اوورسیز پاکستانی ملکی معیشت میں
ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ نواز شریف
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''اوور سیز پاکستانی ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی ہیں‘‘ کیونکہ جب میں نے 'قرض اتارو‘ ملک سنوارو‘ کے ضمن میں ان سے مدد کی درخواست کی تھی تو انہوں نے چھپرّ پھاڑ کر پیسے بھیجے تھے‘ جن کا حساب کتاب اس لیے نہیں رکھا گیا تھا کہ یہ تحفہ تھا اور تحفوں کا حساب دل کے اندر ہی رکھا جاتا ہے‘ جیسا کہ ایک عرب ملک کی طرف سے بھجوائے گئے 5ارب روپوں کا حساب دل کے اندر ہی موجود ہے‘ چنانچہ ان مہربانوں سے گزارش ہے کہ ملک تو کافی سنور چکا ہے البتہ قرضے کی مقدار بہت بڑھ گئی ہے حالانکہ ہم کافی کفایت شعاری سے کام لے رہے ہیں اگرچہ آئی ڈی پیز کو کئی ارب روپے فالتو بھی ادا کر دیے گئے جن سے واپسی کا مطالبہ کرنا اخلاقی طور پر اچھا نہیں لگتا اگرچہ پاناما کیس سے ہماری اخلاقی پوزیشن کو معمولی نقصان پہنچا ہے‘ چنانچہ اوورسیز پاکستانیوں سے التماس ہے کہ حسبِ سابق مہربانی فرماتے رہیں اور میں جدّہ یا جہاں بھی ہوں‘ میرے اکائونٹ کو سرفراز کرتے رہیں۔ آپ اگلے روز لندن میں او پی ایف کے چیئرمین سے ملاقات کر رہے تھے۔
حافظ سعید معاشرے کے لیے خطرے
کا باعث بن سکتے تھے۔خواجہ آصف
وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ''حافظ سعید معاشرے کے لیے خطرہ بن سکتے تھے‘‘ اور اس پر نریندر مودی صاحب نے بھی کافی زور دیا تھا کیونکہ پاکستانی معاشرے کے ٹھیک رہنے کی سب سے زیادہ فکر انہی کو رہتی ہے چنانچہ ان کا فون آنا تھا ۔حافظ سعید کی نظر بندی کے احکامات صادر کر دیئے گئے جس کی امریکہ نے بھی بہت تعریف کی ہے کیونکہ بھارت کے بعد ہمارے معاشرے کی سب سے زیادہ فکر امریکہ ہی کو رہتی ہے اور اگر یہ مہربان ہمیں آگاہ کرنے میں ذرا سی بھی سستی یا تاخیر سے کام لیتے تو ہمارا معاشرہ کب کا تتر بتر ہو چکا ہوتا‘ آپ اگلے روز میونخ میں ایک اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔
مشرف دور میں ملک پر دہشت
گردی مسلط کی گئی۔ رانا ثناء اللہ
وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ ''مشرف کے دور میں ملک پر دہشت گردی مسلط کی گئی ‘‘ اور ان میں جو اچھے لوگ تھے ان کے ساتھ ہم نے پورا پورا تعاون کیا جبکہ وہ بھی ہمارے ساتھ الیکشن میں بے مثال تعاون پیش کر چکے تھے اور اسی لیے ہم نے پنجاب میں رینجرز کی تعیناتی کی ہمیشہ مخالفت کی جس سے اب سینے پر پتھر رکھ کر درگزر کیا جا رہا ہے لیکن انہیں زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ شہری علاقوں میں انہیں آپریشن کا اختیار نہیں دیا گیا۔ اس لیے ان حضرات کو چاہیے کہ دیہاتی علاقوں سے ترکِ سکونت کر کے شہروں میں تشریف لے آئیں۔ جب یہ آپریشن دیہات میں مکمل ہو گیا اور انہیں شہروں میں کارروائی کے لیے کہنے کے لیے مجبور ہونا پڑا تو یہ معززین واپس دیہات میں تشریف لے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف سخت ایکشن لیا جا رہا ہے‘‘ اس لیے وہ ذرا ادھر ادھر ہو جائیں کیونکہ جان بچانا فرض ہے جبکہ دوسروں کی جان بچانا بھی کار ثواب سے کم نہیں ہے انہوں نے کہا کہ ''پانامہ کیس میں جو بھی فیصلہ آیا تسلیم کریں گے‘‘ اورہم ہر طرح کی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں جبکہ وزیر اعلیٰ صاحب نے دیگیں پکوانے کا ایڈوانس بھی احتیاطاً دے دیا ہے اور اس ضمن میں جانبازوں کی بھی ڈیوٹی لگا دی گئی ہے اور امید ہے کہ ماضی اپنے آپ کو خوب اچھی طرح دہرائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''مخالفین کی منفی سیاست ہمارے عزم کو پست نہیں کر سکتی‘‘ چنانچہ اس کے لیے انہیں مثبت سیاست سے کام لینا ہو گا جیسا کہ ہم جان پر کھیل جانے کا ارادہ رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ اس میں حسب سابق کامیابی عطا فرمائے‘ آمین ثم آمین۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر دہشت گردی
کا خاتمہ کریں گے۔ بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''وفاقی حکومت کے ساتھ مل کر دہشت گردی کا مقابلہ کریں گے‘‘ کیونکہ والد صاحب کا بھی یہی خیال ہے کہ حکومت کے ساتھ مل کر ہی حکومت کو ناکوں چنے چبوائے جا سکتے ہیں جو کہ باہر سے آتے ہی انہوں نے یہ قیمتی ہدایت جاری فرمائی ہے اور اپنے چار نکات پر زور دینے سے بھی منع کر دیا ہے کیونکہ حکومت کو ٹف ٹائم دینا ہی ہماری اولین ترجیح ہے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ حکومت جو آئے دن اپنی ترجیحات کا اعلان کرتی رہتی ہے تو ہم اس سے پیچھے کیوں رہیں‘ اور ‘ اس سنہری موقع کو حاصل کرنے کے لیے ہم نے حکومت کے خلاف ریلی وغیرہ نکالنے کا فیصلہ بھی منسوخ کر دیا ہے کیونکہ حکومت کے ساتھ تعاون کرنا بھی اسے شرمندہ کرنے کے مترادف ہے چنانچہ امید ہے کہ وہ بہت جلد شرم سے پانی پانی ہو جائے گی اور اس طرح ملک میں پانی کی کمی کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ آپ اگلے روز نواب شاہ میں میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔
پنجاب میں دہشت گردوں کی نرسریاں ہیں۔ خورشید علی شاہ
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید علی شاہ نے کہا کہ ''پنجاب میں دہشت گردوں کی نرسریاں ہیں‘‘ اور یہ بات ہمیں معلوم تو شروع سے ہی تھی لیکن محض وضعداری آڑے آ رہی تھی جس کی وجہ سے اس کا انکشاف نہیں کیا گیا‘ اور اب جبکہ حکومت ڈاکٹر عاصم حسین کی بھی جان چھوڑنے کو تیار نہیں اور بیچاری ایان علی کو بھی خواہ مخواہ پریشان کیا جا رہا ہے اور اسی طرح حکومت نے آصف علی زرداری صاحب کے جذبات کا بھی کوئی خیال نہیں رکھا تو ہم خواہ مخواہ وضعداری کا مظاہرہ کیوں کرتے رہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''حکومت کالعدم تنظیموں سے مذاکرات کر رہی ہے‘‘ اور اس کا ارتکاب بھی شروع ہی سے کیا جا رہا ہے اور بالآخر مجبور ہو کر ہمیں بھی اس کے خلاف بیان دینا پڑا ہے۔ اگرچہ زرداری صاحب نے حکومت پر ہاتھ ہولا رکھنے کی ہدایت کی ہے چنانچہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا رویہ بھی حکومت کے خلاف کافی تبدیل ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا ''دہشت گردی کے پیچھے ملوث عناصر کا پتا لگانا ہو گا''حالانکہ حکومت سے زیادہ باخبر اس سلسلے میں کوئی بھی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''لوگوں میں خوف و ہراس پھیلایا جا رہا ہے کہ وہ مسجدوں سکولوں اور دفاتر میں نہ جائیں‘‘ حالانکہ وہ پہلے ہی کافی خوفزدہ ہیں اور اقتدار میں ہماری واپسی کا شدت سے انتظار کر رہے ہیں کیونکہ وہ یوسف رضا گیلانی‘ راجہ پرویز اشرف‘ رحمن ملک اور دیگر معززین کی خدمات کو یاد کر کے آنسو بہاتے رہتے ہیں۔ آپ اگلے روز سکھر میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
آج کا مطلع
ساتھ رکھنا تھا جسے اُس کو جدا رہنے دیا
دل کے اندر ہی محبت کو پڑا رہنے دیا