تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     17-02-2017

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ؟

زندہ رہنے کا ، نمو پانے کا کیا یہی قرینہ ہوتاہے ؟ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ؟
دہشت گردی اور اس کے ساتھ ہی مایوسی کی ایک بلند و بالا تاریک لہر۔ کامیابی سے ملک ڈھیلا پڑ گیا تھا۔ ساری توجہ پاناما لیکس پر تھی ۔ ادھر دشمن چوکس ہے ، اپنے عزائم کی تکمیل پر تلا ہوا۔ 
کپتان کہتا ہے ، قبائلی پٹی پختون خوا میں مدغم ہو تو مسئلہ حل ہوسکتا ہے ۔ مزید یہ کہ تھانیدار حمزہ شہباز کی مرضی سے متعین ہوں گے تو حال یہی رہے گا۔ فاٹا کو صوبے کا حصہ بنانے پر اتفاقِ رائے ابھر رہا ہے مگرعمران خاں نے معاملے کی بہت سادہ توجیہ کی ۔ اس ایک قدم سے امن بحال نہ ہو جائے گا؛البتہ دوسری بات ان کی بالکل درست ہے ۔ تھانیدار کیا، آئی جی بھی برخوردار قسم کے ہیں۔ نیو یارک یا جدہ میں ایک کانسٹیبل اس سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتاہے ۔ وزیرِ اعلیٰ کو پولیس افسروں کا انتخاب اگر سیاسی مصلحتوں پہ کرنا ہے تو شہریوں کی نہیں ، وہ سرکاری پارٹی کے مفادات کی حفاظت کریں گے ۔ 
مراد علی شاہ فرما تے ہیں کہ 2002ء سے 2011ء تک نئے پولیس آرڈر سے کیا حاصل ہو ا۔ جی نہیں ، ایک دن بھی نافذ نہیں رہا ۔ اس کی روح مسخ کر دی گئی تھی ۔ پولیس افسر بدستور چوہدری پرویز الٰہی ، شہباز شریف اور قائم علی شاہ مقرر کر تے رہے ۔ شہریوں کی نگران کمیٹیاں بنی ہی نہیں ۔ نو برس میں سندھ میں آٹھ آئی جی بدلے گئے ۔ نویں کا راستہ سندھ ہائیکورٹ نے روک دیا ۔ پنجاب میں ایک ایس ایچ او اوسطاً تین ماہ تک کام کرتا ہے ۔ سندھ میں اس سے بھی کم ۔ 
بدترین تماشا بلوچستان میں ہوا ۔ قبائلی سردار وں کی لیویز کو پولیس میں تبدیل کرنے کا عمل شروع ہوا تو صوبائی اسمبلی نے بساط لپیٹ دی ۔ لگ بھگ دو برس ہوتے ہیں ، ڈاکٹر عبد المالک سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ مرحلہ وار اس منصوبے پر عمل کیا جائے گا ۔ کتنا ہوا ؟ 
اخبارنویس پولیس اور افسر شاہی پر بے رحمی سے نکتہ چینی کرتے ہیں تو تعجب ہوتا ہے ۔ ان بیچاروں کی آزادی ء عمل کتنی ہے ۔ پائوں میں خوف کے پتھر اور سروں پر تبادلے کی تلوار ۔ عہدِ قدیم کے جاگیردار زنجیریں ڈال کر اپنے سپاہیوں کو رزم گاہوں میں اتارا کرتے ۔ عہدِ فاروقی میں ایرانیوں نے ایک بار پھر یہ تجربہ کیا۔ سپاہی وہ ہوتاہے ،جو آزاد ہو ، ریاستی قانون جس کی پشت پہ کھڑا ہو ۔اس کی حدود میں پوری آزادی سے بروئے کار آسکے ۔ ماڈل ٹائون لاہور کا سانحہ ہو چکا تو علامہ طاہر القادری نے قرض چکانے کا فیصلہ کیا۔ راولپنڈی میں پولیس والوں کو مار مار کر ادھ موا کر دیا ۔ ہتھیار ان سے لے لیے گئے تھے ۔ پولیس ایک طرف سفاک بہت اور بزدل بے حد ہو گئی ہے۔ دوسری طرف مجبور بھی اتنی ہی ۔ 
قریب آئو دریچوں سے جھانکتی کرنو
کہ ہم تو پا بہ رسن ہیں ، ابھر نہیں سکتے 
کس نے انہیں قید کیا ہے ؟ ایک کے بعد ایک حکومت نے۔ عصرِ حاضر کے شیر شاہ سوری نے بھی۔ انگلی کے اشارے پہ ترقی ، انگلی کے اشارے پر تعطل، حتیٰ کہ برطرفی ۔ ایک آدمی کی انگلی کے گرد پورا صوبہ کیسے گھوم سکتاہے؟ ۔۔۔ آدمی بھی وہ ، جو جذباتی طور پر مستحکم نہیں ۔
پختون خوا میں پولیس اب آزاد ہے مگر تابہ کے ؟ آئندہ الیکشن مولوی صاحب اور قائدِ اعظم ثانی جیت گئے تو کیا اختیار اس کا باقی رہے گا ؟ صوبائی اسمبلی سے نئے ایکٹ کی منظوری باقاعدہ لی گئی ۔ آئین مگر یہ کہتاہے کہ وفاقی قانون صوبائی پہ بالا ہوتا ہے ۔ ابھی تو پاناما ہے ، ابھی تو فرصت شاہی خاندان کو میسر نہیں ۔ معاملہ آخر کار سپریم کورٹ میں جائے گا ۔ اٹھارویں ترمیم کے خالق ،بیچارے رضا ربانی کی بلا جانے کہ نظم و نسق کی حرکیات کیا ہوتی ہیں ۔ مرکز اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کس قرینے سے ہونی چاہئیے ۔ جوش و جنوں میں فیڈریشن کو کنفیڈریشن سے کمتر کر ڈالا ۔ کچھ لوگ عمر بھر نوجوان ہی رہتے ہیں ۔ ربانی ان میں سے ایک ہیں ۔ تیسری بار وزیرِ اعظم بننے کی خواہش میں ہر بات نون لیگ نے مان لی ۔ مصلحتوں کی ایک دھند ہے ، یہاں سے وہاں تک ۔ کور چشموں کے لشکر ہیں ،موج در موج ۔ بلدیاتی ادارے بے روح اور بے اختیار ۔ ربانی سمیت کسی کا دل اس پر نہیں دکھتا ، لاچار ذہن !
چھ ماہ ہوتے ہیں ، ڈاکٹر شعیب سڈل کو مدعو کیا گیا کہ سینیٹ سے خطاب کریں ۔ ترکی اور جاپان پولیس کی مشاورت کرنے والے آدمی نے تجزیہ پیش کر دیا ۔ بحث ہوئی اور تجاویز مرتب کر لی گئیں۔ تب سے ایوانِ وزیرِ اعظم میں پڑی ہیں ۔ شہد لگا کر چاٹی جا سکتی ہیں ۔ 
اوّل تو ضربِ عضب بہت دیر اور بہت دور تک پھیل گئی ۔ مضمرات کا تخمینہ کبھی لگایا نہ گیا۔ پولیس، انتظامیہ اور سول انٹیلی جنس کو بہتر بنانے کا پوری طرح آغاز تک نہ ہو سکا۔ فوجی عدالتوں پہ اب بحث ہے ، چھ ماہ پہلے کیوں نہ ہو سکی ؟بچّے غریبوں کے مرتے ہیں ۔ آسودگان تو حرم سرائوں میں رہتے ہیں یا حصار میں ۔ کپتان اور میاں صاحب قاتل طالبان سے مذاکرات کے حامی تھے ۔ اعلان خواہ نہ کریں ، مولانا فضل الرحمن اور مولانا سمیع الحق اب بھی انہی کے طرف دار ہیں ۔ واعظوں کے واعظ مولانا طارق جمیل سے التماس ہے کہ دہشت گردوں کی اس طرح مذمت کریں جیسی کہ کرنی چاہیے۔ لوگ ان کی بات سنتے اور مانتے ہیں۔ 
مولانا صاحبان میں ایسے شقی القلب بھی ہیں کہ ان کا بھید کھل گیا تو ردعمل سے انہیں واسطہ پڑے گا۔ نیشنل ایکشن پلان کہاں ہے ؟ نیکٹا کہاں ہے ؟ سلمان تاثیر کے قتل کا فتویٰ جاری کرنے والا مبلغ کہاں ہے ؟ جنوں و جبر اور وحشت و درندگی کے مبلغ آزاد کیوں ہیں ؟کبھی کوئی قوم ایسے لوگوں کی متحمل نہیں ہو سکی ۔ ہم کیسے ہوں گے ؟ کوئی جوابی بیانیہ نہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل میں دہشت گردوں کے بعض ہمدرد براجمان ہیں ۔ مدارس میں جو انتہاپسند ہیں ، کوئی نظام ان کی نگرانی کا نہیں ۔ کرپشن ہر طرف ہے ۔ اس کے حامی و ہمنوا بھی ۔ حمزہ شہباز نے فرمایاتھا: کرپشن ہوتی رہتی ہے ، جمہوریت بچنی چاہیے ۔ عدالتی نظام فرسودہ ہے ۔ اس قدر کہ کراچی میں گرفتار دہشت گردوں میں سے ایک تہائی ضمانت پہ رہا ہو چکے ۔ شاخیں کاٹتے رہئیے ، نئی اگتی چلی آئیں گی ۔ پاک افغان سرحد بند کرنا ہوگی ۔ عدالت اور پولیس کو کارگر کرنا ہوگا ۔ نظریاتی یکسوئی درکار ہے اور پوری قوم کو فوج کی مدد کرناہوگی ۔
سانحہ کوئٹہ کے بعد عرض کیا تھا کہ دہشت گرد از سرِ نو منظم ہو رہے ہیں ۔ کراچی ، گوادر ، قبائلی پٹی اور پشاور میں المناک واقعات ہو سکتے ہیں ۔ حکمران کیا نا بینا ہیں؟ انہیں کیوں ادراک نہ ہو سکا ؟ ان کی ترجیح اربوں کھربوں کے منصوبے ہیں ۔ خیرہ کن ترقی کے خواب ماحول کو گل رنگ کیے رکھتے ہیں ۔ اگلی نسل کو اقتدار منتقل کرنے کی منصوبہ بندی ہے ۔ میڈیا کوپاناما سے شغف ہے ، بسنت یا ویلنٹائن سے۔ 
تیرگی ہے کہ امنڈتی ہی چلی آتی ہے / شب کی رگ رگ سے لہو پھوٹ رہا ہو جیسے / چل رہی ہے کچھ اس انداز سے نبضِ ہستی/ دونوں عالم کا نشہ ٹوٹ رہا ہو جیسے ۔ چہار جانب سے ترقی کا سیلاب ہے مگر وزیرِ اعظم اور وزرا کی تقاریر ہی میں ۔بعض عالمی اداروں کے اعداد و شمار میں ۔ وادیوں اور بازاروں میں خون بہتا ہے.....اور اس کی کوئی قیمت نہیں ۔ 
دستور کو رفو کرنے کا وقت آپہنچا ، آئین ہی کی حدود میں ۔ عمران خان پہ انتقام سوار ہے ۔ صوبے بے لگام ہیں ۔ میڈیا اشتہارات اور مقبولیت کی دوڑ میں دیوانہ ۔
زندہ رہنے کا ، نمو پانے کا کیا یہی قرینہ ہوا کرتاہے ؟ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved