جُوتا
جُوتا اور جُوتی مذکر و مونث ہیں۔ جوتا مرد پہنتے ہیں اور جوتی خواتین۔ جوتی کثیرالاستعمال چیز ہے‘ مخالف کو اس کی نوک پر لکھا جاتا ہے حالانکہ نوک پر اتنی جگہ نہیں ہوتی کہ دشمن یا مخالف کو اس پر لکھا جا سکے۔ جوتیوں میں دال بٹتی ہے۔ ان کا ہار بنایا جاتا ہے اور انہیں باقاعدہ چٹخایا جاتا ہے۔ ہر قسم کے جوتے یا جوتی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جوتے پر اکبر الہ آبادی شعر بھی کہتے ہیں ؎
بوٹ ڈاسن نے بنایا‘ میں نے اک مضمون لکھا
شہر میں مضمون نہ پھیلا اور جُوتا چل گیا
یہ تیز رفتاری سے بھی چلتا ہے اور سست روی سے بھی۔ اس کی رفتار اسے چلانے والوں کے زورِ بازو پر منحصر ہے۔ نیا اور تنگ جوتا کاٹتا بھی ہے۔ اس لیے نیا جوتا پہننے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
بُوٹ
یہ زیادہ تر فوجی حکومت کی آمد کی علامت ہے۔ یہ تسموں والا بھی ہے اور تسموں کے بغیر بھی۔ تسموں والے بوٹ کو پیرِ تسمہ پا بھی کہتے ہیں۔ ایک لانگ شُو بھی ہوتا ہے جسے پہن کر خادم اعلیٰ سیلاب زدہ علاقوں میں جا کر فوٹو سیشن کرواتے ہیں۔ اس کی ایک مصیبت یہ بھی ہے کہ اس کے ساتھ جُرابیں پہننا پڑتی ہیں۔ کبھی یہ شعر کہا تھا؎
گھر میں جو بچ رہا ہے چوہوں سے
کچھ جُرابیں ہیں‘ چند کچھے ہیں
بُوٹی کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں‘ اگرچہ یہ اس کی مونث لگتی ہے۔ اسی طرح بڑے سائز کے بوٹ کو بُوٹا نہیں کہتے۔
سینڈل
یہ مرد و خواتین کا مشترکہ پہناوا ہے۔ استعمال اسے زیادہ تر خواتین ہی کرتی ہیں۔ منقول ہے کہ میاں بیوی میں جھگڑے نے جب طول پکڑا تو بیوی نے اپنا سینڈل اتار کر اس کی طرف پھینکا لیکن وہ بیٹھ گیا اور جوتا جا کر کھڑکی کے شیشے پر لگا اور وہ ٹوٹ گیا۔ اس پر دونوں میں تکرار ہوئی۔ میاں کہتے کہ شیشہ تم نے توڑا ہے اور بیوی کہتی کہ تم نے‘ اگر تم بیٹھ نہ جاتے تو جوتا کبھی شیشے پر جا کر نہ لگتا۔ کبھی یہ شعر کہا تھا؎
درمیاں میں چلتی ہیں سینڈل اور صلواتیں
فرش پر سنتّا ہے ‘ کھاٹ پر سنتّی ہے
چنانچہ میاں بیوی کے لڑائی جھگڑے میں سب سے زیادہ کام یہی آتا ہے۔
گُرگابی
یہ دراصل گُرگِ آبی تھا جو کثرتِ استعمال سے گرگابی بن گیا۔ بوٹ کی طرح اسے بھی پالش کرنا پڑتا ہے۔ مرد و خواتین دونوں کا پسندیدہ ہے۔ چھوٹے قد والی خواتین اسے ہائی ہیل میں ترجیح دیتی ہیں۔ مردوں کے لیے مکیشن کہلاتا ہے۔ جُرابوں کے ساتھ یا ان کے بغیر پہنا جاتا ہے۔ اس لیے کفایت شعار لوگ اسے زیادہ پسند نہیں کرتے۔ منقول ہے کہ ایک صاحب نے دوسرے سے کہا کہ ذرا پرے ہو کر بیٹھو‘ تم میں سے بُو آ رہی ہے‘ تو دوسرے نے جواب دیا کہ بُو مجھ سے نہیں‘ میری جُرابوں سے آ رہی ہے۔ اس موضوع پر بھی شعر حاضر ہے ؎
ہیں جتنے دائرے نئی ٹی شرٹ پر‘ ظفرؔ
سوراخ اُسی قدر ہیں پرانی جُراب میں
جُراب وہ واحد لباس ہے جسے دھوئے بغیر بھی عمر بھر پہنا جا سکتا ہے!
افغانی چپّل
اسے افغان حضرات خود نہیں پہنتے بلکہ اسے دوسرے صوبوں میں برآمد کر دیا جاتا ہے جہاں یہ بہت ذوق و شوق سے پہنی جاتی ہے۔ چونکہ خاصی وزنی ہوتی ہے اس لیے زیادہ تر آلۂ ضرب کے طور پر ہی استعمال ہوتی ہے‘ اگرچہ اس کا سٹریپ کھولنے میں کافی وقت لگتا ہے‘ جس دوران فریقِ دوم اپنا وار کرکے جا چکا ہوتا ہے۔ اس لیے اس کے سٹریپ دور اندیش لوگ احتیاطاً کھلے ہی رکھتے ہیں۔ اگرچہ اس کارِ خیر کے لیے ایک ہی سٹریپ کھلا رکھنا کافی سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ استعمال ایک ہی ہوتا ہے اور کافی بھی۔ اس کا تلا عموماً ٹائر کے ربڑ سے بنایا جاتا ہے تاکہ تیز دوڑنے کے کام آ سکے۔ اسے زیادہ دن پالش نہ کیا تو یہ عرصے عرصے کے بعد خود ہی رنگ بدلتی رہتی ہے اور ایسے لگتا ہے کہ پائوں میں جوتے کی بجائے گرگٹ پہنی ہوئی ہو۔
کُھسّہ
یہ اپنے طلائی کام کی وجہ سے زیادہ مشہور ہے لیکن ہلکا اتنا ہوتا ہے کہ لڑائی میں ہرگز کام نہیں آتا اور اگر فریقِ مخالف نے ٹائر کے تلے والی چپل پہن رکھی ہو تو نقصان سراسر آپ ہی کا ہے۔ اس لیے دور اندیش حضرات کُھسّہ پہن کر ساتھ کوئی لٹھ وغیرہ بھی رکھتے ہیں تاکہ لڑائی میں خواہ مخواہ شکست سے دوچار نہ ہوں۔ یہ خاص خاص موقعوں پر پہنا جاتا ہے جبکہ طلائی کام والی چپل بھی بازار میں دستیاب ہے۔ بظاہر اس کا مطلب کھویا ہوا یا چھینا ہوا ہی لگتا ہے۔ اسی لیے اسے پہننے والے مشکوک ہی سمجھے جاتے ہیں کہ اسے دیکھ کر دل میں پہلا خیال چوری یا ڈکیتی ہی کا آتا ہے۔ اس لیے شرفا اسے پہننے سے بالعموم پرہیز ہی کرتے ہیں تاکہ خواہ مخواہ مشکوک نہ ٹھہریں۔
کھڑائوں
بنیادی طور پر یہ سادھو سنتوں کے پہننے کی چیز ہے۔ یہ زیادہ تر لکڑی سے تیار ہوتی ہے‘ بس انگوٹھے والی جگہ پر ایک لوہے کے کیل کی تہمت لگی ہوتی ہے۔ کہیں جانا ہو تو اس کی اطلاع نہیں دینا پڑتی کہ اس کی آواز خود ہی اس بات کا اعلان ہے کہ کوئی آ رہا ہے‘ چنانچہ اس شور شرابے سے بچنے کے لیے کوئی بھی شخص بقائمیء ہوش و حواس اسے پہننے پر آمادہ نہیں ہوتا؛ البتہ اگر گیس نہ آ رہی ہو تو اسے جلا کر کھانا وغیرہ بنایا جا سکتا ہے۔ صرف کیل بچتا ہے جو دیوار میں ٹھونکنے کے کام آ سکتا ہے۔ کبھی یہ شعر کہا تھا ؎
پکّی سڑکوں والے شہر میں کس سے ملنے جائیں
ہولے سے بھی پائوں پڑے تو بج اُٹھتی ہیں کھڑائوں
ہوائی چپّل
یہ ہوادار ہرگز نہیں ہوتی بلکہ اس سے پائوں ضرور ہوا دار رہتے ہیں جبکہ اس کی وجہ تسمیہ عقل سے باہر ہے۔ عموماً سلیپر کی جگہ استعمال ہوتی ہے جس پر سلیپر کو سخت اعتراض ہونا چاہیے جو کہ بے زبان ہونے کی وجہ سے کر نہیں سکتا‘ اس لیے اسے پہننے والوں کو خود ہی کچھ خیال کرنا چاہیے۔ یہ ساری کی ساری ربڑ سے بنتی ہے تاہم لڑائی کی صورت میں اسے کھینچ کر لمبا نہیں کیا جا سکتا‘ اس لیے اسی سے گزارہ کرنا پڑتا ہے خواہ اس کا نتیجہ کچھ بھی نکلے۔ لڑاکا حضرات اسے کبھی نہیں پہنتے کیونکہ اس سے تو بہتر ہے کہ آدمی ہُورا مُکّی سے استفادہ کر لے جو کافی مددگار ثابت ہوتے ہیں!
جوتے تو اور بھی ہیں جگہ کی کمی کے پیش نظر جن کا ذکر خیر نہیں ہو رہا اور اس طرح ہم ان کی حق تلفی کے مرتکب ہو رہے ہیں مثلاً کینوس شوز جو سیر وغیرہ کے استعمال ہوتے ہیں یا بارش میں ربڑ کے جوتے یا دیسی جوتی جودیہات وغیرہ میں پہنی جاتی ہے لیکن کوئی خاص کارآمد نہیں ہے۔ اسی لیے دیہاتی حضرات حفظ ماتقدم کے طور پر ہاتھ میں سوٹا بھی رکھتے ہیں جو مخالفین اور کتوں سے بچائو کے لیے بے حد مفید ہے۔
آج کا مطلع
چار سُو پھیلتی خوشبو کی حفاظت کرنا
اتنا آساں بھی نہیںتجھ سے محبت کرنا