یہ کائنات عجوبات سے بھری پڑی ہے۔ ہر عجوبہ اللہ کی ربوبیت کا پتا دیتا ہے۔ انسان تمنائیں اور آرزوئیں پالتا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے فیصلے صادر فرماتا ہے، جو اٹل ہوتے ہیں۔ ہر فیصلے میں اللہ تعالیٰ کی اپنی حکمتیں ہوتی ہیں۔ بندے کا علم بہت محدود ہے۔ وہ قادرِ مطلق جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے اور وہ جو نہ چاہے وہ کبھی نہیں ہوسکتا۔ اس نے اپنے سب سے محبوب بندے اور سیدالمرسلین، شافع محشر اور حاملِ مقامِ محمود کو اس حال میں دنیا میں بھیجا کہ آمد سے قبل والد شفیق کا سایہ سر سے اٹھ چکا تھا۔ پھر چھ سال کی عمر میں اپنے محبوب کو والدہ کی مامتا سے بھی محروم کردیا۔ وہ ان سے بہت بڑا کام لینا چاہتا تھا، اسی لیے ان کو آزمائشوں میں ڈال کر کندن بنایا۔ دادا کی شفقت بہت بڑا سہارا تھی۔ عبدالمطلب نے اپنے بیٹے بیٹیوں میں سے بھی کسی کے ساتھ اتنی محبت نہیں کی تھی، جتنی اپنے اس یتیم پوتے کے ساتھ کی۔ وہ ان کی خوراک، لباس اور راحت ونیند کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ سب لوگ یہ دیکھ کر حیرت میں ڈوب جاتے۔
عبدالمطلب کا زندگی بھر کا معمول تھا کہ سونے کے وقت میں کوئی ان کی خواب گاہ کے اندر نہیں آسکتا تھا، نہ ہی کوئی ان کے بستر پر بیٹھنے کی جرأت رکھتا تھا۔ اب ننھا محمدؐ نہ صرف ان کی خواب گاہ کے اندر جاسکتا تھا بلکہ اپنے اس پوتے کے بغیر وہ خواب گاہ سردار قریش کو گوارا ہی نہ تھی۔ وہ اپنے سارے معمولات کو ترک کرکے آنحضورؐ کو اپنے ساتھ سلاتے اور ان کی ہر خواہش پوری کرتے۔ آنحضورؐ کے پچپن میں بعض حیران کن واقعات پیش آئے۔ انھی میں سے ایک واقعہ سیرت نگاروں نے لکھا۔ اس کے مطابق بنو مدلج کے لوگ کھوج لگانے کے ماہر تھے۔ جس شخص کا پاؤں ایک بار بھی دیکھا ہوتا زمین پر اس کے نقوش پا دیکھ کر وہ فوراً پہچان لیتے تھے کہ یہ اسی کے نقوش ہیں۔ ایک مرتبہ یہ لوگ مکہ میں آئے تو انھوں نے عبدالمطلب سے ملاقات کے دوران کہا: اپنے اس بچے کی بہت حفاظت کرنا کیونکہ یہ عام بچہ نہیں ہے۔ اس کے قدم سے زیادہ مقام ابرہیم پہ لگے قدم سے مشابہ کسی شخض کا قدم ہم نے کبھی نہیں دیکھا۔ (طبقات ابن سعد، ج1، ص118)
عبدالمطلب نے اس موقع پر اپنے بیٹے ابوطالب کو خصوصی طور پر متوجہ کیا اور فرمایا: اے میرے بیٹے سن! یہ لوگ کیا کہتے ہیں؟ یعنی اگر تمھیں اپنے بھتیجے کی حفاظت کرنا پڑے تو یہ بات ذہن میں رکھنا کہ یہ اللہ کا خاص بندہ ہے، جس کا نشانِ پا ہمارے جد امجد ابراہیم ؑکے قدم کی تصویر ہے۔ عبدالمطلب نے ایک مرتبہ آنحضورؐ کی خادمہ ام ایمن کو خصوصی طور پر متوجہ کرتے ہوئے فرمایا: اے برکہ! کبھی بھی میرے بیٹے کی دیکھ بھال میں غفلت نہ کرنا۔ میں نے اسے چند لڑکوں کے ساتھ فلاں بیری کے درخت کے پاس پایا ہے اور اہلِ کتاب کا یہ خیال ہے کہ میرا یہی بیٹا اس امت کا نبی ہے۔ [اس بنیاد پر وہ حسد وبغض میں کہیں اسے نقصان نہ پہنچائیں]۔ عبدالمطلب کھانے کے دسترخوان پر بیٹھتے تو اپنے پوتے کو اپنے ساتھ بٹھاتے۔ کبھی ایسا ہوجاتا کہ آنحضورؐ کہیں کھیلنے کودنے نکل جاتے تو جب تک آپؐ آنہ جاتے، وہ کھانا تناول نہ فرماتے۔ ایسے موقع پر وہ کہا کرتے: علیّ بابنی، علیّ بابنی یعنی میرے بیٹے کو میرے پاس لے کر آؤ، میرے بیٹے کو میرے پاس لے آؤ۔
عبدالمطلب کافی عمر رسیدہ تھے۔ آنحضور ؐ کی عمر مبارک آٹھ سال ہوئی تو آپ کے دادا کا آخری وقت آگیا۔ آخری وقت میں اپنے تمام اہل وعیال کو آنحضورؐ کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت فرمائی۔ خصوصی طور پر ابوطالب کو مخاطب کرکے کہا اب میرا بیٹا تمھاری تحویل اور کفالت میں ہوگا، اس کا خاص خیال رکھنا۔ آنحضورؐ بھی اس موقع پر موجود تھے۔ آپ اپنے چچاؤں اورپھوپھیوں کی طرح غم سے نڈھال ہوگئے۔ عبدالمطلب کے آخری لمحات میں ان کی سب بیٹیوں نے ان کے سامنے ان کی جدائی کے احساس سے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے منظوم بین کیے۔ اسے مرثیہ بھی کہا جاسکتا ہے۔
عبدالمطلب سب کا کلام سنتے رہے۔ جب ان کی بیٹی امیمہ نے اپنے جذبات کا اظہار کیا تو عبدالمطلب کی آنکھیں بند ہوچکی تھیں، زبان بھی نہ ہل سکتی تھی، مگر ابھی تک زندہ تھے اور ہوش میں تھے۔ نقاہت کی وجہ سے اپنے سر کو آہستہ آہستہ جنبش دے کر اپنی بیٹی کے اشعار کی تائید کی۔ یہ اشعار سنتے سنتے ہی ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ان اشعار کا ترجمہ یہ ہے:
''اے میری آنکھو! آج خوب آنسو بہاؤ۔ اس شخص پر اشکبار ہوجاؤ جو اعلیٰ اخلاق وعادات کا مالک اور جُود وفیاضی میں بے مثل تھا۔
اس پر جو بڑی شان وشوکت کا مالک اور بڑے نصیبے والا تھا۔ ضرورت مندوں کا سرپرست، خوب صورت اور عالی مرتبت تھا۔
آنسو بہاؤ صاحبِ کرامت شیبۃ الحمد پر، خوب رواس پر کہ جس کی بزرگی و عزت اور افتخار معروف ومسلّم ہے۔
اس کی جدائی میں آنسو بہاؤ جو مشکلات ومصائب میں مکمل صبرو تحمل کے ساتھ اپنی فضیلت کا اظہار کرتا تھا۔وہ کہ جس کی ذات میں کثرت کے ساتھ خوبیاں پائی جاتی تھیں اور جو قابل فخر تھا۔
اپنی ساری قوم پر اسے ایسی فضیلت وفوقیت حاصل تھی، جیسے [ستاروں کے درمیان] چاند کے نور میں واضح نظر آتی ہے۔
یہ ساری خوبیاں بلاشبہ اس میں جمع تھیں، مگر گردشِ لیل ونہار اور تقدیر کے اٹل فیصلے سے کوئی چیز اس عظیم شخص کو نہ بچا سکی‘‘۔
عبدالمطلب کے انتقال پر پورے مکے میں اداسی چھا گئی۔ انھوں نے بیاسی سال کی عمر میں وفات پائی۔ ایک اور روایت میں ان کی عمر110سال بیان کی گئی ہے۔ اس تفاوت کی وجہ معلوم نہیں ہوسکی۔ ان کا جنازہ اٹھا تو ایک مجمع اس کے ساتھ تھا۔ مکہ کے باہر حجون کے مقام پر ان کو دفن کیا گیا۔ بعض لوگوں کے خیال میں اب تک ان کی قبر وہاں موجود ہے، مگر یہ محض قیاس آرائی معلوم ہوتی ہے۔ واللہ اعلم! ام ایمن بیان کیا کرتی تھیں کہ میں نے اس روز رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ وہ عبدالمطلب کے تابوت کی روانگی کے وقت زاروقطار روئے، پھر جنازے کے ساتھ تابوت کے پیچھے پیچھے چلے، اس وقت بھی آپ مسلسل رو رہے تھے۔ رسول اللہ ؐ سے کسی نے ایک مرتبہ دریافت کیا کہ کیا آپ کو عبدالمطلب کی موت کا منظر یاد ہے تو آپ نے فرمایا: کیوں نہیں، میں اس وقت آٹھ برس کا تھا۔ میرے جدّامجد عبدالمطلب کی وفات حرب الفجار سے قبل ہوگئی تھی۔
علامہ شبلی نے اپنی سیرت النبیؐ حصہ اول صفحہ 125 پر لکھا ہے کہ عبدالمطلب کی وفات کا واقعہ خاص طور پر قابل لحاظ ہے کہ ان کی موت نے بنوامیہ کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ قبائلی سسٹم میں دنیوی اقتدار کے لحاظ بنوہاشم پر غالب آگئے۔ اب قریش کی سیادت عبدالمطلب کی بجائے حرب [ابوسفیان کا والد] کے ہاتھ میں آگئی جو بنوامیہ کا نامور فرزند تھا۔ مناصب ریاست وسیادت میں سے بنوہاشم کے پاس صرف سقایہ یعنی حجاج کو پانی پلانا رہ گیا، جو عبدالمطلب کے سب سے چھوٹے بیٹے عباس بن عبدالمطلب کے ہاتھ میں رہا۔
مورخین نے عبدالمطلب اور حرب بن امیہ کے درمیان ایک مسابقہ کا تذکرہ کیا ہے۔ ایک مرتبہ حبشہ کے سفر میں سردارانِ قریش مالِ تجارت کے ساتھ گئے۔ چونکہ بنو امیہ اور بنوہاشم میں چشمک چلتی رہتی تھی، اس لیے اس کا اظہار سفروحضر ہر جگہ ہوتا تھا۔ اس سفر میں عبدالمطلب اور حرب بن امیہ دونوں شریک تھے۔ دونوں کاآپس میں کسی بات پر مباحثہ ہو۔ دونوں نے اپنے اپنے مناقب بیان کیے۔ پھر دونوں نے طے کیا کہ حبشہ کے بادشاہ سے فیصلہ کرالیتے ہیں کہ کون اعلیٰ ہے اور کون ادنیٰ۔ نجاشی کے ہاں جب گئے تو اس نے ان کے درمیان حَکَم بننے سے انکار کردیا۔ [غالباً اس نے اسے اپنی شان سے فروتر سمجھا ہوگا یا کسی اور مصلحت کے تحت انکار کیا ہوگا]۔ آخر طے ہوا کہ نفیل بن عبدالعزیٰ بن الریاح سے فیصلہ کرایا جائے جو عدی بن کعب کی اولاد سے تھا۔ اس نے دونوں کی باتیں سنیں، اور پھر حرب سے مخاطب ہوکر کہا: کیا تو ایسے شخص سے مقابلہ کرتا ہے جو تجھ سے بہت بلند وبالا قامت کا مالک ہے، جس کا سر تیرے سر سے بڑا ہے، جو تجھ سے زیادہ حسین وجمیل ہے، جس کے اندر تیرے برعکس نقائص اور باعثِ ملامت صفات نہیں ہیں، تیرے مقابلے میں زیادہ کثیرالاولاد ہے، تجھ سے کہیں زیادہ سخی وفیاض اور فراخ دل ہے، تجھ سے زیادہ فصیح اور سازوسامان میں تجھ سے بڑھ کر ہے۔
یہ فیصلہ سن کر حرب زچ ہوگیا اور اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگا: '' یہ بھی منحوس سوچ اور بری گھڑی تھی کہ ہم نے تجھے فیصل وحَکَم مان لیا۔‘‘ یہ نفیل بن عبدالعزیٰ حضرت عمر بن خطاب کے دادا تھے۔ اس فیصلے کے بعد حرب بن امیہ نے عبدالمطلب سے قطع تعلقی کرلی اور حرب اور اس کی اولاد عبداللہ بن جدعان کے ساتھ ہم پیالہ وہم نوالہ ہوگئے۔ (طبقات ابن سعد)