بنی اسرائیل نے کہا تھا: موسیٰ ؑاور اس کا رب لڑے۔ عملاً ہم بھی اپنی عسکری قیادت سے یہی کہہ رہے ہیں۔ وہی فوج کم از کم اسی فیصد عوام جس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ فعال طبقات مگر ژولیدہ فکری کا شکار ہیں۔ ان لرزتے کانپتے لوگوں کو راہ کون دکھلائے۔ اقبالؔ نے کہا تھا ؎
کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دل
کہتا ہے اس سے کون مسلماں کی موت مر
یہ بات ادھر ادھر بھٹکنے والوں کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی کہ یہ ایک جنگ ہے... اور جنگ تنہا فوج نہیں پوری قوم لڑا کرتی ہے۔ پشتو محاورے کے مطابق یہ بھی کہ جنگ میں گڑ نہیں بانٹا جاتا۔ دشمنوں میں گھرا پاکستان تو یوں بھی منتخب حکومت اور عسکری قیادت میں ہم آہنگی چاہتا ہے؛ چہ جائیکہ کہ ایسے سفاک دشمن سے معرکہ آرائی کے ہنگام‘ ایک دوسرے سے وہ روٹھے ہوئے ہوں‘ ایک دوسرے کے بارے میں تحفظات رکھتے ہوں۔
قیادت سنبھالنے کے فوراً بعد جنرل قمر باجوہ نے صاف صاف وزیر اعظم سے کہا تھا کہ سیاست سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں۔ اقتدار کی تبدیلی میں ہماری طرف سے کوئی کردار ادا کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ خرابی کا آغاز رانا ثنااللہ کے بیان سے ہوا‘ جس میں فوجی عدالتوں کو انہوں نے بے ثمر اور بانجھ قرار دیا۔ بعض وزرا نے ان سے عدم تعلق کا اعلان کیا‘ ڈٹ کر مگر ان کی تردید نہ کی۔ پھر دو طرح کے واقعات پہلو بہ پہلو رونما ہوئے۔ ایک تو وزیر اعظم کے قریبی ساتھیوں نے سپریم کورٹ کو دھمکیاں دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ جمعہ کی شب رانا افضل نامی رکن قومی اسمبلی نے یہاں تک کہہ دیا: جمہوریت کو اگر نقصان پہنچا تو امریکہ پاکستان کو تورا بورا بنا دے گا۔ اس سے پہلے رانا ثنااللہ صاحب ارشاد کر چکے تھے کہ جن لوگوں نے بھٹو کو پھانسی دی تھی‘ ایک بار پھر ان میں گٹھ جوڑ ہو چکا۔ فوج سے وہ ناراض ہیں کہ اس کے اقتدار میں پیپلز پارٹی کا وہ حصہ تھے۔ جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا میں ان سے زیادتی ہوئی۔ اس کا بدلہ چکانے کے لیے پورے ملک کو اگر وہ انتشار میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں تو یہ ناقابلِ فہم ہے۔ اس سے زیادہ یہ کہ وزیر اعظم انہیں سمجھاتے کیوں نہیں۔
جمہوریت کو کس چیز سے خطرہ ہے؟ عدالت پاناما لیکس والے مقدمے کی سماعت کر رہی ہے۔ کیا وہ سماعت ترک کر دے یا ابھی سے اعلان کر دے کہ فیصلہ حکومت کے حق میں صادر ہو گا۔ کوئی بھی ہوش مند آدمی اتفاق کرے گا کہ ججوں کا روّیہ اور انداز غیر جانبدارانہ ہے۔ وہ تمام ضروری سوال پوچھ رہے ہیں اور دونوں فریقوں سے۔ اڑتی سی یہ خبر ضرور ہے کہ حکومت عدالت پہ اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہے‘ دھمکیوں کے علاوہ بھی۔ اللہ جانے اس میں کتنا سچ ہے‘ بہت یقین کے ساتھ بعض لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ واشنگٹن سے ایک صاحب کو بلایا گیا ہے کہ نسخہ کیمیا استعمال کریں۔ اگر یہ درست ہے تو اتنی ہی آشکار حقیقت یہ ہے کہ یہ 1997ء نہیں‘ جب نون لیگ کے کارکن عدالت عظمیٰ پہ چڑھ دوڑے تھے۔ یہ وہ عدالت بھی نہیں کہ دو حصوں میں بٹی ہوئی۔ ہم آہنگ ہے‘ کمال شائستگی اور احتیاط کے ساتھ سماعت میں مصروف۔ خرابی اگر ہے تو یہ کہ دونوں طرف کے لوگ عدالت کے باہر شور و غوغا کرتے اور اپنے طور پر دعوے داغتے ہیں۔ ان کا طرزِ عمل‘ ناقص اور بعض اوقات بازاری ہو جاتا ہے۔ شیخ رشید جیسے لوگوں سے کیا توقع مگر وزرا کرام آئے دن اعلانِ جنگ کیوں کرتے ہیں۔ سرکاری لوگ ایک ایسی عدالت کے بارے میں وحشیانہ طریق کیسے اختیار کر سکتے ہیں‘ جس پر ان کے لیڈر نے اعلانیہ اعتماد کا اظہار کیا ہو۔ غیر جانبدار لوگ تو ظاہر ہے کہ عدالت سے عدل ہی کی امید رکھتے ہیں۔ عسکری قیادت بار بار کہہ چکی کہ ان معاملات سے دور کا واسطہ بھی اس کا نہیں۔ میڈیا میں سرکار کی یلغار ہے۔ اتنا پروپیگنڈا اس کے حق میں ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ کوئی تیر اپنے ترکش میں حکومت نے بچا نہیں رکھا۔ اشتہارات کا دریا بہہ رہا ہے۔ پسندیدہ لوگوں پہ نوازشات کا طوفان برپا ہے۔ اس کے باوجود وہ لرزاں کیوں ہے؟ کیا ان کی امید اور مطالبہ یہ ہے کہ اختلاف کرنے والے یکسر خاموش ہو جائیں۔ جمہوریت اگر اسی کا نام ہے تو بادشاہت کس چیز کو کہتے ہیں؟
محض اندیشوں پر رائے اور روّیے قائم کرنا کن لوگوں کا کام ہوتا ہے؟ حکومت کے مقدمہ ہار جانے کا جتنا امکان ہے‘ اتنا ہی جیت جانے کا۔ پھر اسے قرار اور قیام کیوں نہیں۔ صبر اور حوصلہ اس میں کیوں نہیں۔ وکیلوں پر وکیل بدلے گئے۔ حربوں پہ حربے اختیار کئے گئے۔ غیر ملکی دوستوں سے مدد مانگی گئی۔ نامکمل منصوبوں کے فیتے کاٹے گئے۔ دل اطمینان کیوں نہیں پاتے؟
برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل کی ایک تقریر یاد آتی ہے۔ برصغیر کی آزادی کے ہنگام انہوں نے کہا تھا ''اقتدار غنڈوں‘ بدمعاشوں اور اچکّوں کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔ ہندوستان کے لیڈر معمولی صلاحیت کے کھوکھلے لوگ ہوں گے۔ ان کی زبانیں شیریں اور دل چڑیوں کے ہوں گے۔ اقتدار کے لیے آپس میں وہ لڑتے رہیں گے اور بھارت باہمی تنازعات کی نذر ہو جائے گا‘‘۔
کہا جا سکتا ہے کہ چرچل استعمار کا نمائندہ تھا۔ بجا طور پر یہ بھی کہ غلامی کسی صورتِ قابلِ قبول نہیں ہوتی‘ آزادی ہی واحد راستہ ہے۔ پھر یہ کہ جہاں ادنیٰ اور گھٹیا لوگ سیاست میں چمکے اور چہچہائے‘ قائد اعظمؒ سمیت‘ دونوں ملکوں میں دانا‘ ایثار کیش‘ اجلے اور بلند ہمت بھی کئی تھے۔ باایں ہمہ‘ ان الفاظ پہ غور کرنا چاہیے۔ کسی ایک گروہ نہیں‘ سبھی کو... اور سبھی کو چھچھورے پن سے بچنا چاہیے۔
جنگ تنہا فوج کو نہیں لڑنی‘ جو کشمیر میں تحریک آزادی سے خوف زدہ بھارت کا ہدف ہے‘ طالبان‘ این جی اوز اور محترمہ عاصمہ جہانگیر کا بھی۔ امریکہ اور اس کے حواریوں کا بھی کہ چین سے بڑھتے ہوئے تعلقات‘ گوادر کی بندرگاہ اور تجارتی راہداری کے سبب وہ ہم سے ناخوش ہیں۔ اس کے ایٹمی پروگرام اور میزائل کے طفیل بھی کہ پاکستان پر ننگی یلغار اب ممکن نہیں۔
امریکہ بھارت کا تزویراتی حلیف ہے۔ چین سے دونوں خوف زدہ ہیں۔ بیجنگ کی معاشی استعداد بڑھ رہی ہے۔ مغرب‘ ان حالات میں پاکستان کو انحصار پذیر دیکھنا چاہتا ہے۔ اس میں عدم استحکام کا خواہش مند ہے۔ ملا فضل اللہ اور اس کے ساتھی امریکی منشا کے بغیر افغانستان میں براجمان نہیں۔ بلوچستان‘ قبائلی پٹی اور کراچی میں تخریب کاری کی طرف سے بلاوجہ انکل سام نے آنکھیں بند نہیں کر رکھیں۔ مغرب کی طرف سے را کے ایجنٹ الطاف حسین کی سرپرستی سوچ سمجھ کر کی جاتی رہی۔
دہشت گردی کا ایک کنسورشیم ہے: را‘ این ڈی ایس‘ طالبان‘ فرقہ پرست‘ کراچی کے قاتل اور بلوچستان کے علیحدگی پسند۔ مذہبی جماعتوں میں طالبان کے حامی اس کے سوا ہیں۔ ان کے اجداد قائد اعظمؒ کو انگریزوں کا ایجنٹ کہا کرتے۔ دبی زبان میں وہ بھی یہی کہتے ہیں۔ پاکستان کا استحکام‘ اور بقا انہیں خوش نہیں آتی۔ اس پر بے نیاز مرکزی و صوبائی حکومتیں‘ بے نیاز میڈیا اور ناکارہ پولیس۔ عالمی رائے عامہ کے سامنے کشمیر کا مقدمہ اور بھارتی استعداد کے حربے بھی‘ کیا فوج ہی کو واضح کرنا ہیں۔ مساجد‘ مارکیٹوں‘ مزارات اور امام بارگاہوں کا تحفظ بھی کیا اسی کو کرنا ہے؟ نیکٹا اور نیشنل ایکشن پلان کی کجی بھی کیا اسی کو دور کرنی ہے؟
فوجی قیادت کے ایما پر پیمرا سے رابطہ کیا گیا کہ جب لاشیں تڑپ رہی ہوتی ہیں‘ اس وقت بے ہودہ اشتہار کیوں دکھائے جاتے ہیں۔ انہوں نے اتفاق کیا اور وعدہ کیا کہ روکنے کی کوشش کریں گے۔ بارِدگر سوال یہ ہے کہ پولیس کو کس نے کھوکھلا اور ناکارہ کیا ہے؟ کون اس کی تشکیلِ نو کرے گا؟ عدالتی نظام کون بہتر بنائے گا؟
بنی اسرائیل نے کہا تھا: موسیٰ ؑاور اس کا رب لڑے۔ عملاً ہم بھی اپنی عسکری قیادت سے یہی کہہ رہے ہیں۔ وہی فوج کم از کم اسی فیصد عوام جس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ فعال طبقات مگر ژولیدہ فکری کا شکار ہیں۔ ان لرزتے کانپتے لوگوں کو راہ کون دکھلائے۔ اقبالؔ نے کہا تھا ؎
کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دل
کہتا ہے اس سے کون مسلماں کی موت مر