مجھے یاد نہیں آ رہا تھا کہ بہاولپور کی میٹھی اور خوبصورت دھرتی پر جنم لینے والے شہزاد عرفان سے میری آخری ملاقات کب ہوئی تھی۔ پہلی ملاقات یقینا یاد تھی۔ وہ بھلا میں کیسے بھول سکتا تھا۔
اب برسوں بعد اسلام آباد کی ایک اداس دوپہر میں چار سو پھیلی دھوپ میں شہزاد عرفان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ شہزاد یا تو سرائیکی کے بڑے دانشور اور لکھاری اپنے والد عبداللہ عرفان کی وفات پر رویا ہو گا یا اب مجھے مل کر نعیم بھائی کو یاد کرکے رو رہا تھا۔ دونوں کا مقام اس کے لیے برابر تھا۔ اس کی چھوٹی‘ پیاری سی بیٹی حیران تھی کہ اس کے باپ کی آنکھیں پُرنم کیوں ہیں۔ اس کی ماں خاموش اور اداس بیٹھی تھی۔ ہم تینوں کو احساس تھا کہ ہم سب کا کتنا بڑا نقصان ہوا تھا۔ میں نے اپنے باپ کو مسلسل تکتی ہوئی اس پیاری بچی کو دیکھا‘ جسے ابھی زندگی کے ان دکھوں کا اندازہ نہ تھا‘ جن میں ہم مبتلا تھے۔ مجھے عرفان شہزاد کی آنکھوں سے گرتے آنسو اپنے دل پر پڑتے محسوس ہو رہے تھے۔
شہزاد سے میری پہلی ملاقات 1990ء میں بہاولپور میں نعیم بھائی کے بہاولپور ہسپتال کے عباس منزل ہوسٹل کے کمرہ نمبر19 میں ہوئی تھی۔ میں نے پہلی دفعہ اسے وہاں دیکھا اور نعیم بھائی سے اس کا پیار دیکھ کر وہ بھی اپنا بھائی ہی لگا۔ شہزاد کے قہقہے ہر محفل کی جان ہوتے۔ شہزاد اکثر گھر والوں سے لڑ کر نعیم بھائی کے پاس آ جاتا اور کئی کئی روز وہیں رہتا۔ کالجوں میں لڑائی جھگڑے سب کچھ شہزاد کرتا۔ پھر جب عبداللہ عرفان پر باپ کی محبت غالب آتی تو نعیم بھائی کو فون آتا اور وہ شہزاد کو گھر چھوڑ آتے۔
کئی برس گزر گئے۔ شہزاد میکسیکو جا کر سیٹل ہو گیا تھا۔ وہ بہاولپور چھوڑ کر پردیس جا بسا تھا۔ میں جب بھی بہاولپور جاتا تو نعیم بھائی سے پہلا سوال یہ ہوتا کہ شہزاد کدھر ہے؟ وہ کہتے: یار‘ سرائیکی ہو کر بھی پردیس جا بسا ہے۔ پتہ نہیں وہ کیسے بہاولپور کی دھرتی ماں کو چھوڑ کر وہاں رہتا ہو گا۔ مجھ سے تو بہاولپور نہیں چھوڑا جاتا‘ پتہ نہیں وہ کیسے چھوڑ گیا تھا۔ شہزاد عرفان نعیم کی بہت بڑی کمپنی تھا۔ وہ اسے بہت مس کرتے تھے۔
شہزاد کو اکیس فروری دو ہزار تیرہ کی صبح میری فیس بک سے پتہ چلا تھا کہ نعیم بھائی فوت ہو گئے ہیں۔ اس کی درد بھری میل ابھی تک میرے پاس محفوظ ہے۔ کبھی رونے کو دل چاہے تو وہ پڑھ لیتا ہوں۔ اس کی چیخیں میں نے محفوظ کر رکھی ہیں۔ اب اتنے عرصے بعد مجھے مل کر اس کی آنکھوں سے آنسو نہیں رک رہے تھے۔ چار سال بعد بھی اس کا غم تازہ تھا‘ بالکل تازہ۔ شہزاد کی بیوی‘ جو نعیم بھائی کو بھی بہت عزیز تھی‘ بتانے لگی کہ وہ خود کتنے دن نعیم بھائی کی موت کے بعد ڈپریس رہی اور شہزاد کی کیا حالت تھی۔
میں نے بات بدلنے کے لیے شہزاد سے پوچھا: نعیم سے کیسے اس کی دوستی ہوئی تھی؟ شہزاد کے چہرے پر ایک مسکراہٹ ابھری اور میں کچھ خوش ہوا کہ میرا وار کارگر ہوا ہے۔ بولا: روفی یار یہ ایک عجیب کہانی ہے۔ ہوا یوں کہ ہم کالج کے لڑکے بہاولپور میڈیکل کالج کے گرائونڈ میں فٹ بال کھیل رہے تھے کہ وہاں میڈیکل کالج کے لڑکے آ گئے‘ جنہوں نے کہا کہ ہم وہاں نہیں کھیل سکتے۔ اس پر لڑائی ہو گئی۔ سب لڑکے لڑ کر گھر آ گئے۔ اگلی صبح میرے گھر پر دستک ہوئی۔ والد عبداللہ عرفان نے دروازہ کھولا تو دیکھا میڈیکل کالج کے لڑکے ہاتھوں میں ہاکیاں لے کر کھڑے تھے۔ انہوں نے والد صاحب سے پوچھا کہ شہزاد عرفان کا یہی گھر ہے؟ والد صاحب نے ہاں میں جواب دیا تو کہنے لگے: اسے باہر نکالو‘ اگر وہ بدمعاش بنا ہے تو پھر اسے کہو اب باپ کی بجائے خود باہر نکلے۔
عبداللہ عرفان ایک روایتی اور مروت بھرے میٹھے سرائیکی تھے۔ سب لڑکوں سے پوچھا: بات کیا ہے؟ کالج کے ان لڑکوں کے نعیم بھائی سربراہ تھے کیونکہ وہ سٹوڈنٹ پارٹی ''ایگلز‘‘ کے چیف تھے‘ لہٰذا وہی بولے: پہلے اپنے بیٹے کو باہر نکالیں پھر بات کریں گے۔ نعیم بھائی کے ساتھ ان کے دوست ڈاکٹر حافظ طاہر اور ڈاکٹر ابوبکر بھی ساتھ تھے‘ جو نعیم بھائی ہی کی طرح لڑاکا سمجھے جاتے تھے۔ عبداللہ عرفان نے ان سب کو اندر آنے کا اشارہ کیا اور کہا: بیٹا بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ ایک باپ کا محبت بھرا انداز دیکھ کر نعیم اور دیگر لڑکے کچھ کمزور پڑ گئے اور اندر چلے گئے۔ پھر عبداللہ عرفان صاحب نے اندر آواز دی کہ چائے اور کچھ کھانے پینے کے لیے لائو۔ اس پر سب لڑکے پریشان ہو گئے۔ وہ تو شہزاد کو مارنے آئے تھے اور یہاں چائے کا دور چلنے والا تھا۔ جب لڑکوں نے کہا: پہلے شہزاد کو بلائو تو عبداللہ عرفان بولے پہلے چائے پی لیتے ہیں‘ پھر شہزاد کی مل کر ٹھکائی کرتے ہیں۔
تھوڑی دیر میں چائے آ گئی۔ سب نے چائے کے ساتھ کچھ کھایا پیا۔ اب سب ٹھنڈے پڑ چکے تھے۔ عبداللہ عرفان نے اپنے بیٹے شہزاد کو آواز دی اور کہا: اب آئو اور ان سب سے معافی مانگو۔ شہزاد نے نوجوانوں کی طرح وضاحت پیش کرنے کی کوشش کی کہ اصل بات کیا ہوئی تھی تو عبداللہ عرفان بولے: سب چھوڑو‘ تم غلط ہو یا درست، ان ڈاکٹرز سے معافی مانگو۔ اتنی دیر میں کسی نے نعیم کے کان میں سرگوشی کی کہ ڈاکٹر اشو لال یہیں آتے ہیں‘ اشو کا تو یہ ایک طرح سے اپنا گھر ہے۔ نعیم سب دوستوں سے پیار کرتے تھے لیکن اشو لال کا ان کی آنکھوں میں بہت مقام تھا۔ عبداللہ عرفان صاحب کے رویّے نے نعیم بھائی پر بہت اثر کیا تھا۔ انہوں نے اٹھ کر شہزاد کو گلے لگایا، عبداللہ عرفان کو جھک کر ملے اور دوستوں کے ساتھ گھر سے باہر نکل آئے۔
اس کے بعد عبداللہ عرفان اور شہزاد کا گھر نعیم کا اپنا گھر بن گیا۔ وہ ایک طرح سے گھر کے رکن بن گئے تھے۔ کوئی مسئلہ ہوتا عبداللہ عرفان یا ان کی بیگم شہزاد سے کہتیں: جائو نعیم کو فوراً بلا کر لائو۔ نعیم میں بزرگوں کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ لگانے کی بڑی صلاحیت تھی۔
شہزاد عرفان، نعیم بھائی سے اپنی پہلی ملاقات کی داستان سناتے ہوئے رو بھی رہا تھا۔ مجھے شہزاد کی کہانی سن کر پچیس برس پہلے نعیم بھائی کا عباس منزل کا کمرہ نمبر19 پھر یاد آیا۔ ایک رات میں ملتان یونیورسٹی سے انہیں ملنے ان کے کمرے پہنچا تو آگے وہی لڑکے بیٹھے ان کے ساتھ گپیں مار رہے تھے‘ جو کبھی مجھے اس طرح مارنے کے لیے لیہ کالج کے ہوسٹل میں آئے تھے جیسے نعیم بھائی خود کبھی شہزاد کو مارنے گئے تھے۔
میں نے ان لڑکوں کو دیکھا اور انہوں نے مجھے دیکھا۔ ہم ایک دوسرے کو خوف اور غصے سے دیکھتے رہے اور نعیم بھائی ہم سب کو حیرانی سے دیکھ رہے تھے۔ میں ششدر کھڑا سوچ رہا تھا کہ یہ لڑکے جو کبھی مجھے کالج ہوسٹل مارنے آئے تھے یہاں نعیم بھائی کے پاس بیٹھے کیا کر رہے ہیں اور وہ یقینا سوچ رہے تھے کہ میں رات گئے یہاں کیا کر رہا ہوں اور کیوں آیا ہوں؟ میرا نعیم بھائی سے کیا رشتہ ہے اور نعیم بھائی مجھے اتنا پیار کیوں کر رہے ہیں؟ نعیم بھائی نے ہم سب کے چہروں کے تاثرات دیکھ کر گھبرا کر پوچھا تھا: کیا ہوا؟
شہزاد کے آنسو مجھے پچیس برس پہلے والی عباس منزل لے گئے تھے۔ شہزاد اپنی کہانی سنا رہا تھا تو میں اپنی پرانی کہانی میں کھو گیا تھا۔ جب میں اس رات کی عجیب و غریب کہانی اور اتفاقات میں کھویا ہوا تھا کہ کیسے عباس منرل کے کمرہ نمبر19 میں ان لڑکوں سے ملاقات ہونی تھی جو مجھے کبھی مارنے آئے تھے اور وہ لڑکے بھی مجھے حیرانی سے دیکھ رہے تھے، تو مجھے یاد آیا‘ نعیم بھائی‘ جنہوں نے ہمارے والدین کی جلدی وفات کے بعد اپنی محبت اور چھوٹے بہن بھائیوں کی خاطر قربانیاں دے کر ہمیں اپنے ماں باپ تک بھی بُھلا دیے تھے، آج ان کے بغیر تنہائی کے چار سال مکمل ہو گئے تھے۔