وہی اصول: زندگی آدمی سے نباہ نہیں کرتی، آدمی کو زندگی سے نبھا کرنا پڑتا ہے۔ قدرت کے قوانین ہیں اور اٹل ہیں۔ کبھی نہیں بدلتے، کبھی تغیر پذیر نہیں ہوتے۔
وہی دھرنا، وہی ہسپتال، درد کا وہی عالم۔ اب کی بار مگر کپتان سے رابطہ نہ کیا۔ بتانے کی بات پہلے ہی بتا چکا تھا۔ چونکہ جنرل راحیل شریف شامل نہیں تھے، پانسہ پلٹنے کا سوال ہی نہ تھا۔ بازی کھیلنے والے طاقتور لوگ تھے۔ ان میں سے ایک نے کہا تھا: چیف آف آرمی سٹاف نئے ہیں۔ ابھی ابھی منصب سنبھالا ہے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اس سادہ سے آدمی کو، جس میں کارنامے انجام دینے اور ہیرو بننے کی لگن پائی جاتی ہے، اپنے دام میں وہ پھنسا لیں گے۔ احمقانہ مہم جوئی میں یہ لوگ مبتلا تھے اور انہیں خاک چاٹنا تھی۔ سنسنی پسند میڈیا نے خوف و خدشات کی آگ بھڑکائے رکھی؛ حتیٰ کہ بعض وزرا بوریا بستر سمیٹنے لگے۔ وزیرِ اعظم بھی شکوک و شبہات کا شکار تھے اور کبھی تو دل ہار ہی جاتے۔ چیف آف آرمی سٹاف تسلی دیتے رہے۔ وہی ان کی واحد امید تھے۔ لاہور سے جلوس روانہ ہوا تو خوفزدہ وزیرِ اعظم نے تحقیقاتی کمیشن پر آمادگی ظاہر کر دی۔ دھرنا چند دن جاری رہا تو ایک مرحلے پر شہباز شریف کی قربانی دینے پر بھی آمادہ ہو گئے۔ ذہنی دبائو سے نکلنے کے لیے چیف آف آرمی سٹاف سے انہوں نے مدد کی درخواست اور مداخلت کی التجا کی۔ اگرچہ بعد ازاں مکر گئے۔ جنرل نے اپنی سی کوشش کی۔ کپتان اور علّامہ کو ملاقات کے لیے انہوں نے مدعو کیا، الگ الگ۔ اس روز ایک پیغام ناچیز نے کپتان کو بھیجا۔ اسد عمر، جہانگیر ترین اور اسحٰق خاکوانی کو بھی۔ گزارش کی کہ فوجی سربراہ کی ضمانت کے ساتھ دھاندلی کی تحقیقات قبول کر لیں۔ یہی عدل ہوتا اور زیادہ سے زیادہ یہی تلافی ممکن تھی۔ اپوزیشن کے لیے یہ ایک تاریخی کامیابی ہوتی۔ جیسا کہ بعد میں واضح ہو گیا، جنرل راحیل شریف نے بھی ان سے یہی کہا۔ حضرت علامہ طاہرالقادری اور جنابِ کپتان مگر ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے۔ انہیں اقتدار چاہیے تھا۔ خان صاحب کو یقین تھا کہ جس طرح بھی ہوا، وہ وزیرِ اعظم بنیں گے اور کوسِ لمن الملک بجائیں گے۔ طاہرالقادری نے خوش فہمیوں کی جنت الگ سے آباد کر رکھی تھی۔
معمول کے گشت پر سی ایم ایچ کے کمانڈنٹ جنرل ڈاکٹر صلاح الدین کمرے میں تشریف لائے تو ہنسے۔ حال دریافت کیا اور بولے: آپ تو یہ کہتے تھے کہ ہومیوپیتھک دوا کے قطرے پینے سے، آپ کا پتّہ ٹھیک ہو جائے گا۔ میں نے کہا: ڈاکٹر صاحب، یہ سوال تو تب اٹھتا، اگر میں نے پئے ہوتے۔ ڈٹ کر بد پرہیزی کرتا رہا کہ دوائیں کھانے سے صحت بحال ہو چکی۔ سردیوں میں ٹہل (واک) نہ کی۔ جی بھر کے دیسی گھی کے ساتھ سرسوں کا ساگ کھایا۔ نتیجہ یہی نکلنا تھا۔
کئی دن بستر پہ پڑا رہا۔ پہلے کچھ تیاری کرنا ہوتی ہے۔ ہر روز کچھ دوائیں، ہر روز ایک نیا ٹیسٹ، حتیٰ کہ آپریشن کی شام آ پہنچی۔ سچی بات یہ ہے کہ کچھ گھبراہٹ تو تھی۔ سرجن کرنل مکرم نے، جو بعد ازاں بریگیڈیئر ہو گئے، تسلی دی۔ کہا: آپ کو پتہ تک نہ چلے گا‘ چیر پھاڑ نہیں ہو گی‘ بس ایک ذرا سا سوراخ۔ مرحوم روزنامہ ''حریت‘‘ والے مرحوم اخبار نویس توصیف احمد خاں یاد آئے، جو کہا کرتے تھے: مرغی کے لیے تکلے کا گھائو بہت ہوتا ہے۔ آپریشن تو معلوم نہیں، کیسے،کب اور کتنی دیر میں ہوا۔ ہوش آیا تو شدید کمزوری کا احساس تھا۔ سٹریچر پر ڈال کر آپریشن تھیٹر سے کمرے میں پہنچا دیا گیا۔ بتایا گیا کہ کچھ دیر، اغلباً ڈیڑھ گھنٹہ سر تکیے پر نہ رکھا جائے۔ عجیب وحشت سی ہوئی۔ ایسی اور اتنی نہیں، جو بہت کوفت، تکلیف اور اندیشوں میں مبتلا کرے لیکن پھر ایک مسئلہ پیدا ہوا۔ پہلے جنرل حمید گل مرحوم اور پھر جماعتِ اسلامی کے رہنما ایم پی اے وقاص شاہ تیمارداری کے لیے تشریف لائے۔ انہیں
معلوم نہ تھا کہ اب بھی مشکل میں ہوں۔ معمول کے مطابق باتیں کرتے رہے۔ ہمت جمع کی اور شریکِ گفتگو رہا، جتنا کہ ممکن تھا۔ جنرل حمید گل نے جیب سے کچھ روپے نکالے اور میرے ہاتھ میں تھما دیے، میں بھونچکا۔ بولے: یہ صدقہ ہے، کسی کو دے دیجیے گا۔ اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد کیا تھا: کبھی کسی مریض کا صدقے سے بہتر علاج نہیں کیا گیا۔ دوا کھانے کی آپؐ تلقین کرتے۔ دعا تعلیم کیا کرتے۔ فرمایا: مریض ہر روز چالیس مرتبہ آیتِ کریمہ، لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین پڑھے تو جلد شفا ہو گی۔ (عمر پوری ہو چکی ہو تو) پھر یہی دعا پڑھتا ہوا جنت میں چلا جائے گا۔ صدقہ خود دیا جاتا ہے۔ پنجاب سمیت بعض سرزمینوں میں رواج ہے کہ دوستوں اور عزیزوں کے لیے دوسرے بھی صدقہ دیتے ہیں۔ علما ہی اس پر روشنی ڈال سکتے ہیں کہ شاید مستحسن ہو۔ خود بہرحال دینا چاہیے اور مقدار کی پروا نہ کرنی چاہیے، چاہے مٹھی بھر اناج ہی کیوں نہ ہو۔ اللہ گنتا اور تولتا نہیں، نیت دیکھتا ہے۔ ان صدقوں میں سے ایک تاریخ ساز ہے، جو کبھی دیے گئے۔ عظیم مسلمان فاتح ظہیرالدین بابر کو اپنے فرزند ہمایوں سے بہت محبت تھی۔ 12 سال کا تھا کہ باپ حادثے میں مر گیا۔ ماموں اور چچوں نے ذبح کرنے کی کوشش کی۔ رشتے داروں میں سے بعض بے وفا نکلے۔ جو بے وفا نہ تھے تو اکثر ناکردہ کار۔ اللہ کا قانون شاید یہی ہے کہ جنہیں قوت و حشمت عطا کرنا چاہتا ہے، کم از کم کچھ برس کے لیے وہ تنہا ہو جاتے اور صعوبتوں سے لازماً گزرتے ہیں۔ جواں سال‘ خوش جمال ہمایوں کا مرض لا علاج قرار پایا تو بادشاہ نے صدقہ دینے کا فیصلہ کیا۔ ممکن ہے مولانا زین العابدین نے مشورہ دیا ہو، جو کبھی اسے ٹوک دیا کرتے تھے، کبھی الفت سے سمجھایا کرتے۔ ہم نفسوں سے مشورہ کیا۔ انہوں نے کہا، کوہِ نور ہیرا کسی کو بخش دیجیے، جو اس وقت اشیا میں سے دنیا کی سب سے نادر اور قیمتی چیز تھی۔ فرزند کی مصیبت پہ دکھا ہوا دل۔ تب و تاب تمام ہو چکی تھی۔ قلب و جاں میں تاریکیوں کا بسیرا تھا۔ مایوسی گاہے گھیر لیتی۔ بے قرار ہو کر بولا: اپنے فرزند کی قیمتی جان کے بدلے ایک پتھر؟ پھر اٹھا، مریض کی مسہری کے گرد سات چکر لگائے اور کہتا رہا: میری جان لے لے یا رب لیکن میرے بیٹے کو زندگی دے۔ رسول اللہ ؐ کی بتائی ہوئی ایک دعا سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ تعلیم کیا کرتے۔ بھاگتا ہوا ایک آدمی جاتا تھا، بے چین۔ سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے اسے آواز دی۔ بولا: میرا بھائی بیمار ہے۔ کہا، وہ ٹھیک ہو جائے گا۔ بولا: اس حال میں بھی آپ کو مذاق سوجھتا ہے۔ کہا، بالکل نہیں۔ محمدؐ نے ایک دعا سکھائی ہے۔ انشاء اللہ وہ صحت یاب ہو گا۔ پڑھو: یا حلیمُ یا کریمُ اشفِ...... بن .........۔ مریض اور اس کے باپ کا نام پڑھا جاتا ہے۔ بیٹی، بہن، بیگم یا ماں ہو تو ''بن‘‘ کی جگہ ''بنتِ‘‘۔ جیسا کہ عرض کیا، باقی صدقہ اور دوا دارو۔
فرمایا: ہر مرض کی دوا ہے۔ فرمایا: وہی بیمار کرتا اور وہی شفا دیتا ہے۔ امراض جسمانی ہوں، نفسیاتی یا سیاسی۔ فرد کو لاحق ہوں یا کسی ملک، معاشرے اور قوم کو، اندمال ہمیشہ ممکن ہے مگر مریض آرزومند بھی ہو، معالج کی سنے بھی۔ من مانی تو نہ کرے۔
وہی اصول: زندگی آدمی سے نباہ نہیں کرتی، آدمی کو زندگی سے نبھا کرنا پڑتا ہے۔ قدرت کے قوانین ہیں اور اٹل ہیں۔ کبھی نہیں بدلتے، کبھی تغیر پذیر نہیں ہوتے۔ (جاری )
پسِ تحریر: منگل کے روز شائع ہونے والے کالم میں دو شعروں کی تصحیح پر ظفر اقبال صاحب کا شکریہ۔