جب ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے لیے ایک ریاست کے قیام کے امکان کا دعویٰ کیا تو اس سے مشرق وسطیٰ کے حالات و واقعات پر نظر رکھنے والوں کو حیرت نہ ہوئی۔ نئے امریکی صدر کی اسرائیل کے ساتھ طویل عرصے سے گہری ہمدردی کا اظہار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، اور اُن کے داماد اور اب سینئر مشیر، جیراڈ کشنر بھی صہیونیت کے حامی ہیں۔ اُنھوں نے طویل عرصہ اسرائیل میں بسر کیا۔ جب ٹرمپ نے یہ اعلان کیا تو اُن کے ساتھ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کھڑے تھے، اور ٹرمپ اُنہیں اپنا پرانا دوست قرار دیتے ہیں۔ اگرچہ پہلے پہل امریکہ نے ایک ریاست کے قیام کے منصوبے کو مسترد کر دیا تھا‘ پھر بھی اس کے قیام کی پالیسی کچھ عرصہ سے غیر روایتی چینلز میں ہونے والی بحث کا حصہ رہی تھی۔ اسرائیل کے دائیں بازو کے انتہا پسند حلقے اس کی پُرزور وکالت کر رہے تھے۔ حتیٰ کہ عملیت پسند فلسطینی بھی اپنی الگ ریاست کے لیے طویل لیکن لاحاصل جدوجہد اور اپنی زمینوں پر اسرائیلی بستیوں کی نہ ختم ہونے والی تعمیر کا سلسلہ دیکھتے ہوئے کم از کم اس بات پر قانع دکھائی دیتے تھے کہ وہ قابض یہودیوں کے ساتھ ایک ریاست کے اندر مل کر رہ لیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ اس ریاست کے خدوخال کیا ہوں گے؟ ظاہر ہے کہ فلسطینی مساوی حقوق کا مطالبہ کریں گے، لیکن ایسا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ آبادی کے بدلتے ہوئے خدوخال کو دیکھیں تو 2020ء میں اسرائیل، مغربی کنارے اور غزہ میں فلسطینیوں کی تعداد یہودیوں سے بڑھ جائے گی۔ اس کی وجہ فلسطینیوںکی آبادی میں زیادہ تیزی سے ہونے والا اضافہ ہے۔ آج اسرائیلی اسمبلی میں کسی فلسطینی رکن کو بمشکل ہی برداشت کیا جاتا ہے، لیکن اگر آبادی میں اضافے کی وجہ سے اُن کے ارکان کی تعداد گریٹر اسرائیل میں بڑھ جاتی ہے‘ تو طاقت کا توازن بدل جائے گا۔ سب سے اہم بات یہ کہ اسرائیل کی بطور ایک یہودی ریاست شناخت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تبدیل ہو جائے گی‘ اور یہ چیز حتیٰ کہ روادار اور لبرل اسرائیلیوں، جن کی تعداد بہت زیادہ نہیں، کے لیے بھی قابل قبول نہ ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ اس حل کی وکالت کرنے والے اسرائیلیوں کا کہنا ہے کہ اس ریاست میں فلسطینی رہ سکیں گے‘ لیکن اُنہیں ووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہیں ہو گا۔
یہودی ہوم پارٹی کے رہنما نفتالی بینٹ کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کو اس ریاست میں 'ذاتی حقوق‘ حاصل ہوں گے نہ کہ 'قومی حقوق‘۔ اس طرح وہ قومی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے حق سے محروم ہوں گے۔ مسٹر بینٹ کا موقف ہے کہ فلسطینیوں کے پاس پہلے ہی ایک ''ریاست‘‘ غزہ ہے، حالانکہ یہ چھوٹی سی پٹی سترہ لاکھ افراد کا انتہائی تنگ مسکن ہے، اور اس کی اسرائیل نے ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ انہیں کھلے سمندر تک رسائی کی بھی اجازت نہیں۔ اُنھوں نے یروشلم فارن پریس ایسوسی ایشن سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ کی فتح پر خوشی کا اظہار کیا۔۔۔ ''اب ہمارے پاس مشرقِ وسطیٰ کے خدوخال میں تبدیلی لانے کا موقع ہے۔ ہم اس موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے‘‘۔ مسٹر بینٹ وہی سیاست دان ہیں جنہوں نے صدر ٹرمپ کی فتح کی خبر سنتے ہی اعلان کیا تھا۔۔۔ ''فلسطینی ریاست قائم کرنے کا عہد تمام ہوا‘‘۔
عشروں سے مغربی کنارے کے آر پار نئی بستیوں کی تعمیر نے فلسطینی ریاست کا قیام ویسے بھی عملی طور پر ناممکن بنا دیا ہے۔ حفاظتی دیوار کے اندر قائم کردہ نئی بستیوں میں چھ لاکھ سے زیادہ یہودی آبادکار رہتے ہیں؛ چنانچہ وہ کسی بھی ''پُرامن معاہدے‘‘ کی راہ میں ایک بہت بڑی سیاست رکاوٹ بھی ہیں۔ واحد امریکی صدر، جنہوں نے اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کی سرزمین پر قبضہ کرنے کی مزاحمت کی، وہ سینئر جارج بش تھے‘ جنہوں نے تعمیر کے لیے مالی گارنٹی روک لی تھی۔ اُن کے دوسری مدت کے انتخابات میں شکست کھانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔ اب چونکہ امریکہ فلسطینیوں کی الگ ریاست کے قیام کے بیان سے پیچھے ہٹ چکا ہے، اس لیے فلسطینیوں کی تمام امیدیں دم توڑ چکی ہیں۔ اب وہ شاید ہی کبھی اسرائیلیوں سے اپنی زمین واپس لے سکیں۔ اس کے علاوہ عرب ریاستیں بھی فلسیطین کی حمایت سے کنارہ کشی اختیار کر چکی ہیں۔ ایک اہم عرب ریاست نے ایران کی مخالفت کے جنون میں اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے؛ چنانچہ مسلم ریاستوں سے مایوس ہو کر اب فلسطینی مالی اور سیاسی مدد کے لیے یورپی یونین سے رجوع کرتے ہیں۔ ٹرمپ کے وائٹ ہائوس میں آنے سے پہلے بھی کئی ایک ادوار کی انتظامیہ کی پشت پناہی سے اسرائیل امن کی راہ سے گریزاں رہا۔ اپنے تمام تر بیانات کے باوجود صدر اوباما نے اسرائیل کی کسی بھی امریکی صدر سے زیادہ فوجی امداد کی۔ اُنھوں نے اپنی مدت کے آخری ایام میں اگلے دس سال کے لیے 38 بلین ڈالر پیکج کا اعلان کیا۔ یہ اسرائیل کو ملنے والا سب سے بڑا پیکیج ہے۔ یہ درست ہے کہ صدر اوباما نے اسرائیل کی آباد کاری کو غیر قانونی قرار دینے کے لیے یو این سکیورٹی میں ہونے والی رائے شماری سے گریز کیا (گویا اسرائیل کی حمایت میں ووٹ نہ ڈالا)، پھر اسرائیل نے یو این کی متعدد قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی کی ہے؛ چنانچہ صدر اوباما کے علامتی گریز سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
اس سے پہلے ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کے خواہش مند ہیں؛ تاہم اس بیان پر بھی عرب دنیا کی طرف سے کوئی رد ِعمل نہ آیا؛ چنانچہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ حالیہ پول سرویز کے مطابق نوجوان عربوں کو فلسطینیوں سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ جب عرب دنیا کا یہ حال ہے تو امریکی یا مغربی معاشروںسے گلہ کیسا؟ 62 فیصد امریکی فلسطینیوں سے زیادہ اسرائیلیوں کے حامی ہیں۔ دراصل فلسطینیوں نے اپنی ریاست کے قیام کا موقع 1999ء میں کیمپ ڈیوڈ میں گنوا دیا تھا۔ وہ صدر کلنٹن کی صدارت کے آخری ایام تھے۔ اگرچہ اُس وقت یاسر عرفات کو پیش کی جانے والی ڈیل کسی طور مثالی نہیں تھی‘ لیکن وہ کم از کم موجودہ صورت حال سے کہیں بہتر تھی۔ اب صدر ٹرمپ نیتن یاہو کی مرضی کو ہی ملحوظ خاطر رکھیں گے۔ اس سال عرب افواج کو اسرائیل کے ہاتھوں شکست کے پچاس سال مکمل ہو رہے ہیں۔ اب تک مغربی کنارہ اور غزہ اسرائیلیوں کے گھیرے میں ہیں؛ چنانچہ عرب دنیا جہاں دیگر معاملات میں الجھی ہوئی ہے، اسرائیل کے پاس جشن منانے کے لیے بہت کچھ ہے۔