تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     17-02-2017

محفوظ لاہور اور محفوظ پشاور

اشرف غنی افغانستان کے صدر بنے تو پاک فوج کے ایک جنرل ان سے ملنے کے لیے کابل گئے۔ اس ملاقات کا مقصد تھا کہ نئے افغان صدر کو اپنے تعاون کا یقین دلانے کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کے خلاف کارروائی پر آمادہ بھی کیا جائے جو افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گردی کرواتے ہیں۔ افغان صدر نے مہمان کا پُرتپاک استقبال کیا اور دہشت گردوں کے خلاف ہر ممکن تعاون کا یقین بھی دلایا۔ انہوں نے خفیہ معلومات کے تبادلے کی بات کہ تو اشرف غنی نے فوری طور پر متعلقہ افغان محکموں کو ہدایات جاری کیں کہ وہ پاک فوج کی مدد سے ان معلومات کے تبادلے کا کوئی مستقل نظام بنائیں۔ جنرل صاحب اس ملاقات کے نتائج سے مطمئن ہو کر رخصت ہونے لگے تو افغان صدر کا ایک معاون انہیں گاڑی تک چھوڑنے کے لیے ساتھ ہو لیا۔ اس کا تعلق ایک ایسے مہاجر خاندان سے تھا جو کئی سال تک پشاور میں مقیم رہا۔ اس نے پاکستانی اداروں سے ہی تعلیم حاصل کی تھی اور پاکستا ن کو اپنا دوسرا گھر سمجھتا تھا۔ پاکستانی جنرل کو خد احافظ کہتے ہوئے اس نے اردو میں کہا، ''جنرل صاحب، یہاں معاملات طے کرتے ہوئے آپ کو اس بات کا دھیان رکھنا چاہیے کہ افغانستان کے صدارتی محل اور پارلیمنٹ ہاؤس کے تمام اخراجات بھارتی امداد سے چلتے ہیں۔ بھارت کے پیسے سے چلنے والے ادارے آپ کی مدد کرنا بھی چاہیں تو ایک خاص حد تک ہی کر سکیں گے‘‘۔ افغان صدر کے بعد پاکستانی جنرل افغان خفیہ ایجنسی کے اعلیٰ عہدیداروں ملے، بہت کچھ طے ہوا، مشترکہ طور پر کام کرنے کے وعدے ہوئے مگر نتیجہ وہی نکلا جو صدارتی معاون نے پہلے ہی بتا دیا تھا۔ اس ملاقات کے بعد پاکستان کی فوجی و 
سیاسی قیادت نے افغان حکومت کے ہر چھوٹے بڑے عہدیدار سے بات کی، اسے اپنی مجبوری بتائی، مدد چاہی مگر نتیجہ ہمیشہ ایک ہی رہا۔ آرمی پبلک سکول کے اندوہناک سانحے سے لے کر لاہور میں ہونے والے خود کُش حملے تک پاکستان نے ہر بار کابل سے درخواست کی کہ ہماری مدد کی جائے مگر وہاں لفظوں میں معنی پیدا نہ ہو سکے۔ پاکستانی شہریت کے حامل دہشت گردوں کو افغان سرزمین پر کیمپ بنا کر دیے گئے، یہاں سے جانے والوں اور وہاں سے آنے والوں کے ذہن مسلسل پروپیگنڈے کے ذریعے مسموم کیے گئے اور پاکستان سے نفرت کو افغان خارجہ پالیسی کی بنیاد بنا دیا گیا۔ 
افغانستان کے اس رویّے کی ذمہ داری اگر ہم مکمل طور پر موجودہ صدر اشرف غنی، سابق صدر حامد کرزئی یا افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ پر ڈال دیں تو شاید یہ مناسب نہ ہو۔ ہمیں افغانستان میں بھارتی موجودگی، پاکستان کے خلاف مسلسل پروپیگنڈے اور افغانستان کی مالی مشکلات کو سمجھنا ہو گا۔ بھارت نے ویزا آسان کرکے‘ طلبہ کو اپنے تعلیمی اداروں میں داخلہ دے کے، ہسپتال بنا کے اور مالی امداد کرکے افغانستان کو اپنا ہمنوا بنایا جبکہ ہم نے افغان طلبہ کو اپنے مدارس سے نکال کر، پشاور اور کوئٹہ کے ہسپتالوں سے افغان مریضوں کو واپس بھیج کر اور بارڈر مینجمنٹ کے نام پر افغانوں کے لیے پاکستان میں داخلہ مشکل بنا کرافغان حکومت کے ساتھ ساتھ عام افغان سے بھی کو خود سے دور کر لیا۔ کابل میں بھارت کو پاکستان پر یہ سبقت بھی رہی کہ اسے افغان طالبان سے کچھ لینا دینا نہیں تھا اس لیے اس نے اپنی توجہ افغان حکومت پر مرکوز رکھی جبکہ ہمیں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان توازن کی مجبوری بھی درپیش رہی، جس کی وجہ سے ہماری افغان پالیسی ابہام کا شکار رہی۔ بھارت نے ہماری اس مجبوری سے پوری طرح فائدہ اٹھا کر افغان حکومت کو اپنی پراکسی کے طور ہمارے خلاف استعمال کیا اور ہمارے خلاف افغان سرزمین پر دہشت گردی کے مورچے بنا دیے۔
پاکستان کی سیاسی اور فوجی‘ دونوں قیادتیں اس بات پر متفق ہیں کہ افغانستان میں مکمل امن تک پاکستان سے دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں۔ پاکستانی سرحدوں کے اندر دہشت گردوں کی سرکوبی ہم ضربِ عضب کے ذریعے بڑی حد تک کامیابی سے کر چکے ہیں لیکن افغانستان میں بیٹھے دہشت گردوں سے نمٹنے میں ہم ناکام رہے ہیں۔ مکمل کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی اس جزوی ناکامی کے اسباب تلاش کرکے انہیں رفع کرنے کی کوشش کریں اور اس کے لیے ہمیں اپنی افغان پالیسی پر نظرِ 
ثانی کرکے اس میں نئے حقائق کو سامنے رکھ کر تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ ہمیں خود کو یاد دلانا ہے کہ افغانستان ہمارا بھارت جیسا پڑوسی نہیں ہے بلکہ بھائیوں جیسا ہمسایہ ہے۔ ان بھائیوں نے تین ہزار سال بغیر کسی سرحد کے ایک ہی ملک اور ایک ہی قوم کے طور پر گزارے ہیں۔ مذہب، رسم و رواج اور رہن سہن کی یکسانیت اتنی ہے کہ ایک سو چوبیس سال پہلے کھینچی گئی ڈیورنڈ لائن بھی ان رشتوں کو کمزور نہیں کر سکی۔ حق تو یہ ہے کہ اگر سر مورٹائم ڈیورنڈ برطانوی مفادات کے تحفظ کے لیے امیر امان اللہ خان کو مجبور کرکے شمال سے جنوب تک یہ دو ہزار چار سو تیس کلومیٹر لمبی لکیر نہ کھینچتا تو پاکستان دریائے آمو تک پھیل جاتا یا افغانستان کی سرحد واہگہ تک آ جاتی۔ ہمارے بس میں یہ تو نہیں ہے کہ مورٹائم ڈیورنڈ اور امیر امان اللہ خان کی غلطیاں درست کر سکیں، مگر یہ تو کر سکتے ہیں کہ ان غلطیوں سے سیکھ کر مزید غلطیوں سے بچ سکیں!
پاکستان کی افغان پالیسی میں بنیادی غلطی دو ہزار چار میں جنرل پرویز مشرف سے سرزد ہوئی‘ جب وہ کابل میں حکومت سازی کے تمام معاملات امریکا پر چھوڑ کر خود لاتعلق ہوکر بیٹھ گئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکی طاقت کے سہارے پر افغان حکومت کا جو ڈھانچہ بنا اس میں ہمارا اثرورسوخ صفر ہو گیا۔ جب ہم اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے موجود نہ رہے تو امریکیوں نے افغان سیاست کو سمجھے بغیر ہر اس شخص کو نوازا جو انگریزی میں ہماری خفیہ ایجینسی اور طالبان کے خلاف تقریر کر سکتا تھا۔ پاکستان کی لاتعلقی نے وہاں بھارت کے لیے موقع پیدا کر دیا اور اس نے طالبان مخالف قوتوں کی سرپرستی کرکے ہمارے خلاف محاذ کھڑا کر دیا۔ ہم نے کچھ سوچے سمجھے بغیر افغانستان کو بھارت کے ساتھ نتھی کر دیا‘ یوں الجھنیں بڑھتی چلی گئیں۔ صدر آصف علی زرداری نے پہلی بار صورتحال کا درست اندازہ لگا کر حامد کرزئی کے ذریعے معاملات ٹھیک کرنے کی کوشش کی مگر بیچ میں اسامہ بن لادن کا واقعہ ہوا اور سب کچھ دھرے کا دھرا رہ گیا۔ 
پاکستان میں طویل عرصے کے بعد ایک بار پھر موقع پیدا ہوا ہے کہ ہم کابل کی افغان حکومت اور طالبان کے درمیان توازن پیدا کرکے کابل میں اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے پہلا قدم افغان باشندوں کی پاکستان آمدورفت آسان بنا کر اٹھایا جا سکتا ہے۔ ہمیں سمجھنا ہو گا کہ پاک افغان سرحد کا معاملہ پاک بھارت سرحد جیسا نہیں ہے بلکہ اس کے دونوں طرف وہ لوگ بستے ہیں جن کی روزمرّہ زندگی ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ بارڈر مینجمنٹ کے نام پر ان لوگوں کے لیے ویزے کی پابندی، معاف کیجیے گا، انسانی ہمدردی کے بھی خلاف ہے۔ پاکستان اگر یکطرفہ طور پر افغان باشندوں کو مناسب رجسٹریشن کے بعد صرف پاسپورٹ کی شرط لگا دے اور سرحد پر داخلے کی مہر کو ہی ویزا قرار دے دے تو افغانستان میں پاکستان کے لیے اچھے جذبات کی جو لہر پیدا ہو گی‘ وہ کابل کی حکومت کو ہماری بات ماننے پر مجبور کر دے گی۔جب یہ معاملہ حل ہو جائے تو ہمیں چاہیے کہ اپنے تعلیمی اداروں (بشمول مدارس) اور ہسپتالوں کے دروازے بھی افغانوں پر کھول دیں۔ افغان‘ جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بھارت کے قریب ہو رہے ہیں، پاکستان کے قریب آ جائیں گے اور بھارت بھی انہیں اپنے مفاد کے لیے استعمال نہیں کر سکے گا۔ ہمیں اگر دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کرنا ہے تو ہمیں قندوز سے قندھار تک اور جلال آباد سے ہرات تک ہر افغان کو اپنا سمجھنا ہو گا۔ کابل کو بھی دوست سمجھیں، قندھار والوں کو بھی قریب رکھیں۔ پالیسی کا یہی توازن لاہور اور پشاور کو محفوظ بنا سکتا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved