تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     20-02-2017

بیانیہ یا المیہ

انگلستان مغربی جمہوریت کی ماں ہے۔ دولت مشترکہ کے غلام رہنے والے ممالک میں گورننس کے سارے ماڈل اسی ماں کی آغوش کے گرد گھومتے ہیں، ماسوائے جرمنی اور امریکہ کے۔ جرمن چانسلر کا عہدہ ہٹلر والے گریٹ فیورر کے نیشنلزم کا جدید عکس کہہ لیں۔ دوسری جنگ عظیم میں برباد ہونے والے جرمنی کے لئے تعمیر نو کا راستہ یہی تھا، جرمن قوم پرستی کے جذبات۔ امریکہ بہادر اور صدارتی نظام کا ایرانی ماڈل عملی طور پر ایک ہیں۔ ایران میں کونسل آف ایلڈر، امریکہ میں صدر کے لئے الیکٹورل ووٹ۔
حکمرانی کے ان سیلف سٹائل جمہوری ماڈلز میں قدرِ مشترک بھی ہے۔ قومی معاملات پر ریاست و حکومت کا موقف اور بیانیہ ایک ہے۔ ایران سے انگلستان تک اور امریکہ سے ہندوستان تک۔
سوال یہ ہے ہم کہاں کھڑے ہیں؟ آج کی طرزِ حکمرانی پر سب سے بڑا سوالیہ نشان یہی ہے۔ اسے جاننے کے لئے راکٹ سائنس پڑھنا ضروری نہیں۔ سب کچھ قومی منظرنامے کی دیوار پر اشتہاری لفظوں میں لکھا ہے۔ مثلاً حکومت کا فوج کے ساتھ اجلاسوں میں موقف ہے‘ فوجی عدالتیں وقت کا تقاضا ہیں۔ حکومت کے میڈیا پر سیاسی فنکاری کے لئے مخصوص جتھہ کہتا ہے: فوجی عدالتوں کی ضرورت نہیں‘ ہم ان عدالتوں کے پہلے سے مخالف ہیں‘ ثابت ہو گیا فوجی عدالتوں سے قوم کو کچھ نہیں ملا۔ ریکارڈ بتاتا ہے 1997ء میں فوج کی مداخلت کے بغیر بھی فوجی عدالتیں نواز حکومت نے بنائیں۔ یہ الگ بات ہے سپریم کورٹ نے اس حکومت کی پسندیدہ عدالتوں کو لیاقت کیس میں ماورائے آئین کہہ کر کالعدم قرار دیا تھا۔ فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں‘ کیا اس مسئلے پر ریاست و حکومت کا بیانیہ ایک ہے؟ ریاستی اداروں نے بدامنی کی تازہ لہر کے پیشِ نظر طورخم پر بابِ پاکستان بند کر دیا؛ چنانچہ افغانستان سے تشریف لانے والے معزز ''مہمانوں‘‘ کی آمد وقتی طور پر رُک گئی ہے۔ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں کہتی ہیں: افغانوںکی مہمان نوازی میں پاکستان انصاف نہیں کر سکا۔ میں نے پارلیمنٹ میں حکومت کے متعلقہ بڑے سے اس بارے میں سوال کیے۔ جواب تھا: ہم اقوام متحدہ (یو این ایچ سی آر) کے حکم کے پابند ہیں۔ 
عرض کیا کون سی اقوام متحدہ؟ جو کشمیر پر اپنی قراردادوں کی پابند نہیں؟ جس نے مسلمان ملکوں پر بمباری کی قراردادیں پاس کیں‘ مغرب کو قتل و غارت کا لائسنس (License to Kill) دیا؟ وہی اقوامِ متحدہ جس کے صدر دفتر کی ناک کے نیچے ڈی جے ٹرمپ نے گرین کارڈ ہولڈرز کو دھکے مارے؟ وہی اقوام متحدہ جس کی آنکھوں کے سامنے ٹرمپ نے مہاجر امریکہ سے نکال باہر پھینکنے کا ایگزیٹو آرڈر لکھا اور جاری کیا؟ وہی اقوام متحدہ جس کے روبرو شام، عراق، لیبیا، الجیریا اور ایفروعرب ملکوں کے ''مہاجروں‘‘ پر اقوام متحدہ کی اجازت سے کروڑوں ٹن بارود برسایا گیا۔ وہی مہاجر اب آہنی دیوار اور کانٹے دار تار کے پیچھے قید ہیں۔ باپ ایک کیمپ میں، مائیںدوسرے میں اور بچے تیسرے حراستی کیمپ میں بِلک رہے ہیں۔ یہ وہی اقوام متحدہ ہے جو برما کے روہنگیا مسلمانوں کی نسل کُشی پر اونچی سانس تک نہیں لیتی۔ آخرکار، پاکستان اقوام متحدہ کا کیونکر زیر بار ہے کہ وہ اپنی سلامتی کے لئے 36 سال میں پہلا قدم بھی نہیں اٹھا سکتا۔ اس کا جواب تھا‘ ''آپ کو پتہ ہے میں کیا جواب دوں‘‘۔ سرکاری میڈیا اور درباری دانشوروں کی تحریریں پڑھ لیں‘ بھاشن سن لیں۔ جب ان کا مخاطب اپوزیشن ہوتی ہے، تو یہ اسے غدار وطن، یہودیوں کے لابسٹ، واجب القتل، امریکی 
