تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     16-02-2017

سرخیاں‘ متن اور ٹوٹے

دہشت گردوںکو بے رحم جواب 
واحد راستہ ہے: نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''دہشت گردوں کو بے رحم جواب واحد راستہ ہے‘‘ اور ان کے خلاف جو رحمدلانہ راستہ اختیار کیا گیا تھا اس کی انہوں نے قدر نہیں کی اور الٹا ہماری پوزیشن بھی خراب کر دی‘ چنانچہ بے رحمانہ راستے کی تشخیص کر دی گئی ہے اور اب صرف اس پر چلنا باقی ہے اور جس طرح اس راستے کی تشخیص ہو گئی ہے اسی طرح اس پر چلنے کا وقت بھی انشاء اللہ جلد آ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''سہولت کاروں کو ختم کرنا بھی ضروری ہے‘‘ اور کافی سوچ بچار کے بعد ہم اسی نتیجے پر پہنچے ہیں اس لیے سہولت کاروں کو چاہیے کہ خبردار ہو جائیں ورنہ پھر ہم سے شکایت نہ کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ''دہشت گردوں اور سہولت کاروں کا ملک بھر میں پیچھا کریں گے‘‘ جبکہ وہ ہمارے آگے آگے ہوں گے اور ہم ان کے پیچھے‘ اس لیے کبھی تو ان سے ملاقات ہو ہی جائے گی کیونکہ جوئندہ یا بندہ ہی ہوتا ہے۔ آپ اگلے روز اسلام آبادمیں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس سے خطاب کر رہے تھے۔
بزدل دشمن نے سفاکانہ کارروائی کی
قوم بدلہ ضرور لے گی:شہباز شریف
خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''بزدل دشمن نے سفاکانہ کارروائی کی‘ قوم بدلہ ضرور لے گی‘ اس لیے قوم اُٹھ کھڑی ہو اور ان سے بدلہ لینا شروع کر دے اور ہم جونہی اورنج لائن وغیرہ سے فارغ ہوتے ہیں تو ہم بھی قوم کے ساتھ شامل ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''بے گناہوں کا خون رنگ لائے گا‘‘ اگرچہ ماڈل ٹائون کے بے گناہوں کا خون تو رنگ نہیں لایا تاہم امید ہے کہ ان کا خون ضرور رنگ لائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''جوانوں کا جذبہ دیکھ کر یقین ہو گیا کہ دہشت گردی کا ناسور جلد ختم ہو گا‘‘ اور انشاء اللہ یہ اپنے آپ ہی ختم ہو جائے گا اور ہمیں اس سلسلے میں کوئی زحمت نہیں اٹھانا پڑے گی البتہ انہیں یہ یاد دہانی ضروری ہے کہ انہوں نے پنجاب میں کوئی کارروائی نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن افسوس کہ انہوں نے کوئی خیال نہیں رکھا اور یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ آپ اگلے روز گنگا رام ہسپتال میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
دھماکے کے وقت میں چند گز 
کے فاصلے پر تھا: حمزہ شہباز
نواز لیگ کے مرکزی رہنما حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ ''دھماکے کے وقت میں چند گز کے فاصلے پر تھا‘‘ اور اگر تھوڑا سا مزید قریب ہوتا تو خدا نخواستہ میں بھی اس کی زد میں آ سکتا تھا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے‘‘ اور اب وہ ٹوٹی ہوئی کمروں کے ساتھ ہی یہ کارروائیاں کر رہے ہیں حالانکہ سب سے پہلے انہیں اپنی ٹوٹی ہوئی کمروں کا علاج کروانا چاہیے تاکہ تندرست ہو کر اپنے فرائض سرانجام دے سکیں‘ تاہم تایا جان کے بعد میرے وزیر اعظم بننے کی دیر ہے‘ میں انہیں چھٹی کا دودھ یاد دلا دوں گا کیونکہ انہوں نے ابا جان سے کیے گئے وعدے کا بھی کوئی خیال نہیں رکھا۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم سانحہ کے متاثرین کے غم میں برابر کے شریک ہیں‘‘ جبکہ ہر بار ہم ایسا ہی بیان بڑے زورشور سے دیتے ہیں بلکہ تایا جان ‘والد صاحب اور میں نے یہ بیان ٹیپ کروا رکھا ہے جو ایسے مواقعوں پر باقاعدگی کے ساتھ جاری کر دیا جاتا ہے‘ اس کے علاوہ ہم کر بھی کیا سکتے یں۔ آپ اگلے روز میوہسپتال میں زخمیوں کی عیادت کے بعد میڈیا سے باتیں کر رہے تھے۔
حُسنِ اتفاق
وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ دہشت گردوں کا ہدف دراصل وزیر اعلیٰ تھے جو 90شاہراہ قائد اعظم پر ایک اجلاس سے خطاب کرنے والے تھے لیکن تاخیر سے پہنچنے کی وجہ سے انہوں نے احتجاجی کیمپ کا رخ کر لیا۔ وزیر اعلیٰ کی جان بچنے پر رانا صاحب دو چار بکروں کا صدقہ ہی دے دیتے لیکن انہوں نے خالی بیان پر ہی ٹرخا دیا۔ ہماری دانست میں کیپٹن(ر) احمد مبین شہید کی بجائے رانا صاحب کو احتجاجیوں سے بات چیت کرنی چاہیے تھی کیونکہ اس طرح کی بات چیت پولیس کی بجائے حکومتی ارکان ہی کیا کرتے ہیں اور رانا صاحب جس بلا کے مقرر ہیں وہ اپنی مدّلل گفتگو سے اگر احتجاج ختم کرنے پر آمادہ نہ بھی کر سکتے تو کم از کم انہیں متاثر ضرور کر سکتے تھے جبکہ حملہ آور انہیں پہچان لیتا اورشاید حملہ ہی نہ کرتا اور اگر کرتا بھی تو اسے اس کا افسوس ضرور ہوتا کہ آخر ان کے بعد نواز لیگ میں پیدا ہونے والا یہ زبردست خلا کس طرح پورا ہوتا‘ وغیرہ وغیرہ 
کالی بھیڑیں
پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما اور پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ حکومت کو اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کو نکال باہر کرنا چاہیے۔ یہ اسی ہمدردی کا تسلسل ہے جو پیپلز پارٹی میثاق جمہوریت کے حوالے سے حکومت کے ساتھ رکھتی ہے۔ تاہم اگر ساری کی ساری کالی بھیڑوں کو نکال بھی دیا جائے تو صرف بھیڈو بچے گا جو ادھرادھر لوگوں کو ڈُھڈ مارتا پھرے گا‘ اس لیے بہتر ہو گا کہ انہیں نکالنے کی بجائے انہیں وہائٹ واش کر دیا جائے کیونکہ اگر یار لوگ اتنے بڑے کالے دھن کو سفید کر سکتے ہیں تو ان بھیڑوں کوسفید کرنا کون سا مشکل کام ہے جس کے لیے اسحق ڈار صاحب کی خدمات حاصل کی جا سکتی ہیں جنہیں اس کا وسیع تجربہ بھی حاصل ہے جبکہ کائرہ صاحب کو بھی حکومت کو یہی مشورہ دینا چاہیے تھا ورنہ تو قربانی بھی کالے بکرے ہی کی دی جا سکتی ہے‘ کالی بھیڑ کی نہیں‘ اگرچہ اس بات کا امکان بھی موجود ہے کہ کالے بکروں کی قربانی دے دے کر انہوں نے یہ جنس ہی ختم کر دی ہو تاکہ پانامہ والی بلا ٹالی جا سکے۔
ملٹری فارمز اوکاڑہ کے مزارعین
انگریزی اخبار میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ملٹری فارمز اوکاڑہ کے مزارعین کا ملٹری فارمز کے متعلقہ لوگوں کے ساتھ تصفیہ ہونے ہی والا ہے۔ ڈپٹی کمشنر اوکاڑہ کے بیان کے مطابق دونوں فریقوں کے درمیان یہ طے پا گیا ہے کہ مزارعین سے یک مشت ٹھیکے کی بجائے حصہ بٹائی وصول کیا جایا کرے گا اور انہیں بے دخل نہیں کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ یہ اراضیات قبل از تقسیم ملٹری سے متعلقہ انگریزوں کی ملکیت تھیں جو تقسیم ملک کے بعد پاکستان ملٹری کے قبضہ اور تصرف میں آ گئیں جبکہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں ان سے یک مُشت ٹھیکہ وصول کیا جانے لگا اور بے دخلی کا خطرہ بھی ان کے سر پر منڈلانے لگا جس پر یہ تنازع زورپکڑ گیا اور مزارعین کو جانی نذرانے بھی دینا پڑے۔ یہ تصفیہ خوش آئند ہے لیکن چونکہ یہ قدیمی مزارعین ہیں اس لیے قانون کے مطابق ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کا حق ملکیت تسلیم کیا جائے تاکہ یہ معاملہ ہمیشہ کے لییطے ہو جائے!
آج کا مقطع
ظفر‘ جو سو کے اُٹھا ہوں تو کچھ نہیں موجود
زمیں کدھر گئی ہے‘ آسماں کہاں گیا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved