میں تھا) اور بھٹو صاحب نے اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیا۔ بھٹو مرحوم کے سامنے بیچارے لیکچرار کی کیا مجال کہ گستاخانہ زبان ہلائے۔ خود ڈاکٹر مبشر حسن‘ مختار رانا‘ معراج محمد خاں‘ افتخار تاری‘ چودھری ارشاد‘ جے اے رحیم اور ممتاز بھٹو میں سے کسی نے بھٹو صاحب کے سامنے سچ بولنے کی جرات نہ کی‘ بلکہ اپنی نجی محفلوں میں بات کی اور کسی''نورے‘‘ نے سن کر بھٹو صاحب تک پہنچائی‘ تو اس کا حشر تاریخ میں لکھا ہے۔ بہرحال آپ نے حلقۂ یاراں بدل لیا ہے تو اس پر مبارکباد دینا تو ہمارا فرض بنتا ہے۔
ہم وفا کے اسی موڑ پر
چاک داماں کھڑے ہیں کہ جب
اپنے احباب گزریں ادھر سے کبھی
آئینہ دیکھ لیں
سعود بھائی! آپ سے اظہارِ اختلاف؟ یہ تاب‘ یہ مجال‘ یہ جرات کہاں مجھے؟ بس اتنی سی عرض ہے کہ ڈاکٹر مہدی حسن سے یہ اتفاقی (یا حادثاتی) ملاقات تھی۔ ان کی غیر رسمی گفتگو دلچسپ تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ آف دی ریکارڈ نہیں‘ چنانچہ اسے نذرِ قارئین بھی کر دیا۔ بس اتنی سی ''غلطی‘‘ ہو گئی جس پر آپ نے ڈانٹ ڈپٹ ضروری سمجھی تو میں نے اسے Enjoy کیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved