تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     18-02-2017

کینیڈا دیاں موجاں ای موجاں

ایک ہسپانوی بچہ صدرکے خلاف مظاہرہ کر رہا ہے۔یہ دو تین سال کا بچہ امریکہ میں پیدا ہوا‘ اور یہاں رہنے کا حقدار ہے مگر اس کی ماں نہیں۔ وہ غیر قانونی ہے اور اس طرح اخراج کی مستوجب‘ مگر اس حالت میں جبکہ اس کا شوہر امریکی شہری ہے۔ اس کے پاس نوکری ہے اور رہنے کو گھر۔ اس کا آبائی وطن میکسیکو‘ ہنڈوراز‘ ایل سلواڈور‘ پورٹو ریکو یا جنوبی امریکہ کا کوئی بھی ملک ہو سکتا ہے ‘جہاں بدمعاش مبینہ طور پر ہاتھ میں ڈنڈے لئے گلی کوچوں میں گھومتے ہیں اور نو عمر لڑکو ں اور لڑکیوں کو پکڑ کر گناہ کی وادی میں دھکیل دیتے ہیں۔ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز دہشت گردی کی روک تھام کے لئے مسلمانوں کے داخلے اور جرائم کے انسداد کے لئے جنوبی ہمسائے کی سرحد پر ایک ہزار لمبی فصیل بنا نے کا منصوبہ پیش کیا تھا‘ جو عدالتوں اور عوام میں نامقبول ہے۔ وزیر محنت کے منصب سے ٹرمپ کے نامزد کردہ شخص کی علیحدگی سے کانگرس میں ری پبلکن اکثریت کے موڈ کا پتہ ملتا ہے۔ اس سے پہلے قومی سلامتی کے عہدے سے ان کے مقرر کردہ آدمی کے استعفے سے وائٹ ہاؤس‘ ایک بحرانی کیفیت میں مبتلا ہو گیا تھا۔
جب سے ٹرمپ صدر بنے ہیں اور انہوں نے حکم ناموں پر دست خط شروع کئے ہیں تارکین وطن میں یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ امی گریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (ICE) کے نسل پرست کارندے زیادہ سرگرم عمل ہو گئے ہیں اور لوگ خوف اور بھگدڑ کا شکار ہیں۔ وفاقی حکام کہتے ہیں‘ ان کی پالیسی میں ابھی کوئی بنیادی تبدیلی نہیں ہوئی اور یہ کہ وہ جانچ پڑتال کی چوکیوں پر لوگوں کو روکنے اور ان کی تلاشی لینے یا ایسی بستیوں پر‘ جن میں کثیر تعداد میں غیر قانونی گھس بیٹھیے رہتے ہیں ‘چھاپے مارنے کی تر دید کرتے ہیں‘ مگر جب محکمے نے شہری علاقوں میں قانون کے نفاذ کے متعدداقدامات کئے اور نیو یارک‘ شکاگو‘ لاس اینجلس‘ اٹلانٹا اور کئی دوسرے شہروں میں سینکڑوں افراد کو حراست میں لیا تو یہ تاثر عام ہوا کہ صدر ٹرمپ قانون کے نفاذ کے معا ملے میں سنجیدہ ہیں۔
جب سے صدر نے مسلمانوں اور ہسپانوی لوگوں کی جلاوطنی کے احکام جاری کئے ہیں زیادہ فائدہ کینیڈا کے شہر وینکوور کو ہوا ہے جو امریکی مغربی شہر سان فرانسسکو سے دو گھنٹے کی پرواز پر واقع ہے۔ وہ ریاست کیلی فورنیا کا دوسرا بڑا شہر ہونے کے علاوہ سلی کون ویلی کا صدر مقام بھی ہے‘ جہاں بیشتر امریکی ہائی ٹیک انڈسٹری‘ کمپیوٹر‘ ٹیلی وژن‘ٹیلی فون اور متعلقہ ساز و سامان بنتا ہے‘ اور جہاں اکثر کارکن ہندوستان سے آئے ہیں اور کام کے ویزے پر ملازم ہیں۔ وہ دھڑا دھڑ وینکوور منتقل ہو رہے ہیں جہاں امریکی کمپنیوں کے ذیلی دفاتر پہلے سے موجود ہیں۔ ٹائم زون اور کلچر ایک ہیں۔ انہیں اندیشہ ہے کہ کام کے خاص ویزے کہیں غائب نہ ہو جائیں۔ اس کے ساتھ ہی چھ ہزار ڈالر ماہوار تنخواہ جاتی رہے گی جو ایک نئی کمپنی ملازمین کو پیش کرتی ہے۔ کچھ ہندوستانی ورکر جعلی ڈگریاں اور اسناد پیش کرنے پر پکڑے بھی گئے ہیں۔
باصلاحیت ہندوستانی کارکن وینکوور جانے میں دشواری محسوس کریں گے۔ کینیڈا کا شہر سان فرانسسکو کی نسبت مہنگا ہے مگر شہر میں جنوبی ایشیا ‘ بالخصوص ہندوستانی بکثرت ہیں۔ ہائی ٹیک کارکن ان میں مل جل کر رہیں گے اور ویزے کی مدت ختم ہونے پر واپس چلے جائیں گے یا یورپ کا رخ کریں گے‘ جہاں لزبن میں ان کے ویزے کا خا ص اہتمام کیا گیا ہے۔ انگریزوں سے بھی پہلے پْرتگالی سیاح واس کوڈے گاما‘ ہندوستان گیا تھا‘ اور سولہویں صدی میں وہاں پرتگال کے نام پر ایک کالونی قائم کی تھی جو گوا کہلاتی ہے۔ ہندوستان کی سب سے چھوٹی مگر سب سے دولت مند ریاست ہے۔ گو‘ دارالحکومت پاناجی ہے مگر سب سے بڑا شہر واسکوڈے گاما ہے جس میں ہندوستانی کارکنوں کے کاغذات کی جانچ پڑتال کے لئے ایک خاص دفتر بنایا گیا ہے۔
سافٹ ویئر کے عالمی مقابلوں میں پاکستانی بچوں کی اول پوزیشن کی خبریں آئے دن سنائی دیتی ہیں مگر ان میں بچے کی کمسنی پر زیادہ اور اس کے ارادوں پر کم زور ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں مستقبل کی ٹیکنالوجی کے بارے میں آگہی عام نہیں‘ جبکہ ہندوستانی اس بارے میں سر گرم عمل ہیں اور ممبئی‘ بنگلور اور واسکوڈے گاما وغیرہ میں کام کرنے والے کال سنٹرز اس امر کا ایک ثبوت ہیں‘ جہاں سے ہندوستانی لڑکے اور لڑکیاں ‘ امریکی لہجے میں کریڈٹ کارڈ کے امریکی موکلوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہیں اور بعض اوقات ''پکڑے‘‘ جاتے ہیں کیونکہ کارڈ کے گاہکوں میں جنوبی ایشیا کے تارکین وطن کی ایک تعداد بھی موجود ہے۔
کینیڈا اور امریکہ کی خارجہ پالیسی میں بڑا فرق ہے جو پچھلے ہفتے وائٹ ہاؤس میں دونوں ملکوں کی حکومتوں کے سربراہوں کی پہلی میٹنگ کے بعد نمایاں ہوا۔ وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ ہم تارکین وطن کو خوش آمدید کہنے کی پالیسی جاری رکھیں گے۔ جوہرِ قابل کی متلاشی سلی کون ویلی‘ جہاں ایک تہائی کارکن باہر پیدا ہوئے تھے ( زیادہ تر انڈین‘ کم و بیش ایک لاکھ) مگر بیشتر مستقل رہائش یا شہریت کا خواب نہیں دیکھتے ‘اپنی کامیابی کی آنی جانی حالت سے با خبر ہیں۔ وہ بہتر مستقبل کے لئے سرحد پار جانا پسند کریں گے۔ انہی دنوں پابندی کی مخالف تقریباً ایک سو ٹیکنالوجی کمپنیوں نے‘ جن میں گوگل‘ فیس بک‘ نیٹ فلیکس اور ایپل شامل تھیں ‘ایک عدالت میں کہا کہ امریکی امی گریشن پر قدغن لگا کر آپ ہماری کاروباری مقابلے کی صلاحیت کو نقصان پہنچائیں گے۔ یہ بات عجیب ہے کہ ایک کاروباری شخصیت صدر بن کر ملک کی نفع بخش صنعت کو فائدہ نہ دے۔
کچھ کاریگر تارکین وطن نے کہا کہ وہ کینیڈا جانے یا نہ جانے پر مخمصے ہیں۔ ان میں 42 سالہ ایرانی شہری بابک عالمیا بھی ہیں۔ ہائی ٹیک کمپنیاں بناتے اور بیچ دیتے ہیں۔ ماضی میں انہوں نے اپنی کمپنیاں ‘ گوگل اور فیس بک جیسے کاروباری جنات کے ہاتھ فروخت کیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ امریکہ میں ایک اور کمپنی کی بنیاد رکھنے سے ہچکچائیں گے۔ وہ وینکوور جانے پر غور کر رہے ہیں۔ وہ مستقل امریکی رہائشی (گرین کارڈ ہولڈر) ہیں‘ شہری ابھی نہیں ہوئے۔ وہ 28 سال سے سلی کون ویلی میں مقیم ہیں اور ان کے ہاں چھ سال کی ایک بچی بھی ہے‘ جو امریکہ میں پیدا ہوئی۔ اس کے والدین ‘ جوبیٹے کی طرح ایران میں پیدا ہوئے‘ اب کینیڈا میں رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں انہیں ایک پرواز منسوخ کرنی پڑی کیونکہ ایران مسلم اکثریت کے ان سات ملکوں میں شامل تھا‘ جہاں سے آنے جانے پر ٹرمپ نے پابندیاں لگا دی تھیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved