بنگلور کو بھارت کی سلیکون ویلی کہا جاتا ہے۔ یہ شہر انفارمیشن ٹیکنالوجی کا مرکز ہے۔ مغربی ممالک کے بہت سے بڑے اداروں کا اصل کام، خاصی کم اجرت پر بنگلور میں مکمل کیا جاتا ہے۔ ایسے شہر سے ٹیکنالوجی کی خبریں آتی رہیں تو اچھا ہے مگر بھارت تو ہے ہی ایسی سرزمین کا نام جہاں سے دلچسپ اور عجیب خبریں تواتر سے آتی رہتی ہیں۔ پھر بھلا بنگلور کیوں پیچھے رہے؟
اِس بار ویلنٹائن ڈے پر بنگلور کے شہریوں نے سوچا کچھ ہٹ کر کیا جائے تاکہ لوگ دیکھیں، حیران ہوں اور داد دیں۔ ایک بڑے پارک میں شادی کا اہتمام کیا گیا۔ بھارت میں اجتماعی شادیوں کا رواج سا چل پڑا ہے۔ جو نہیں جانتے تھے وہ یہ سمجھے کہ شاید پارک میں اجتماعی شادیوں کا انتظام کیا جارہا ہے۔ بہت سوں سے سوچا کہ آئیڈیا غضب کا ہے۔ اچھا ہے، محبت والے دن ہی محبت اور محبت کرنے والوں کو ایک ساتھ ٹھکانے لگادیا جائے!
پارک میں جو کچھ ہوا اُس کا احوال جاننے سے قبل ممبئی کی ایک خبر پر نظر ڈالتے ہیں۔ سینٹ ویلنٹائن ڈے پر ایک نوجوان نے اپنی محبوبہ کو متاثر کرنے کے لیے ایسا انوکھا طریقہ اختیار کیا کہ لوگ حیران رہ گئے اور پھر حیران کن طریقہ اختیار کرنے کا انجام بھی کم حیران کن نہ تھا۔ اس نوجوان نے اپنی محبوبہ کو متاثر کرنے کے لیے کار پر ہزار روپے کے نوٹ چسپاں کیے اور اُس کے گھر پہنچ گیا۔ لوگوں نے جب کار کو اِس حالت میں دیکھا تو اُس کی محبوبہ کو بعد میں اور پولیس کو پہلے مطلع کردیا! پولیس نے بر وقت پہنچ کر ذہنی عیّاشی کے صحرا میں بھٹکتے ہوئے میاں مجنوں کو حوالات کی نذر کردیا!
آئیے، اب دوبارہ بنگلور کے پارک کی طرف چلتے ہیں۔ پارک میں تقریب کا اہتمام دیکھ کر لوگ جمع ہوگئے۔ وہ سمجھے سینٹ ویلنٹائن ڈے کی مناسبت سے کوئی تقریب منعقد کی جارہی ہے۔ شادی کا شامیانہ سجایا گیا تو لوگ سمجھ گئے کہ آج دو دلوں کو ملایا جارہا ہے۔ لازم تھا کہ دولھا دلھن کو بدھائی دی جائے۔ سیکڑوں افراد جمع ہوگئے۔ بہت سوں نے دولھا اور دلھن پر نچھاور کرنے کے لیے سُرخ گلاب تھام رکھے تھے۔
سب بے چینی سے دولھا دلھن کا انتظار کر رہے تھے۔ سب کی نظریں بار بار سڑک کی طرف اٹھتی تھیں جہاں سے سجی ہوئی کار یا بگھی کو آنا تھا۔ بے تابی سے دوچار کرنے والی یہ انتظار کی گھڑیاں کچھ ہی دیر میں ختم ہوئیں اور دولھا دلھن خراماں خراماں شادی کے شامیانے کی طرف آتے دکھائی دیئے۔ ویسے وہ آ نہیں رہے تھے بلکہ لائے جارہے تھے۔ جی ہاں، لائے جارہے تھے۔ انسان ہوتے تو خود آ جاتے۔
سیکڑوں افراد سرخ گلاب تھامے جس جوڑے کا انتظار کر رہے تھے وہ انسانوں کا نہیں تھا۔ ایک سجے ہوئے گدھے کو سجی سجائی گدھی کے ساتھ شادی کے شامیانے میں لایا جارہا تھا! یہ منظر دیکھ کر لوگ انگشت بہ دنداں رہ گئے۔
اہلِ محبت کا دن ... اور گدھا گدھی کی شادی!
جب سے ادب میں علامتی اندازِ تحریر کو رواج ملا ہے، ہر معاملہ علامتی انداز سے بیان کیا جارہا ہے۔ پارک میں کھڑے ہوئے سیدھے اور سادہ لوگ کیا جان پاتے کہ جس دن دنیا بھر میں کروڑوں جوڑے مرتے دم تک ایک دوسرے کا ساتھ دینے کا عہد کرتے ہیں عین اُسی دن گدھے اور گدھی کی شادی کی علامتی اہمیت کیا ہے!
شادی کی اس تقریب میں کرناٹک اسمبلی کے رکن ونال ناگ راج بھی شریک ہوئے جو عجیب و غریب طریقوں سے احتجاج کے حوالے سے غیر معمولی شہرت رکھتے ہیں۔
پارک میں جتنے بھی لوگ شادی کی تقریب کے منتظر تھے وہ حیران ہونے کے ساتھ ساتھ اس منظر سے محظوظ بھی ہوئے۔ کیوں نہ ہوتے؟ انسانوں کی شادی میں بھی تو یہی ہوتا ہے۔ دولھا اور دلھن کو دیکھ کر لوگ محظوظ ہی تو ہوتے ہیں! اور کچھ زیادہ فرق بھی تو نہیں ہوتا۔ یہاں چار ٹانگوں والے دولھا دلھن تھے، وہاں دو ٹانگوں والے دولھا دلھن ہوتے ہیں!
فی زمانہ محبت انسان کو کہیں کا نہیں رہنے دیتی۔ آپ سوچیں گے محبت تو ہر دور میں ایسی ہی رہی ہے۔ آج کی محبت ہو یا دو چار سو سال پہلے کی، پاگل ہی کرکے سکون کا سانس لیتی رہی ہے۔ ٹھیک ہے مگر سچ یہ ہے کہ آج کی محبت انسان کو فرہاد و جنوں کے درجے سے کہیں نیچے گراکر ''چَریا‘‘ کرکے دم لیتی ہے!
خیر، دولھا یعنی گدھے کا نام ''کمپا‘‘ رکھا گیا اور دلھن کا نام ''کمپی‘‘ اور دونوں کی شادی بہت دھوم دھام سے کی گئی۔ اخبارات نے اِس ''تقریبِ خانہ آبادی‘‘ کی خبر نمایاں طور پر شائع کی۔ ایک اخبار نے لکھا کہ کمپی کو سپنوں کا راج کمار مل گیا! ہم نکتہ اعتراض پر یہ پوچھنا چاہیں گے کہ کمپی سے رائے طلب کی گئی تھی؟ کیا پتا یہ اُس کے لیے زبردستی کا سودا ہو؟ 14 فروری کو پریمی جوڑے ایک دوسرے کو پُھول دیتے ہیں، شادی نہیں کرتے۔ اگر اِس دن شادی کا رواج پنپ گیا تو لوگ کہیں گے جو ایک دوسرے کو پُھول دیا کرتے تھے اُنہوں نے ایک دوسرے کو ''فول‘‘ بن کر قبول کرلیا!
انسانوں کی دنیا میں محبت اِس لیے نہیں کی جاتی کہ ہر کمپی کو لازمی طور پر کوئی کمپا مل جائے! محبت کے ہر کیس کا انجام کمپا اور کمپی جیسا ہو تو محبت کی دنیا کا سارا دھندا ہی چوپٹ ہوکر رہ جائے! دل لگانے کا ایسا نتیجہ چار ٹانگوں والے گدھوں کی دنیا ہی میں سامنے آسکتا ہے۔ دو ٹانگوں والے گدھے محبت کے معاملے میں بھی جدید ترین ''سوشل ٹیکنالوجی‘‘ اپنائے ہوئے ہیں۔ یعنی کچھ اچھا وقت گزارو اور پھر اپنی اپنی راہ لو! وہ زمانہ اب نہیں رہا کہ لوگ شِکوہ کرتے رہ جاتے تھے ع
کہیں دو دل جو مل جاتے، بگڑتا کیا زمانے کا؟
اب لوگ اِس فکر میں غلطاں رہتے ہیں کہ دل لگانے کے نتیجے میں کہیں کوئی ''بلا‘‘ عمر بھر کے لیے گلے نہ پڑ جائے اور بعد میں روتے ہوئے گانا پڑے ع
خبر کیا تھی کہ انجام ہوگا دل لگانے کا!
اب دوسرے بہت سے معاملات کی طرح محبت بھی کنارے ہی سے نظارہ کرنے کا معاملہ ہے۔ کوئی بھی اِس سمندر میں غوطہ زن ہوکر موتی نکال لانے کے لیے بے تاب نہیں رہتا۔ سبھی جانتے ہیں کہ سمندر دکھائی دینے والی دلدل میں ڈبکی لگانا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے!
بنگلور کے چند شرارت پسندوں نے گدھے اور گدھی کی شادی کراکے پریمی جوڑوں کو علامتی انداز سے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ذرا بھی سنجیدہ ہوئے تو انجام یاد رکھنا! مگر ہمارے خیال میں اِس تکلف کی کچھ خاص ضرورت نہ تھی۔ جو دل لگانا جانتے ہیں وہ جان بچانا بھی اچھی طرح جانتے ہیں! فی زمانہ ہر پریمی جوڑے میں ہر فریق اس حقیقت سے باخبر ہے کہ ذرا بھی سنجیدہ ہوئے تو اُنہیں کمپا اور کمپی بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا! ہم ''رات گئی، بات گئی‘‘ کے زمانے میں جی رہے ہیں۔ اب تو نفرت بھی پُختہ نہیں رہی، محبت بھلا کیسے پُختہ ہوگی! محبت کے نام پر بچت بازار سجا ہوا ہے۔ سب اپنی اپنی ضرورت کے مطابق دل لیتے اور دیتے ہیں۔ آج کی محبت سہولت کا سَودا ہے! لڑکے کے ذہن میں ''کمپا‘‘ بننے کا خیال ہوتا ہے نہ لڑکی اس بات کے لیے تیار ہوتی ہے کہ کوئی اُسے ''کمپی‘‘ بنانے کا سوچے! دونوں ایک دوسرے کے ''سہولت کار‘‘ ہوتے ہیں! مقصود صرف یہ ہے کہ کچھ وقت ذرا مزے سے گزار لیا جائے۔ اِس کے بعد فریقین ساحرؔ لدھیانوی کے مشورے یا نُسخے پر عمل کرتے ہیں ع
چلو، اِک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
احساسات اور جذبات کھوکھلے ہوں تو کوئی کسی کو دھوکا نہیں دے رہا ہوتا۔ ہر فریق کے علم میں یہ بات ہوتی ہے کہ سب کچھ سطحی ہے۔ یہ بھرپور رضامندی کا سَودا ہے۔ اِس شکوے کی گنجائش ہی نہیں رہتی کہ ع
محبت کرکے دیکھا، محبت میں بھی دھوکا ہے!