تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     21-02-2017

بہت کام رفو کا نکلا

افراد ہوں یا اقوام مایوسی میں پست ہو جانے اور‘ خود ترسی کا شکار ہونے والوں کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ زندگی تگ و تازہے۔ یہ کشمکش ہے اور سعی و کاوش ہے۔ ؎
گریز کشمکشِ زندگی سے مردوں کا
شکست نہیں ہے تو اور کیا ہے شکست
پنجاب میں رینجرز تعینات کرنے کا فیصلہ ہوا‘ اسلام آباد میں ججوں کے لیے الگ فورس بنائی جائے گی۔ سندھ‘ بلوچستان سرحد کی نگرانی کے لئے دستے تشکیل پائیں گے۔ تو جناب! اس طرح کیا دہشت گردی تمام ہو جائے گی۔ ؎
مصحفیؔ ہم تو سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
اتنی بہت سی غیر مرتب کاوشوں کی بجائے‘ خود پولیس کی اصلاح کیوں نہیں؟ المیہ سہون شریف کے بعد خورشید شاہ اور بلاول بھٹو چلاّئے ہیں کہ نیشنل ایکشن پلان پہ عمل نہیں ہو رہا۔ 
مزار کے حادثے کا وفاقی حکومت سے کیا تعلق؟ ایک پولیس افسر چار پانچ سال سے ڈٹا ہوا تھا‘ زرداری صاحب اس کے مربّی تھے۔ کرپشن کے سنگین الزامات تھے۔ دوسری چیزوں کے علاوہ مزار خود ایک خزانہ ہے۔ دس عدد کانسٹیبلوں کی ڈیوٹی رہا کرتی۔ کہا گیا کہ ایک دو کے سوا‘ اکثر گھروں کو چلے جاتے۔ ظاہر ہے کہ اس کی مرضی و منشا سے۔ 
عرس پہ خصوصی انتظامات ضروری تھے جو بالکل نہ کئے گئے۔ سارے صوبوں میں مزارات پر حملے ہو چکے۔ تین ماہ قبل بلوچستان کے ایک دور دراز مقام پر بھی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ تمام اکائیوں میں پانچ سات سو افراد پر مشتمل خاص طور پر تربیت یافتہ لوگ‘ مذہبی تقریبات اور سیاسی اجتماعات کے لئے مقرر کیے جاتے۔ جہاں جتنے لوگوں کی ضرورت ہوتی‘ بھیج دیے جاتے۔
آئی ایس آئی‘ فوج اور رینجرز اپنی جگہ۔ ان کی کارکردگی بہتر بنانے اور ان اداروں کو زیادہ فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ ایجنسیوں میں باہمی ربط اور اعلیٰ سطح پر معلومات کو یکجا (Synchronize) کرنے کی بھی۔ اس کا مطلب مگر یہ کیسے ہوا کہ پولیس‘ سپیشل برانچ اور انٹلی جنس بیورو والے غافل ہو جائیں یا دستبردار۔
نیشنل ایکشن پلان پر عمل ہونا چاہیے۔ نیکٹا کو پوری طرح فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر پولیس اور اس کا خفیہ شعبہ بے نیاز رہے گا تو فوج‘ رینجرز اور عسکری ایجنسیاں تمام بوجھ کیسے اٹھا سکیں گی۔ خفیہ ادارے ملک کی پہلی دفاعی لائن ہوتے ہیں۔ ان کی کمزوری‘ نااہلی اور غفلت کا مطلب یہ ہے کہ دشمن کو آزادی سے پہلا قدم اٹھانے کی اجازت ہے۔ کسی ریاضت‘ رکاوٹ اور مشکل کے بغیر پہلا مرحلہ طے وہ کر لے گا۔ الزام یہ ہے کہ سہون شریف میں اس روز دو پولیس والے تعینات تھے؟ ان کی جو گاڑی مزار کے مقابل کھڑی تھی‘ اس میں الکحل پڑا تھا۔ ہجوم نے جسے نذرِ آتش کر دیا۔
ملک کا جاگیردارانہ ڈھانچہ‘ اثر و رسوخ کے لئے پاگل ہوتے مقامی لیڈر‘ ایم پی اے اور ایم این اے‘ سندھ اور پنجاب کے شاہی خاندانوں کو ایسی پولیس سازگار ہے‘ ان کے اشارہء ابرو پہ جو حرکت میں آئے۔ طارق ولایت کو طویل عرصے تک مہلت عمل دینے کا سبب یہی تھا؛ حالانکہ بار بار شکایت کی جاتی رہی۔ اس صوبے میں‘ جہاں اس سطح کے افسر چند ہفتے نہیں تو چند ماہ بعد تبدیل کر دیے جاتے ہیں۔ اس درازی کا سبب یہ تھا کہ زرداری خاندان کو اس کی ضرورت تھی۔ شاید اب بھی کوئی نوٹس نہ لیتا‘ اگر واویلا نہ کیا جاتا۔ اگلے روز تصدیق ہو گئی بادی النظر میں الزامات درست ہیں۔ اگلی شام وہ الگ کر دیا گیا۔ کیا یہ کافی ہے؟ المیہ یہ ہے کہ ایسی ہی شہرت کے دوسرے افسر کو وہاں تعینات کر دیا گیا ہے۔ خورشید شاہ اور بلاول بھٹو کو زیب دیتا ہے کہ اس کا جرم چھپانے کی کوشش کریں؟ چوہدری نثار علی خان پہ چڑھ دوڑیں اور ان کی کردار کشی کریں؟ وفاق اور صوبے کے تعلقات خراب کریں؟ چوہدری نثار علی خان کے ماتحت اداروں میں اگر خرابی ہے تو احتجاج برحق مگر اس پر سیاست کا مطلب کیا؟ زرداری خاندان اور فدائین کے طرزِ عمل سے انتقام کی بُو آتی ہے۔ مان لیا کہ نیکٹا نالائق اور ناکام ہے۔ وفاقی حکومت اپنے فرائض عزم اور خوبی سے ادا نہ کر سکی۔ آپ نے کیا کیا؟ ؎
سودا قمارِ عشق میں خسرو سے کوہکن
بازی اگرچہ پا نہ سکا سر تو دے سکا
کہتا ہے اپنے آپ کو کس منہ سے عشق باز
اے رو سیاہ تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا
بلوچستان کے ریگستانوں‘ سیاچن کی برفانی بلندیوں اور‘ وزیرستان کے کوہساروں سے لے کر کراچی کے کوچہ و بازار تک فوجی جوانوں اور افسروں کا لہو بکھرا پڑا ہے۔ اگر کوئی اندھا نہ ہو گیا ہو تو جیتا جاگتا خون‘ ان کی بیوائوں اور یتیم بچوں کا لہو یاد دلاتا رہتا ہے کہ اپنا آج انہوں نے ہمارے کل پر قربان کر دیا۔ بے شک پولیس والے بھی قربان ہوئے۔ پختونخوا کے آئی جی ناصر درانی نے ٹھیک کہا کہ پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان سے بڑھ کر۔ ان قربانیوں کا اتنا اعتراف تو مگر ہوا کہ سیاست کے جبڑوں سے پختونخوا پولیس آزاد کر دی گئی۔ برسبیل تذکرہ سادہ اطوار درّانی اگرچہ مخلص اور دیانت دار‘ صاف ستھرے‘ اجلے اور متحمل مزاج ہیں۔ ان کا شمار لیکن غیر معمولی صلاحیت کے لوگوں میں کبھی نہ کیا گیا۔ اس کے باوجود جہاں کہیں وہ گئے‘ جرائم کم ہوئے اور پولیس کو نیک نامی نصیب ہوئی۔ خلقِ خدا کی دعائیں انہوں نے سمیٹیں۔ قانون کے دائرے میں پختون خوا پولیس آزاد ہو سکتی ہے تو دوسرے صوبوں میں کیوں نہیں؟ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے میاں محمد نواز شریف اس عمل کا آغاز کر سکتے ہیں۔ اتفاق سے آزاد کشمیر کا انسپکٹر جنرل پولیس بشیر میمن بھی ایک قابلِ اعتماد اور غیر سیاسی آدمی ہے۔ سندھ میں جب تک رہا زرداری صاحب کا معتوب رہا۔ شاید اسی لیے آزاد کشمیر کے الیکشن سے قبل میاں صاحب نے یہ منصب اسے سونپا۔ اس نے بتایا کہ صدیوں سے خاندان میں رحمۃ اللعالمینؐ کا موئے مبارک چلا آتا ہے۔ ایک حیران کن انکشاف کیا کہ یہ بڑھتا رہتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ شرافت‘ انکسار اور صبر نے اسے سرخرو اور سرسبز کیا۔ جو کچھ انہوں نے کہا‘ ملخّص اس کا یہ ہے کہ سرکارؐ کی ایک یادگار کے سبب مجھے حیا آتی تھی کہ نوکری کے لیے کوئی ادنیٰ حرکت کروں۔ حجاز مقدس چلا گیا‘ وہیں التجا کی اور لوٹا تو وزیر اعظم نے یاد کیا۔ کہا کہ‘ انہوں نے پیشکش کی تو مجھے یقین ہی نہ آتا تھا۔ کس طرح بھی ہو احساس اور درد مندی درکار ہے۔ سرکارؐ کے فرامین میں سے ایک یہ ہے: ''بے شرم اپنی مرضی کرے‘‘ احساس رخصت ہو جائے تو زندگی بانجھ ہو جاتی ہے۔ اساطیری شاعر‘ میاں محمد بخش نے کہا تھا: کیکر کی شاخوں میں الجھی دھجیوںکی طرح۔ 
ایک سے ایک نیا ادارہ بن رہا ہے۔ پہلے سے جو موجود ہیں‘ انہیں کیوں فعال نہیں کیا جا سکتا؟ سہون شریف کے سانحے پر زرداری صاحب کو یہ ناچیز ذمہ دار سمجھتا ہے۔ نیکٹا پر بعض اعتراضات مگر درست ہیں۔ آج تک اس کے بورڈ آف گورنرز کا اجلاس نہیں ہوا۔ چار سو ملازمین چاہئیں‘ ابھی تک فقط ایک سو ہیں۔ نئے فیصلوں میں سے ایک انٹلی جنس کے ایک مشترکہ ادارے کا قیام ہے۔ Joint Directorate of Intelligence
پنجابی کا ایک محاورہ یہ ہے ''اگاّ دوڑ تے پچھا چوڑ‘‘۔ دوسرا یہ کہ سو گز رسی اور سرے پر گانٹھ‘ سانحہ لاہور اور سانحہ سہون کے بعد حکومتوں اور افواج نے جو کچھ کیا‘ ردعمل اور رنج میں‘ اس پر کوئی خاص اعتراض بھی نہیں۔ دشمن کو بتانا ہی چاہیے تھا کہ ہم زندہ ہیں۔ ثمر خیز ہونے والی پائیدار اور دیرپا حکمت عملی مگر اس طرح تشکیل نہیں دی جاتی۔ سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاک افغان سرحد اور انسدادِ دہشت گردی کے لیے افغانستان سے تعاون کا جس انداز میں ذکر کیا ‘کچھ امید اس سے بندھی ہے۔ فیصلے ہیجان میں صادر نہیں کیے جاتے‘ برہمی اور اشتعال میں نہیں بلکہ تحمل و تدبر کے ساتھ‘ غور و خوض کے ساتھ۔ اللہ کی کتاب میں ارشاد یہ ہے: کسی پر بھی اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا۔ سرکارؐ کے ایک فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ اخلاص سے کی جانے والی ہر کوشش لازماً سرخرو ہوتی ہے تاریخ کا سبق یہ ہے کہ بحرانوں میں مواقع چھپے ہوتے ہیں۔
افراد ہوں یا اقوام مایوسی میں پست ہو جانے اور‘ خود ترسی کا شکار ہونے والوں کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ زندگی تگ و تاز ہے۔ یہ کشمکش ہے اور سعی و کاوش ہے۔ ؎
گریز کشمکشِ زندگی سے مردوں کا
شکست نہیں ہے تو اور کیا ہے شکست

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved