تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     18-02-2017

بارِ دگر

پولیس، عدلیہ اور سول انٹیلی جنس کی تشکیلِ نو اور تحرّک کے بغیر دہشت گردی کا عفریت مر نہیں سکتا۔ عسکری قیادت کو مودبانہ یہ نکتہ وزیرِ اعظم کی خدمت میں عرض کرنا چاہیے‘ کرتے رہنا چاہیے۔ شاید اپنی قوم پر انہیں ترس آئے۔ 
سیہون شریف میں کتنے پولیس والے ڈیوٹی پر تھے؟ عام حالات میں بھی کم از کم دس کانسٹیبل موجود رہنے چاہییں کہ یہ مقبول ترین درگاہ ہے۔ اکثر غائب رہتے ہیں۔ الزام ہے کہ ایک ڈی پی اوچار پانچ برس سے متعین ہے۔ معززین بارہا اس سے درخواست کر چکے کہ اپنی ذمہ داریوں کا وہ ادراک کرے مگر کوئی پروا اسے نہیں۔ کل شب ان چیزوں کا علم ہوا تو ایک متعلق سینئر پولیس افسر سے رابطہ کیا۔ اپنی دیانت اور احساسِ ذمہ داری کے لیے جو معروف ہیں۔ 
حضرت عثمان مروندی ؒ کے ایک شعر کا کل سے سوشل میڈیا پہ چرچا ہے، عرفِ عام میں جنہیں لال شہباز قلندر کہا جاتا ہے۔ 
تو آں قاتل کہ از بہرِ تماشا خونِ من ریزی 
من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خوں خوار می رقصم 
تو وہ قاتل ہے کہ فقط تماشا رچانے کو میرا خون بہاتا ہے‘ میں وہ بسمل ہوں کہ خنجرِ خوں خوار تلے رقص کرتا ہوں۔ گیارہویں صدی میں دریائے سندھ کے کناروں پر تبلیغ میں وہ مصروف رہا کرتے۔ تلاشِ حق اور غور و فکر میں صوفیوں کی اکثریت قریہ قریہ گھومتی رہتی ہے۔ وہ انہی میں ایک تھے۔ زمانہ گزرا، ان کی یہ غزل سنی تھی: 
اگرچہ قطرہء شبنم نہ پوید برسرِ خارے
منم آں قطرہء شبنم بہ نوکِ خار می رقصم 
منم عثمانِ مروندی کہ یارے شیخ منصورم
ملامت می کند خلقے و من بردار می رقصم 
قطرہء شبنم اگرچہ نوکِ خار پہ ٹھہر نہیں سکتا‘ مگر میں وہ قطرہ ہوں کہ نوکِ خار پہ رقص کرتا ہوں۔ میں عثمانِ مروندی ہوں، حسین بن منصور حلاج کا ندیم‘ خلقِ خدا کتنی ہی ملامت کرے، میں محوِ رقص رہتا ہوں۔ 
معلوم ہے کہ کچھ لوگ صوفیا کے مزاروں سے نفرت کرتے ہیں۔ عبداللہ شاہ غازی ؒ اور داتا گنج بخش، شیخِ ہجویر علی بن عثمان ہجویری ؒ کے مقابر سمیت کئی ایک پر دھماکے ہو چکے تو سیہون شریف کے عرس پر خصوصی انتظامات کیوں نہ کیے گئے؟ 
لاہور میں غارت گری کا اندیشہ پہلے سے تھا۔ پنجاب حکومت کو مطلع کر دیا گیا تھا۔ بعض سرکاری عمارتوں کی حفاظت کا بندوبست کیا گیا۔ جہاں سب سے ضروری تھا، اسی کو نظر انداز کیا گیا۔ اس معاملے کی کچھ نئی جہات سامنے آئی ہیں۔ 
جعلی دوائوں پہ لعنت اور بیچنے والوں پر بھی۔ کیا یہ پوچھنے کی جسارت کی جا سکتی ہے کہ ٹھیک اسی روز اسی چوک میں، دوا فروشوں کے جلوس کی اجازت کیوں دی گئی۔ احتیاطی تدابیر کیوں نہ برتی گئیں۔ ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ سادہ لباس میں خفیہ پولیس کے سینکڑوں افراد کو اس جلوس میں شامل ہونا چاہیے تھا۔ سینکڑوں نہ سہی، چلیے بیس پچیس ہی سہی۔ ایک تربیت یافتہ انٹلی جنس افسر گھنٹہ بھر میں متعدد افراد پہ نگاہ ڈال سکتا ہے۔ وزیرِ اعلیٰ آئی جی پنجاب کو طلب کریں اور ان سے پوچھیں کہ سپیشل برانچ اور سی آئی ڈی کے کتنے لوگ جلوس پہ مامور کیے گئے۔ انٹیلی جنس بیورو سے کیا کسی نے رابطہ کیا تھا؟ ان کے کتنے اہل کار موجود تھے۔ فرصت پائیں تو یہ بھی پوچھ لیں کہ شوکت بھٹی کے ایما پر نون لیگ اور تجارتی تنظیموں سمیت تمام سیاسی پارٹیوں کا احتجاج مسترد کرکے، جو بہترین افسر ہٹایا گیا‘ اس سے حاصل کیا ہوا؟
پنجاب حکومت نے ڈپٹی کمشنر کا ادارہ بحال کر دیا ہے۔ جواز یہ کہ امن و امان بحال کرنے میں مدد ملے گی۔ مظاہرین سے مذاکرات پولیس افسروں کو کیوں سونپے گئے؟ سیاستدان کہاں تھے، ڈپٹی کمشنر صاحب کہاں تشریف رکھتے تھے؟ آخر کو رانا ثناء اللہ نے ان سے بات کی۔ پہلے کیوں نہ کر سکے؟
اطلاع یہ ہے کہ چین اور ترکی کی کچھ کمپنیوں کو بڑے پیمانے پر دوا فروشی کے کاروبار کی اجازت دی جانے والی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جناح ہسپتال کے سامنے ایک سٹور آغاز بھی کر چکا۔ ایک ذمہ دار ذریعے کا کہنا ہے کہ شاہی خاندان کے کچھ لوگ اس میں ملوث ہیں۔ میڈیا تحقیقات کرے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ تمام تر توجہ تو جعلی دوائوں پر چاہیے تھی۔ ملک کے حکمران مگر جب تاجر ہو جائیں‘ بے قصور جہاں سزا پائیں اور طاقتور مجرم کھل کھیلتے رہیں؟ باڑ ہی اگر کھیت کو کھانے لگے؟ ہومیو پیتھک اور یونانی دوا ساز کمپنیوں کو بدترین کریک ڈائون کا سامنا ہے۔ ان کی تعداد گھٹ رہی ہے۔ 2012ء میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ناقص دوا سے دل کے 100 مریض جاں بحق ہو گئے تھے۔ اس وقت کے وزیرِ صحت میاں محمد شہباز شریف کے خلاف کیا کارروائی ہوئی تھی؟ 
سال بھر سے لکھ رہا ہوں کہ افغان سرحد بند کرنا ہو گی۔ حیرت ہے کہ فیصلہ کرنے والوں کو بروقت کیوں نہیں سوجھتی؟ ایسی خوں ریز جنگ کے ہنگام آسودہ آپ کیسے ہو سکتے ہیں۔ بھارت میں اعلان یہ تھا کہ اڑی کا بدلہ لیا جائے گا۔ کشمیر کی تحریک تھم نہیں سکتی کہ ایک کروڑ آدمی غلامی سے نجات چاہتے ہیں۔ ان دھمکیوں کے بعد وزیرِ اعظم نے بھارتی فلموں کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا۔ عاصمہ جہانگیر نے اس پر گرہ لگائی کہ ٹی وی چینلوں کو بھی اذن عطا ہو۔ بھارتی کلچر کو عام کرنے اور بھارتی حکومت کے راستے کشادہ کرنے کی بے تابی کیوں ہے؟ یہ وہی عاصمہ جہانگیر ہیں ، ایک انگریز جج سے جس نے کہا تھا کہ ہمارا ہدف مذہب کو ملک بدر کرنا ہے۔ اس تحریر کی ایک نقل عمران خان کے پاس محفوظ ہے۔ 
افغانستان میں امریکی براجمان ہیں اور بھارت کو مقامی حلیف مل گئے ہیں۔ سرحد پار سے آدمی بھیجنے کی انہیں ضرورت نہیں۔ ملک میں مقامات ہیں اور مدارس ہیں، جہاں ذہنی غسل کا عمل جاری رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ انگریز استعمار کی یہاں جڑیں نہ تھیں مگر فسادیوں کو انہوں نے نمٹا دیا تھا۔ ہم کیوں نہیں نمٹا سکتے؟ انگریز نے بعض کو خریدا، بعض کو مخبر بنایا، کچھ کو پامال کیا۔ ہمارا تو یہ گھر ہے۔ کیا امن ہمیں اتنا عزیز بھی نہیں، جتنا غیر ملکی حکمرانوں کو اپنے مفاد کی خاطر تھا؟ افغان مہاجر پورے ملک میں پھیلے ہیں۔ این ڈی ایس انہی میں سے قاتل چنتی ہے۔ ان مہاجرین سے محمود اچکزئی، اسفند یار ولی خاں، سینیٹر سراج الحق اور مولانا فضل الرحمٰن کو ایک سی ہمدردی ہے۔ چلیے چندے اجازت دے دی، جنگی بنیادوں پر ان کی رجسٹریشن کا آغاز کیوں نہیں کیا جاتا۔ دہشت گردوں سے نرمی کیسے برتی جا سکتی ہے؟ علمائِ کرام اور واعظینِ محترم، بالخصوص مولانا طارق جمیل سے بارِ دگر درخواست ہے کہ درندوں کے عزائم بے نقاب کریں۔ مقدس ہستیوں کے واقعات کا اعادہ بجا مگر آج کا مسئلہ کیا ہے؟ فتنہ گروں اور قاتلوں کے بارے میں قرآنِ کریم کیا کہتا ہے؟ دہشت گرد پختون خوا میں متحدہ مجلسِ عمل کے اقتدار میں پھلے پھولے۔ کیا کبھی شرمندگی کا احساس انہیں ہوتا ہے؟ کیا کبھی تلافی کا سوچتے ہیں؟ ؎
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے ؟
منصف ہو تو حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے؟
سیہون شریف میں مخبر اور پولیس والے اگر موجود ہوتے تو سانحہ اتنا بڑا ہرگز نہ ہوتا۔ کیوں نہ تھے؟ اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ 
دہشت گردی کا خاتمہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی ترجیح ہی نہیں‘ وگرنہ فقط فوج پر وہ اسے چھوڑ نہ دیتے۔ فوجی عدالتوں کو موخر نہ کیا جاتا ۔ آدمی اپنی ترجیحات پہ بروئے کار آتا ہے۔ ان کی ترجیح کیا ہے؟ پولیس، عدلیہ اور سول انٹیلی جنس کی تشکیلِ نو اور تحرّک کے بغیر دہشت گردی کا عفریت مر نہیں سکتا۔ عسکری قیادت کو مودبانہ یہ نکتہ وزیرِ اعظم کی خدمت میں عرض کرنا چاہیے۔ کرتے رہنا چاہیے۔ شاید اپنی قوم پر انہیں ترس آئے۔ 
پسِِ تحریر: سندھ پولیس کے اعلیٰ ترین ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ متعلقہ ڈی پی او طارق ولایت مسلسل اور پیہم غفلت کا مرتب ہوا۔ رشوت ستانی کے اس پر سنگین الزامات ہیں۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ سندھ کے شاہی خاندان کی سرپرستی اسے حاصل ہے۔ اس قماش کے کئی اور پولیس افسر بھی ہیں۔ دیہی سندھ کا امن خطرے میں ہے۔ طارق ولایت کے خلاف مزید تفتیش جاری ہے‘ مگر یہ کہنا مشکل ہے کہ اس کے خلاف کارروائی ہو گی یا شاہی مداخلت سے وہ بچا لیا جائے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved