تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     19-02-2017

دہشت گردی کی جنگ‘اپنا اپنا کام

جنرل راحیل شریف کے بعد کیادہشت گردی پھر شروع ہو رہی ہے؟ ایسا لگتا ہے جیسے ہم پھر ایک اور ''جنرل کیانی‘‘ کے رحم و کرم پر ہیں اس پر آپ کی کیا رائے ہے‘‘؟ پشاور سے موصولہ ایس ایم ایس کو دہشت گردی کے پے درپے واقعات پر عوام کے بڑھتے ہوئے احساسِ عدم تحفظ کی حقیقی ترجمانی قرار دیتے ہوئے‘ بزرگ دانشور کا کہنا تھا‘ یقیناً ان صاحب نے جنرل کیانی کے بارے میں قدرے سخت الفاظ استعمال کر دیئے لیکن آپ بات سمجھ گئے ہوں گے۔ خدا نہ کرے‘ لیکن اگر دہشت گردی کے چند ایک مزید واقعات ہو گئے تو جنرل راحیل شریف کی یاد میں مزید شدت آ جائے گی۔
لیکن تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے سوشل میڈیا پر کچھ اس طرح کے تبصرے''اس آرتھو پیڈ کو ڈھونڈو جس نے ٹوٹی ہوئی کمر چند ہی دنوں میں تندرست و توانا کر دی‘‘ ظاہر ہے یہ ان ٹویٹس پر طنز ہے جو جنرل راحیل شریف کے دور میں آئی ایس پی آر کے سربراہ‘ جنرل عاصم سلیم باجوہ جاری فرماتے اور جن میں ''دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی‘‘ کی نوید ہوتی۔
لیکن حقیقت کیا ہے؟ جنرل کیانی پر طنز کرنے والے اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ سوات اور جنوبی وزیرستان میں آپریشن ان ہی کے دور میں ہوا تھا چھ قبائلی ایجنسیاں بھی انہی کے آپریشن کے نتیجے میں کلیئر ہوئیں؟ البتہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کے حوالے سے ان کی اپنی سوچ‘ اپنے تحفظات تھے۔
جنرل راحیل شریف کے دور میں (15جون2014ء کو) آپریشن ضرب عضب شروع ہوا اور 29نومبر2016ء کو ان کی ریٹائرمنٹ تک‘ اس کی اپنی کارکردگی تھی اس دوران دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں‘ ان کے اسلحہ خانوں اور ان کی تربیت گاہوں کا خاتمہ ہوا۔ ان کی ایک تعداد کیفر کردار کو بھی پہنچی‘ لیکن اس دوران دہشت گردی کے بڑے واقعات بھی ہوئے۔ دسمبر2014ء کا آرمی پبلک سکول پشاور کا سانحہ کہا جا سکتا ہے کہ تب آپریشن ضرب عضب کو شروع ہوئے صرف6ماہ ہوئے تھے لیکن بڑے سانحات تو اس کے بعد بھی ہوتے رہے تفصیل میں جانے کا محل نہیں‘ کہ پورا کالم اسی کی نذر ہو جائے گا۔
کراچی کا سانحۂ صفورا‘ لاہور میں واہگہ بارڈر پر دہشت گردی‘ پھر جنرل راحیل شریف کے آخری سال میں لاہور ہی میں گلشن اقبال پارک میں بدترین دہشت گردی اور اگست میں کوئٹہ کا سانحہ جس میں 70سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔(ان میں غالب تعداد بلوچستان کے سینئر وکلاء کی تھی) اور بلوچستان میں شاہ نورانی مزار کا سانحہ تو جنرل صاحب کی ریٹائرمنٹ سے صرف اڑھائی ہفتے قبل ہوا تھا۔ ضربِ عضب کے حوالے سے جنرل راحیل شریف کا جتنا کریڈٹ بنتا ہے اس کا اعتراف ضرور کیا جانا چاہیے۔ ان کی ریٹائرمنٹ پر جناب صدر اور وزیر اعظم کی طرف سے ان کے لیے الوداعیہ تقاریب کا اہتمام ان کی 
کارکردگی کا اعتراف ہی تو تھا(خود ہم نے بھی ان کی تعریف میں کالم لکھا) لیکن کیا ضروری ہے کہ ہم اپنے ممدوح کی تعریف(اور اعتراف) میں باقی سب کا انکار کر دیں۔ اپنے محبوب کا بُت تراشتے ہوئے دوسروں کے نقش مٹانا بھی کیا ضروری ہے۔
آپریشن ضربِ عضب شروع ہوا تو آئی ایس پی آر کی میڈیا بریفنگ میں توقعات کا پہاڑ کھڑا کر دیا گیا۔ اس کے لیے چند ہفتوں کا ٹائم فریم دیا گیا پھر ''کمر توڑ دی گئی‘‘ کے دعوے کئے جانے لگے۔
ابتدائی اندازے غلط تھے یا یہ قوم کے حوصلے قائم رکھنے کا نفسیاتی حربہ تھا؟ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ اتنی آسان ہے نہ مختصر۔ اس مشکل اور پیچیدہ جنگ کو اختتام تک پہنچنے کے لیے طویل وقت درکار ہے۔دہشت گردی کی جڑیں کتنی گہری اور وسیع و عریض ہیں اس کے تانے بانے کہاں کہاں ہیں؟ اس پر بہت کچھ کہا جا چکا ہے‘ بہت کچھ لکھا جا رہا ہے آپ اپنے گھر کی سو فیصد اصلاح کر لیں لیکن اپنے پڑوس میں ‘ اپنے پچھواڑے میں پلنے والے عفریت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے تقاضے کچھ اور ہیں؟
سانحہ سیہون کے بعد وہاں پہنچنے میں وزیر اعظم نے تاخیر نہیں کی تھی۔ یہ سانحہ جمعرات کو نماز مغرب کے وقت ہوا اور اگلے روز وزیر اعظم بعض وفاقی وزراء اور آرمی چیف کے ساتھ وہاں موجود تھے۔ انہوں نے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے ہمراہ زخمیوں کی عیادت کی۔ جائے حادثہ سے ملحق سرکٹ ہائوس میں اعلیٰ سطحی اجلاس میں وزیر اعظم نے فل سکیل کریک ڈائون شروع کرنے کی ہدایت کی فوج اورسکیورٹی اداروں کے لیے ان کا حکم تھا کہ دشمن کو نیست و نابود کر دیں دہشت گرد ملک کے اندر ہوں یا باہر‘ ان کا تعاقب کیا جائے انہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر مار دیا جائے اور اس کے ساتھ ہی میڈیا آئی ایس پی آر کے حوالے سے‘ ملک کے مختلف حصوں میں 100سے زائد دہشت گردوں کی ہلاکت اور ایک بڑی تعداد میں ان کی حراست کی خبر دے رہا تھا۔
قصۂ زمین برسرِزمین کے مصداق(انگریزی میں Nip the evil in the bud)
پاک فوج نے افغان سرزمین پر دہشت گردی کے کیمپوں کو بھی نشانہ بنایا تھا سانحہ لاہور کی ذمہ داری جماعت الاحرار نے قبول کی تھی اب اس کارروائی میں اس کے ٹریننگ کمپائونڈ اور 4کیمپ تباہ کر دیئے گئے (دوسرے ملک کی سرزمین پر اس کارروائی کے اپنے مضمرات ہو سکتے ہیں) البتہ ایک بات جو ہمارے لیے ناقابل فہم ہے وہ اسلام آباد میں موجود افغان سفارت کاروں کی جی ایچ کیو طلبی اور ان کے ذریعے کابل کو پاک فوج کی طرف سے سخت پیغام ہے۔13فروری کے سانحہ لاہور پر ہمارے فارن آفس نے افغان ڈپٹی ہیڈ آف مشن کو طلب کر کے افغان سرزمین پر دہشت گردوں کے اڈوں کی موجودگی پر سخت تشویش کا اظہار کیا تھا۔ اب سانحہ سیہون پر مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے افغان نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر حنیف اتمار سے شدید احتجاج کیا ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے حالیہ واقعات کی ذمہ دار دہشت گرد تنظیمیں افغان سرزمین سے بروئے کار ہیں لیکن کابل نے اس حوالے سے پاکستان کی درخواستوں پر کان نہیں دھرے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق جی ایچ کیو میں طلب کئے گئے افغان سفارت کاروں کو پاکستان کو مطلوب 76دہشت گردوں کی فہرست بھی مہیا کی گئی اور مطالبہ کیا گیا کہ کابل ان کے خلاف خود کارروائی کرے یا انہیں پاکستان کے سپرد کر دے ہمارے خیال میں دہشت گردی کی اس جنگ میں ہر ادارے کو اپنا اپنا کام کرنا چاہیے‘ افغان سفارت کاروں کی طلبی فارن آفس کا کام تھا۔ خود آرمی چیف جنرل باجوہ یہ کہہ چکے کہ ریاستی اداروں کو اپنا اپنا کام کرنا چاہیے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved