تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     18-02-2017

برطانیہ کا پانچ روزہ دورہ

مجھے امریکہ سے 30جنوری کو براہِ راست کراچی آنا تھا ،لیکن برطانیہ سے علامہ غلام ربانی افغانی نے رابطہ کر کے کہا کہ امریکہ سے واپسی پرچار پانچ روز کے لیے برطانیہ میں قیام کریں ، چنانچہ انہوں نے ٹکٹ تبدیل کیا اور میں 30جنوری کو نیو یارک سے روانہ ہوکر 31جنوری کی صبح لندن پہنچا۔وہاں اُسی شام جماعت اہلسنت لندن کے علماء کی جانب سے مولانا ثناء اللہ سیٹھی نے ایک ہوٹل میں استقبالیے کا اہتمام کر رکھا تھا ،شرکاء میں لندن میں مقیم ائمہ وخطباء اور اہلِ فکر ونظر کے علاوہ میڈیا کے افراد بھی تھے ۔وہاں میں نے حالاتِ حاضرہ کے حوالے سے گفتگو کی اور سوال وجواب کی نشست ہوئی ۔جمعہ کی نماز ایسٹ لندن میںالفورڈ اسلامک سنٹر کی عظیم الشان جامع مسجد میں پڑھائی اور'' دعوتِ دین اور امت مسلمہ کی ذمے داریاں‘‘ کے عنوان سے گفتگو کی ۔ماشاء اللہ مسجد میں ابتدا ہی سے حاضری بھرپور تھی اور حاضرین نے دلچسپی سے گفتگو کو سنا ۔لندن میں میرا قیام علامہ غلام ربانی کے قائم کردہ ادارے ''فیضانِ اسلام اسلامک سنٹر ‘‘ میں تھا ، چنانچہ جمعۃ المبارک کی شام اُسی مرکز میں خطاب کیا۔
جمعۃ المبارک کے روز ممتاز عالمِ دین اورپیرِ طریقت علامہ علاؤالدین صدیقی رحمہ اللہ تعالیٰ کے برمنگھم میں انتقالِ پُر ملال کی خبر سنی ، چنانچہ ہفتے کے روز علی الصبح برمنگھم روانہ ہوا ،کیونکہ پیر صاحب کی نمازِ جنازہ کے لیے آسٹن کے گرائونڈ میں صبح گیارہ بجے کا وقت مقرر تھا ۔ پیر صاحب کی عمر شمسی سال کے اعتبار سے 78سال اور قمری سال کے اعتبار سے 80سال تھی ،وہ کافی عرصے سے مختلف عوارض میں مبتلا تھے۔ نمازِ جنازہ میں پورے برطانیہ سے علماء اہلسنت نے بھاری تعداد میں شرکت کی ،مقامی انگریزی پریس نے بھی اُن کے شرکائِ جنازہ کی تعداد بیس ہزار سے متجاوز رپورٹ کی اور یہ ایک غیر مسلم ملک میں بہت بڑی تعداد ہے۔اُس سے اگلے روز نیریاں شریف آزاد کشمیر میں ان کا جنازہ ہوا اور وہاں شدید سردی کے باوجودنمازِ جنازہ کے شرکاء کی تعداد لاکھوں میں بتائی جاتی ہے ۔ برطانیہ میں پیر صاحب کا حلقۂ ارادت بہت وسیع ہے،اُن کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے اور آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک ملین کے قریب مسلمان برطانیہ میں آباد ہیں۔پیر صاحب نے ''نور ٹی وی ‘‘کے نام سے اپنا ٹیلی ویژن چینل بھی برمنگھم میں قائم کر رکھا ہے، اِسی طرح اُن کے قائم کردہ اسلامی مراکز اور مساجد بھی برطانیہ کے اکثر شہروں میں موجود ہیں۔پیر صاحب کے جنازے سے قبل ممتاز علماء کو دو دو منٹ اپنے تاثرات بیان کرنے کا موقع دیا گیا اور پھر مجھے پندرہ بیس منٹ کے لیے قدرے تفصیل کے ساتھ خطاب کرنے کا موقع دیا گیا۔
میں نے اس موقع پر کہا:''علامہ پیر علاؤالدین رحمہ اللہ تعالیٰ پیرِ طریقت اور سجادہ نشین ہونے کے ساتھ ساتھ صاحبِ علم بھی تھے ،اُن کی خطابت اور مجلسی گفتگو کا انداز دلنشیں اور پُر اثر تھا ۔اللہ تعالیٰ نے انہیں قامت کی بلندی اور حسین ودلکش وجاہت سے بھی نوازا ہوا تھا۔ اُن کی پُر کشش شخصیت کی وجہ سے عوامِ اہلسنت انہیں فراخ دلی سے مالی عطیات دیتے تھے ۔ انہوں نے عوام کے دیے ہوئے مالی عطیات اورامانتوں کو اپنی ذاتی جاگیریں اور شہر شہر بنگلے بنانے پر صَرف نہیں کیا ، بلکہ انہوں نے اصلاح وارشاد کے خانقاہی نظام کو روحانی جاگیرداری میں تبدیل کرنے کی بجائے اُسے اپنے اصل شِعار پر قائم رکھا اوردنیا بھر میں دینی ،تعلیمی وتربیتی،رفاہی اور قومی افادیت کے ادارے قائم کیے ۔ اُن کے قائم کردہ اداروں میں ''مُحی الدین اسلامک یونیورسٹی آزاد کشمیر ‘‘،''مُحی الدین میڈیکل کالج وٹیچنگ ہاسپیٹل،میر پور آزاد کشمیر‘‘کے علاوہ آزاد کشمیر ودیگر مقامات پر جامعہ محی الاسلام صدیقیہ کے نام سے درجنوں دینی مساجد و مدارس ، اسکول و کالج اور دیگر بہت سے ادارے شامل ہیں۔ خواجہ غلام مُحی الدین غزنوی رحمہ اللہ تعالیٰ اُن کے والد گرامی کا نام تھا،جو موہڑہ شریف کے خواجہ محمد قاسم رحمہ اللہ تعالیٰ کے خلیفۂ مُجاز تھے۔پیر صاحب نے اپنے والد ماجد مرحوم کے نام پر ''مُحی الدین ٹرسٹ ‘‘ قائم کیا،جس کے تحت دنیا بھر میں اُن کے قائم کیے ہوئے رفاہی وتعلیمی اداروں اوراسلامی مراکز کا نیٹ ورک چل رہا ہے ۔اُن کے دونوں صاحبزادگان صاحبزادہ سلطان العارفین صدیقی اور صاحبزادہ نورالعارفین صدیقی بھی ماشاء اللہ باصلاحیت عالم دین ہیں۔برطانیہ کے مختلف شہروں میں اُن کے قائم کیے ہوئے نصف درجن سے زائد اسلامی مراکز ہیں،اسی طرح اُن کے قائم کیے ہوئے کالجوں ، اسکولوں اور تعلیمی اداروں کا وسیع نیٹ ورک آزاد کشمیر ،پنجاب اور سندھ میں قائم ہے۔ پیر صاحب 1968ء سے مسلسل برطانیہ جارہے ہیں اور وہاں اُن 
کا بہت بڑا حلقۂ اثر ہے۔لیکن وہ ہمیشہ وزٹ ویزے پر آتے جاتے رہے ،نہ برطانوی قومیت اختیار کی اور نہ ہی برطانوی پاسپورٹ حاصل کیا،یہ اُن کے استغناء کا ایک بیّن ثبوت ہے‘‘۔
اُسی روز برمنگھم میں جماعتِ اہلسنت برطانیہ کے زیرِ اہتمام مصباح القرآن اسلامک سنٹر میں ایک استقبالیے میں شرکت کی، جس میںعلامہ مفتی گل رحمن قادری ، علامہ خلیل احمد حقانی،علامہ صاحبزادہ طیب الرحمن ، علامہ صاحبزادہ مصباح المالک لقمانوی ، علامہ سید ظفر علی شاہ ،علامہ نصیر اللہ نقشبندی اور دیگر ممتاز ومقتدر علمائے اہلسنت شریک ہوئے ۔اس اجتماع میں، میں نے اسلام اور جدید سائنسی وطبی موضوعات پر گفتگو کی۔5 فروری کی شام علامہ صاحبزادہ طیب الرحمن کے قائم کردہ ''القادریہ اسلامک سنٹر برمنگھم ‘‘ میں استقبالیے میں شرکت کی، جس میں اہلسنت کے مندرجہ بالاحضرات کے علاوہ درجنوں مقتدر وممتاز علمائے کرام،دیگر اہلِ فکر ونظر اور ذی علم اصحاب کے علاوہ مختلف مکاتب فکر کے علماء نے بھی شرکت کی۔اس اجتماع میں، میں نے'' امتِ مسلمہ، دعوتِ دین اور علماء کی ذمے داریاں‘‘ کے موضوع پر گفتگو کی اورقرآنِ کریم میں بیان کردہ اسلوبِ دعوت الی اللہ اورنبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کے شِعارِ دعوت پر تفصیل سے گفتگو کی۔
میں نے علمائے برطانیہ سے کہا: آپ کے لیے عافیت کا ایک جواز یہ ہے کہ غیر مسلم ممالک میں بطورِ اقلیت رہتے ہوئے آپ نظام کو بدلنے کی سعی اور جہد وعمل کے مکلف نہیں ہیں۔پاکستان کے تناظر میں بریلوی دیوبندی خلافیات کے مسائل پر سیر حاصل بحثیں ہوچکی ہیں ،درجنوںکتب لکھی جاچکی ہیں ،مناظرے منعقد ہوچکے ہیں اوریہ سب کچھ سطحِ آب پر موجود ہے۔لیکن پھر بھی ہمارے بہت سے نامی گرامی علماء کا خیال ہے کہ اس بحرِ عمیق میں اب بھی ایسے گوہرِ نایاب باقی ہیں،جن کی جستجو اور تعاقب کے لیے مسلسل مصروفِ عمل رہنے کی ضرورت ہے ۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ لبرل ازم ،فلسفہ اباحیت، لادینیت اوربے راہ روی کے جو فتنے ہیں ،اُن کے لیے ہماری ان قابل افتخار شخصیات کے پاس فاضل وقت دستیاب نہیں ہے۔امریکہ میں اہلِ فکر ونظر کی ایک مجلس میں سوال ہوا کہ علماء عصرِ حاضر کی تحدّیات (Contemporary Challenges)کو ترجیحِ اول دینے کے لیے کیوں تیار نہیں ہیں؟۔ میں نے عرض کی:ہمارا شِعاریہ ہے کہ معاشرے کے ہر طبقے اور مکتبۂ فکر کے لوگ ساری ناکامیوں کا ملبہ فریقِ مخالف یا اہلِ مذہب پر ڈال کر خود کو بریُ الذمہ سمجھ لیتے ہیں ،یہ فریبِ نفس اور شُرورِ نفس تو ہوسکتا ہے ،حقیقت پسندی ہرگز نہیں۔ حقیقت پسندی یہ ہے کہ ہرطبقہ اپنی اپنی خامیوں کا تجزیہ کرے اور پھر اُن کا ادراک کر کے اُن پر قابو پانے اور اپنی ترجیحات کو درست سَمت میں بدلنے کی کوشش کرے ، لیکن ایسا نہیں ہورہا۔ ہمارے ہاں تمام مکاتبِ فکر میں جو شِعارِ خطابت رائج ہے ،اُس کی مارکیٹ ہر مکتبۂ فکر کے لوگوں میں موجود ہے،بعض کے لیے یہ معاش ہے، بعض کے لیے روحانی سرور کا ذریعہ ہے اور بعض انتہائی اخلاص اور نیک نیتی کے ساتھ اسے ترجیحِ اول قرار دیتے ہوئے ہمہ تن اورہمہ وقت مصروف عمل ہیں۔جب حالات کا بہائو ایک سمت میں جاری وساری ہو ،تو اُس کے دھارے سے جُڑ کر رہنا یقینا آسان ہے۔لیکن اُس کے سامنے استقامت کے ساتھ کھڑے ہونا اور اصلاح کی کوشش کرنا عزیمت کا کام ہے اور دشوار امر ہے،جب کہ ہم بحیثیتِ قوم سہل پسند واقع ہوئے ہیں ۔نیز اپنی بے عملی کی وجہ سے ہم اپنا بیشتر وقت بے مقصد سیاسی اور فکری مباحث میں گزار دیتے ہیں، جن کا ماحصل ذہنی ورزش کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
پس نوشت: Happy Christmasکے عنوان سے میرا ایک کالم ان صفحات پر طبع ہوچکا ہے ،جسے بعد میں روزنامہ اسلام اور روزنامہ جسارت نے بھی شائع کیا ۔امریکہ کے سفر کے دوران احباب نے اس کی تحسین کی اورجنابِ ڈاکٹر شہرام ملک نے بتایا : امریکہ اور مغربی ممالک میں بہت سے لوگ جو روایتی طور پر مسیحی تھے ،اب اُن کی ایک بڑی تعداد عملاً لامذہب (Secular) ہوچکی ہے،سواگر اُن سے پوچھا جائے کہ آپ کا مذہب کیا ہے ؟،تو وہ بلا تکلف جواب دیتے ہیں : ہمارا کوئی مذہب نہیں ہے۔لیکن کرسمس کے ایام کو وہ بہر حال سالانہ جشن اورHolidayکے طور پر مناتے ہیں ۔لہٰذا ہم انہیں اس موقعے پرHappy Holidayکہہ دیتے ہیں اور وہ اس پر خوش رہتے ہیں۔ پس Happy Christmasکہنے پر ہمارے مذہبی طبقات کوجو تحفظات تھے ،اب Happy Holidayکہنے پراُن کا ازالہ ہوجانا چاہیے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved