27 جنوری 2011ء کو لاہور میں ریمنڈ ڈیوس نے دو پاکستانی نوجوانوں کو گولی مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد پاکستان کے گھر گھر میں اس کے نام کا چرچا شروع ہو گیا۔ جس دن وہ واقعہ رونما ہوا اور اس کے بعد کے کئی ہفتے بھی ہم سب کو اچھی طرح سے یاد ہیں۔ ہر روز لوگ نت نئی کہانیاں بُن رہے تھے، اپنی اپنی سوچ کے مطابق حقائق پیش کر رہے تھے۔ بعض لوگ سفید جھوٹ بولنے میں مگن تھے اور خوف کے مارے ثبوتوں کو ٹھکانے لگا رہے تھے۔ سب سے بُرے مناظر ٹی وی چینلوں پر دکھائی دیتے تھے‘ جہاں ایک ٹولہ ہر رات ریمنڈ ڈیوس کے حوالے سے قسماقسم کے تجزیے بگھار رہا تھا۔ مشکوک سفارتی حیثیت کا حامل امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس بنیادی طور پر ایک اجرتی قاتل تھا‘ جس کی خدمات سی آئی اے نے بطورِ جاسوس حاصل کی تھیں۔ وہ بدنامِ زمانہ سکیورٹی کمپنی بلیک واٹر کا ایک ملازم تھا۔ کہا جاتا ہے کہ بلیک واٹر کے اہلکار بڑی آزادی سے پاکستان بھر میں گھومتے رہتے تھے۔ آنکھوں پہ اس ''لاہور گیٹ‘‘ کی پٹی باندھے میڈیا والے بھی بس اندھیرے میں تیر چلا رہے تھے اور عوامی ہیجان بڑھتا جا رہا تھا۔ ہر زبان پہ یہی سوال تھا کہ آیا امریکی دبائو کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے ریمنڈ ڈیوس کو قانون و انصاف کی گرفت سے بچ نکلنے دیا جائے گا؟ پنجاب کے ایک وزیر کا چہرہ بھی ہر روز ٹی وی سکرینوں پہ نمودار ہوتا تھا۔ موصوف ریمنڈ ڈیوس کو چھوڑ دینے کے خلاف اور اس کے حق میں بھی ایسے ٹیڑھے دلائل پیش کرتے کہ لوگ مزید الجھ جاتے۔ دو ملکوں کے درمیان چوہے بلی کا یہ کھیل
کئی ہفتوں تک مسلسل جاری رہا۔ لوگ بڑی بے چینی سے اس ہیجان
خیز اور پُراسرار ڈرامے کے اختتام کے منتظر تھے۔ ہمیں یاد ہے کہ اسلام آباد کی ایک مخیر خاتون‘ جو شہر کی پارٹیوں میں اکثر نظر آتی ہیں، اس واقعے کے سفارتی سطح پر منفی نتائج ظاہر ہونے کے امکانات پہ خاصی مشوّش تھیں۔ ایک شام ہمیں بھی انہوں نے باقاعدہ ایک طرف بٹھا کر یہ پوچھا تھا کہ بتائیے ریمنڈ ڈیوس کے ساتھ کیا ہو گا؟ ظاہر ہے کہ ہم سب کی طرح ان خاتون پہ بھی قتل، سیاست، عالمی جاسوسی نظام اور سفارتی چالوںسے بھرپور اس مسلسل چلنے والے ڈرامے کا بڑا اثر ہو رہا تھا۔ پھر ایک شام ہم سب نے دیکھا کہ اچانک ہی لاہور میں جان کیری کی آمد ہوئی۔ موصوف اس زمانے میں امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے امورِ خارجہ کے سربراہ ہوا کرتے تھے۔ ان کی تشریف آوری کا مقصد تھا ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے لئے کوششیں کرنا۔ انہوں نے ایئرپورٹ پر ہی پریس کانفرنس کی تھی۔ انہوں نے کیا معاملہ کیا؟ اس کی تفصیلات کیا تھیں؟ اس بارے میں کچھ بھی منظرِ عام پہ نہیں آ سکا۔ ایک بلاگر نے لکھا ''اس بارے میں کئی ایک واضح اشارے ملتے ہیں کہ ریمنڈ ڈیوس کے معاملے میں بہتیری ایسی باتیں ہیں جو پاکستانی سامنے نہیں لا رہے۔ یہ معاملہ صرف قتل اور سفارتی استثنیٰ کا نہیں ہے... ثبوت موجود ہے کہ ریمنڈ ڈیوس کے دہشت گردوں کے ساتھ رابطے تھے اور پاکستان میں ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں میں بھی وہ ملوث رہا تھا۔ حاصل شدہ ثبوت اور برآمد شدہ ہتھیاروں اور آلات کی تصاویر بھی جاری کی جا چکی ہیں لیکن مزید تفصیلات نہیں بتائی جا رہیں‘‘۔ بلیک واٹر کے بانی اور مالک کا نام ایرک پرنس ہے۔ The Intercept نامی آن لائن جریدے کے مدیر اور بلیک واٹر پر ایک معروف کتاب کے مصنف جیرمی سکاہل‘ ایرک پرنس کو ایک صلیبی جنگجو بتاتے ہیں جس نے صفحۂ ہستی سے
مسلمانوں اور اسلام کے نام کو مٹا دینے کو اپنا نصب العین ٹھہرا رکھا ہے۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ ایرک پرنس کی بلیک واٹر کمپنی افغانستان اور پاکستان میں امریکی فوج اور امریکی انٹیلی جنس اداروں کے ہمراہ کام کرتی رہی ہے اور اس خطے میں اس کے اہلکاروں کی تعداد اسی ہزار کے قریب تھی‘ جو یہاں امریکی فوجیوں اور سی آئی اے کے اہلکاروں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔ جیرمی سکاہل کہتے ہیں کہ اس کمپنی کی بدولت جنگ کی نجکاری ایک ایسے درجے پہ پہنچ چکی ہے جس کی پہلے کہیں بھی مثال نہیں ملتی۔ اسی دوران عراق میں بھی بلیک واٹر کے اہلکار بیک وقت سرگرمِ عمل تھے۔ کہتے ہیں کہ وہاں بھی ایرک پرنس نے عراقی زندگی کی تباہی کو نہ صرف تحریک دی بلکہ ایسی سرگرمیوں پہ متعلقہ لوگوں کو انعامات سے بھی نوازا! قارئین شاید سوچ رہے ہوں کہ ہم آخر کیوں اب ایرک پرنس اور اس کی بلیک واٹر کمپنی کا ذکر کر رہے ہیں؟ بات دراصل یہ ہے کہ یہی ارب پتی ایرک پرنس آج کل خارجہ امور میں نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو مشورے دے رہا ہے۔ایرک پرنس کی بلیک واٹر کمپنی میں یہ بھی کام کرتا تھا۔ جیرمی سکاہل اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ شخص عیسائیت کی برتری کا قائل انتہا پسند عیسائی ہے۔ اس کی سوچ مذہبی طور پر جنگجویانہ ہے۔ جیرمی سکاہل اسے عیسائیت کی برتری کا قائل انتہا پسند عیسائی ٹھہراتے ہیں کیونکہ انہوں نے کئی برس بلیک واٹر پہ تحقیق میں گزارے ہیں۔ واشنگٹن میں شمز کو بالکل ایک مسخرہ سمجھا جاتا ہے اور جدید دنیا سے مکمل طور پر غیر ہم آہنگ پاگلوں جیسی اس کی سوچ کی بدولت وہ خود ایک مذاق بن چکا ہے‘ اس کے باوجود امریکی
حکومت کی جانب سے اسے کام بھی ملتا ہے۔ ایرک پرنس کا معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا۔ اس کی ارب پتی بہن بیٹسی ڈیووس کو ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی کابینہ میں وزیر تعلیم نامزد کیا تھا۔ امریکی عوام کی جانب سے اس پہ احتجاج بھی ہوا، اور امریکی کانگرس میں چوبیس گھنٹوں تک مسلسل اس پہ بحث ہوتی رہی۔ ڈیموکریٹ اراکین کی پوری کوشش تھی کہ اس کی تقرری کا راستہ روکا جائے اور بہت ہی کم فرق سے اس کی تقرری کو منظوری ملی؛ تاہم واشنگٹن میںکسی سرکاری سکول کے اپنے پہلے ہی دورے میں بیٹسی ڈیووس کو شیم شیم کے نعرے سننا پڑے۔ سکول کے طلبہ کے والدین نے سکول میں اس کی آمد کا راستہ بند کر دیا تھا۔ اسے باہر نکلنے کے لئے عقبی دروازہ استعمال کرنا پڑا تھا اور جب وہ باہر نکل آئی تو ایک بار پھر اسے اسی ہجوم سے بُرا بھلا سننا پڑا۔ اسے محافظوں کی حفاظت میں گاڑی تک پہنچایا گیا۔ کہتے ہیں کہ ایرک پرنس بڑی خاموشی سے ٹرمپ کی ٹرانزیشن ٹیم کو مشورے دیتا رہا ہے۔ کابینہ کی نامزدگیاں بھی اس کے مشورے سے ہوئی ہیں۔ ظاہر ہے کہ اپنی بہن کو وزیر تعلیم کے طور پر بھی اسی نے نامزد کرایا ہے۔ جہاں تک اس '' لاہور گیٹ‘‘ کا تعلق ہے تو کوئی آج تک یہ جان نہیں پایا کہ پاکستان سے نکل بھاگنا ریمنڈ ڈیوس کے لئے کیسے ممکن ہو گیا تھا؟ ہمیں صرف اتنا پتہ ہے کہ اس واقعے کے تین دن بعد زرداری صاحب کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی مستعفی ہو گئے تھے۔ صحافیوں کو انہوں نے اپنے استعفے کی وجہ یہ بتائی تھی کہ ان پہ ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی استثنیٰ دینے کے لئے دبائو ڈالا جا رہا تھا۔ اس پہ اپنی برانگیختگی کا سر عام اظہار کرنے وہ ٹی وی سکرین پہ آتے رہے۔ 16 مارچ 2011ء کو ریمنڈ ڈیوس پاکستانی عدالت سے بری ہوا۔ کہتے ہیں کہ امریکی حکومت نے 2.34ملین ڈالر کی رقم بطورِ خون بہا ادا کرکے اس کی رہائی حاصل کی تھی۔