ان دنوں پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں پر غیرمعمولی کشیدگی نظر آ رہی ہے۔ مذکورہ دونوں ملکوں کے باہمی معاملات 70 سال سے ناخوشگوار چلے آرہے ہیں۔ کبھی ان میں شدت آ جاتی ہے اور کبھی نرمی۔ لیکن معمول کے تعلقات کبھی بحال نہیں ہوئے۔ افغانستان کے موجودہ صدر اشرف غنی جو بظاہر پہلے سابقہ تلخیاں بھلانے کا تاثر دے رہے تھے‘ جلد ہی اپنے اصل روپ میں سامنے آ گئے۔ گزشتہ دنوں انہوں نے ''ہارٹ آف ایشیا ‘‘کے زیرعنوان ایک علاقائی کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اس میں پاکستان کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن ہم نے اپنے عارضی وزیرخارجہ کو اس کانفرنس میں شرکت کے لئے امرتسر بھیج دیا اور ہمارے محترم بزرگ نہ جانے کیوں اپنی بے عزتی کرانے امرتسر جا دھمکے؟ انہیں کوئی پروٹوکول نہیں دیا گیا تھا اور پاکستان کے جو دیگر مہمان وہاں گئے تھے ‘ وہ بھی خالی بے عزتی وصول کر کے واپس آئے۔ ایک طرف ہماری سیاسی قیادت ہے کہ وہ مودی صاحب کی نازبرداریاں کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتی ہے اور ہمارے وزیراعظم‘ بھارت کی ناز برداریاں کر کے‘ اپنی حکومت کے ذمہ دار لوگوں کو بے عزت کرانے کے لئے بھارت روانہ کر دیتے ہیں۔ لیکن ہماری موجودہ حکومت ایسے معاملات کو خاطر میں نہیں لاتی۔ جب بھی بھارتی وزیراعظم کو موقع ملتا ہے‘ وہ ہماری حکومت کے کسی معزز مہمان کو بھارت بلا کر اس کی توہین و تذلیل کرتے ہیں۔ جبکہ حکومتی وزیرخواجہ سعد رفیق گرج گرج کر اعلان کرتے ہیں کہ ''ہم توہین برداشت نہیں کرتے۔ تذلیل پسند نہیں کرتے۔‘‘ خواجہ صاحب یہ اعلان کرتے وقت بھول گئے کہ اس معاملے میں بھارت کو خصوصی امتیاز حاصل ہے۔ ہماری حکومت کے لئے بھارت کی جانب سے توہین اور تذلیل قابل برداشت ہے۔ لیکن وہ اپنے ہم وطنوں کو ہرگز اس کی اجازت نہیں دیتے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ مرحوم نے ہندو لیڈروں سے زبردستی پاکستان حاصل کر کے‘ ان کی تذلیل بھی کی تھی اور توہین بھی۔ 70سال تک قائد اعظمؒ کے پاکستان نے بھارت کو تذلیل اور توہین کے بے شمار مواقع دیئے۔ لیکن آج صورتحال مختلف ہے۔ قائد اعظمؒ کے جانشین‘ اب پاکستانی لیڈروں کودرشت لہجے میںمخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''ہم توہین اور تذلیل برداشت نہیں کرتے۔‘‘ کہاں سے ؟ کونسی چیز؟ کس طرح وصول کرنی ہے؟ اس کا فیصلہ خود حکمران جماعت ہی کرتی ہے۔ اس کی وجوہ اور معیار کیا ہیں؟ یہ راز ہمارے حکمران ہی جانتے ہیں۔ہمیںتو اب یہ سکھایا جا رہا ہے کہ بھارت کے سامنے ''چوں‘‘ نہ کریں۔ لیکن اپنے منتخب لیڈروں کی تذلیل اور توہین کرنے سے ہمیشہ ڈریں۔ وہ بے چارے ڈرتے بھی آ رہے ہیں۔ پاناما کا مقدمہ طوالت پکڑتا جا رہا ہے۔ لیکن ہمارے لیڈروں کی توہین اور تذلیل ناقابل برداشت ہے۔ کاش! خواجہ سعد رفیق ہمارے قومی لیڈروں کے بجائے‘ بھارتی لیڈروں کو انتباہ کرتے کہ ان کے لئے ''توہین و تذلیل‘‘ ناقابل برداشت ہے۔ مسلم لیگ کی قیادت نے ہندو لیڈروں کو نیچا دکھا کر ان کے جبڑے کے اندر سے پاکستان نکال کر ‘ ان کی تذلیل کی اور آج بھارتی حکمران‘ موجودہ مسلم لیگ کی ہماری لیڈر شپ کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں؟ یہ سب کچھ دنیا دیکھ رہی ہے۔
آج کا موضوع قدرے مختلف ہے۔ افغانستان کی ''پدی‘‘ نے آج ہمیں جس طرح للکارا ہے‘ ہمیں خوب اچھی طرح معلوم ہے کہ پس پردہ کون ہے؟ آج میں ایک نامعلوم طیارے کی پراسرار پرواز کی بات کر رہا ہوں۔ تفصیل تو آپ آگے پڑھیں گے۔ میں صرف اہل وطن کو اطلاع دے رہا ہوں کہ جب سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں حالیہ کشیدگی شروع ہوئی ہے‘ مغربی طیارے لازماً ہمارے خطے کے فضائی حالات کا جائزہ جس مقصد سے لے رہے ہیں‘ اس کا اندازہ ہمیں کرنا چاہیے۔ ایک پراسرار پرواز کی پہلی کہانی آپ کی نذر کر رہا ہوں۔ ملاحظہ فرمائیے۔
''جیٹ ایئرویز کے بوئنگ777 طیارے کا ممبئی سے اڑان بھرنے کے بعد لندن کے لئے محوپرواز ہونے کے دوران‘ جرمنی کی فضائی حدود میں مقامی ایئرٹریفک کنٹرول سے ریڈیائی رابطہ منقطع ہونے کے بعد فوراً بحال ہو گیا۔ ورنہ اگلے ہی لمحہ کوئی بھی انہونی ہو سکتی تھی ۔ کیونکہ جرمن ایئر فورس کے دو لڑاکا طیارے اس ''درانداز یا نامعلوم طیارے‘‘ کو ''ٹھکانے‘‘ لگانے کے لئے اس کو دونوں جانب سے گھیر چکے تھے۔ بظاہر تو یہی کہا جا رہا ہے کہ جرمن فضائیہ نے اپنے لڑاکا طیاروں کو بوئنگ 777 طیارے کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے روانہ کیا تھا۔ لیکن حقیقت کیا واقعی یہی تھی؟ یہ اپنے آپ میں بہت بڑا سوال ہے۔ دنیا میں شہری ہوابازی کی تاریخ مسافر بردار طیاروں کو قصداً یا سہواً مار گرائے جانے کے واقعات سے جس طرح بھری پڑی ہے‘ اس کی روشنی میںاندیشہ ہائے ''بلند پرواز‘‘ کا پیدا ہونا یقینی ہے۔ طیاروں کو قصداً مار گرانے کی صورتحال تو عام طور پر حالت جنگ میں پیش آتی ہے لیکن سہواً والا معاملہ کسی بھی حالت میں پیش آ سکتا ہے اور آج کی جدید ترین ٹیکنالوجی کی گود میں بیٹھی‘ جدید دنیا میں انفرادی زندگی سے لے کر سماجی‘ قومی‘ ملکی اور عالمی زندگیوں میں ایک دوسرے کی ٹوہ میں لگے رہنے کا جو خطرناک رجحان پنپ رہا ہے‘ اس نے سچ مچ دنیا کو بارود کے ایک ڈھیر پر بٹھا رکھا ہے۔
حالیہ برسوں میں کسی مسافر بردار طیارے کو مار گرائے جانے کا سنگین ترین واقعہ 2014ء میں ملیشیائی ایئرلائنز کے طیارے کا مار گرایا جانا ہے‘ جس میں 298 افراد مارے گئے تھے۔ 1983ء میں کورین ایئرلائنز کی فلائٹ‘ 1988ء میں ایران ایئر کی فلائٹ‘ 1980ء میں اطالوی فلائٹ‘ 1955ء میں ای آئی اے کی فلائٹ‘ 1954ء میں کیتھے پیسفک ایئرویز کی فلائٹ‘ 1973ء میں لیبیائی عرب ایئرلائنز کی فلائٹ اور 2001ء میں سائبریا ایئرلانز کی فلائٹ کا مار گرایا جانا‘ جان بوجھ کر یا غلطی سے کی گئی کارروائی کا گواہ ہے۔
جیٹ ایئرویز کی فلائٹ کا جرمنی کے مقامی ایئرٹریفک کنٹرول سے رابطہ منقطع ہو جانے کا واقعہ اسی ماہ فروری کی 16تاریخ کا ہے۔ اس طیارے کو جرمنی کے دو لڑاکا طیاروں کے ذریعے گھیر لئے جانے کا یہ سارا معاملہ اس وقت منظر عام پر آیا جب اس کی فلم بندی ایوی ایشن ہیرالڈ جیسی ہوا بازی سیفٹی ویب سائٹوں پر گردش کرنے لگی۔ اس میں رابطہ منقطع ہونے کی وجہ پائلٹوں کا غلط ریڈیو فریکوئنسی چالو کر دینا بتایا گیا۔ اس ویڈیو کے بعد جیٹ ایئرویز نے اس کی صداقت پر کوئی تبصرہ کئے بغیر 19 فروری کو جاری کردہ بیان میں کہا کہ مذکورہ پرواز کے عملہ کو ہندوستانی ہوائی سکیورٹی ریگولیٹری اتھارٹی‘ شہری ہوابازی کے ڈائریکٹوریٹ جنرل (ڈی جی سی اے) کی تفتیش مکمل ہونے تک کام پر جانے سے روک دیا گیا ہے۔ جیٹ ایئرویز نے اپنے بیان میں یہ بھی بتایا کہ اس کی ممبئی سے لندن ہیتھرو پرواز 1189W کا جرمن فضائی حدود میں مقامی ایئرٹریفک کنٹرول سے تھوڑی دیر کے لئے رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔ لیکن چند ہی منٹوں میں یہ بحال ہو گیا۔ احتیاط کے طور پر جرمن فصائیہ نے فلائٹ اور اس کے مسافروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے اپنے طیاروں کو تعینات کر دیا تھا۔ بعد میں 330 مسافروں اور 15 عملہ کو لے جا رہا یہ طیارہ لندن میں محفوظ طریقے سے اتر گیا۔جیٹ ایئرویز کے کسی طیارے کا یورپ میں ریڈیائی رابطہ منقطع ہونے کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔ اس سے پہلے اپریل 2014ء میں جرمنی ہی میں اس کی لندن-ممبئی فلائٹ کا ریڈیائی رابطہ ٹوٹا تھا۔
دنیا جدید سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں یقینابڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھتی چلی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں لاسلکی ریڈیائی لہروں اورترنگوں سے ایسے ایسے کام لئے جا رہے ہیں کہ کل تک ان کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ بادی النظر میں دنیا دو قدم آگے بڑھتی ہے تو چار قدم پیچھے ہٹ جاتی ہے اور کبھی کبھی تو اتنا پیچھے ہٹ جاتی ہے کہ وہا ںسے لوٹ آنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔
دوران پرواز کسی طیارے کا مقامی ایئرٹریفک کنٹرول سے رابطہ ٹوٹ جانا‘ جیسا کہ جیٹ ایئرویز طیارے کے ساتھ ہوا‘ جن خطرناک نتائج و عواقب کا حامل ہو سکتا ہے‘ ان کے انسدادی اور تدارکی اقدامات کا پیشگی اندازہ لگانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس لئے کہ آج کل ہوائی سفر ریل کے سفر جیسا ہو گیا ہے۔ ہمیں ایسا سسٹم وضع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ قازقستان جیسا واقعہ بھی دہرایا نہ جا سکے‘ جب وہاں کا ایک ملٹری ہیلی کاپٹر پرواز کے دوران راستہ بھول گیا تھا۔ یہاں تک کہ پتہ پوچھنے کے لئے اسے ایک شاہراہ پر اترناپڑا۔ واقعہ اسی 15 فروری کا ہے۔ فوجی ہیلی کاپٹر جیسے ہی سڑک پر اترا‘ اس میں سے ایک آدمی نکل کر دوڑتا ہوا قریب ہی موجود لاری کے پاس آیا۔ اس کے ڈرائیور سے پتہ پوچھا اور واپس ہیلی کاپٹر میں جا بیٹھا۔ پھر ہیلی کاپٹر اڑ گیا۔‘‘
کالم ختم کر رہا تھا کہ تنگی چارسدہ میں ایک بڑا دھماکہ ہو گیا ہے۔ خدا خیر کرے۔