سنڈی، بیمار ذہن، ترقی کا دشمن اور سکیورٹی رسک سے بھی آگے جا کر فتوے جاری کرتے ہیں۔ لیکن دوسری جانب چمن سے تافتان تک، کراچی سے بلتستان تک کہتے ہیں‘ پڑوسیوں سے پیار کرو۔ اشرف غنی سے شروع کرکے نریندر مودی تک پیار۔ حکمران فخر سے قوم کو بتاتے ہیں ساری فوج، آئی ایس آئی، ایم آئی، ایئر انٹیلی جنس، بحری مخابرات چیف ایگزیٹو کے نیچے ہیں۔ بلکہ انصاف اور پارلیمان بھی۔ یہی ادارے خطر ے کی گھنٹی بجا کر ایکشن ایبل معلومات نکالنے کے بعد کہہ رہے ہیں: پاکستان کی زمین پر بیرونی مداخلت کار آئے ہیں۔ خود اندازہ لگا لیجئے کہ ملک کی نیشنل سکیورٹی کہاں کھڑی ہے اور حکومت کا دل کس کے ساتھ دھڑکتا ہے؟ 
باقی رہی بے چاری پاکستانی قوم تو اس کی ڈیوٹی زخم شمار کرنے، حکمرانو ں کے تعزیتی بیان سننے، ہم وطنوں کے جنازے اٹھانے‘ اور بے وجہ بے موت مارے جانے والوں کے نئے قبرستان آباد کرنے پر ہے۔ آئیے ایک اور جگہ چلتے ہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی کا میدان۔ حکومتی مظلوموں کے جمہوری حقوق پر آواز بلند کرنے والے دلیر دیہاڑی دار سرکاری ایما پر کہتے ہیں: فوج فارن پالیسی پر قابض ہے۔ جمہوریت اس میدان کی اسیر‘ پا بہ زنجیر ہے۔ زمینی حقیقت دیکھ لیں۔ بھارت نے ہماری آزادی کے پہلے سال مشرقی بارڈر پر رن آف کچھ میں معرکہ آرائی کی۔ ساتھ ہی پڑوسی مہمانوں نے میران شاہ سے پائوندہ فوج کے ذریعے پاکستان پر مسلح یلغار کر دی۔ مشرقی اور مغربی بارڈر پر یہ ہماری آزادی کا سورج طلوع ہونے کا استقبال تھا۔ آج بھی سوشل میڈیا دلائل اور اطلاعات سے بھرا ہے کہ پاناما کا مقدمہ جونہی فائنل رائونڈ میں گیا‘ کاروباری جمہوریت کے علاقائی ہمدرد حرکت میں آ گئے۔ اس سے پہلے بھی برسرِ اقتدار اشرافیہ کی بد اعمالیوں کے نتیجے میں جب کوئی قومی بحران ابھرا‘ مشرقی بارڈر پر ہمارا قابل بھروسہ دوست مودی چڑھ دوڑا۔ ایل او سی، نارووال، ڈسکہ اور دیگر سرحدی علاقوں میں درجنوں عورتیں، بچے مارے گئے۔ ہزاروں بے گھر ہوئے۔ سینکڑوں گھروں کو بھارتی گولہ باری نے تباہ کر دیا۔ ہو سکتا ہے‘ یہ محض اتفاق ہو۔ محض اتفاق ایک اور بھی ہو سکتا ہے۔ یہ کہ جس دن دوا فروشوں کے جلوس میں دھماکہ ہوا‘ اسی دن پاکستان کے 3 فوجی ایل او سی پر بھارت نے شہید کیے۔ مالکانِ اقتدار نے کسی یتیم کے سر پر ہاتھ رکھا نہ ہی بیوہ کی ڈھارس بندھائی۔ مغموم خاندان کے گھر جا کر فوٹو سیشن کے لئے ہی سہی‘ فاتحہ خوانی نہ کی۔ یہ بھی محض اتفاق ہی ہے کہ وہ بارڈر پر مرنے والے سرحد کے رکھوالوں کی شہادت کو روٹین سمجھتے ہیں۔ ویسے ہی جیسے روٹین سمجھ کر مودی، دشمن انٹیلی جنس ایجنسی را کے سربراہ، پاکستان میں کیمروں کے سامنے دہشت گردی کا اعتراف کرنے والے اجیت دوول۔ لوہے کے ایشیائی بادشاہ جندال سمیت 60 سے زیادہ افراد بغیر ویزہ لاہور آئے بھی‘ گئے بھی۔ علاقائی بیانیہ پر کون کہاں کھڑا ہے؟ آپ فیصلہ کر لیں۔ 
اسے آپ قومی بیانیہ کہیں گے یا ملک کا سب سے بڑا المیہ؟
اُٹھیے! غریب شہر کا لاشہ اٹھائیے
اُٹھتی نہیں یہ خاک! خدارا اٹھائیے
دفنا کے ایک لاش بہت مطمئن ہیں آپ
اک اور آ گئی ہے دوبارہ اٹھائیے
اس شہرِ بے اماں میں بچا ہی نہیں کوئی
رکھیے اب اپنے پاس یہ پُرسہ اٹھائیے
پڑھنے کو بس نمازِ جنازہ ہی رہ گئی
چلیے‘ لپیٹئے‘ یہ مُصّلا اٹھائیے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved