ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کے تازہ سفر نامے‘‘ہوائوں کے سنگ‘‘ کی تقریب رونمائی میں‘ سہیل وڑائچ نے ایک اہم نکتے کی طرف توجہ دلائی‘ اہلِ سیاست کو کتابیں پڑھنی بھی چاہئیں اور لکھنی بھی۔ مغرب میں اہلِ سیاست کا معاملہ یہی ہے‘ وہاں اہلِ صحافت بھی اس کارِ خیر میں پیچھے نہیں‘ البتہ اپنے ہاں اربابِ سیاست و صحافت کا ہاتھ اس حوالے سے خاصا تنگ رہا ہے لیکن صورت حال ایسی مایوس کن بھی نہیں۔ حکمرانوں میں دیکھیں تو 1956ء کے آئین کے خالق وزیر اعظم چودھری محمد علی نے Emergence of Pakistanلکھی۔(''ظہورِ پاکستان‘‘ کے نام سے اس کا اردو ترجمہ بھی شائع ہوا) ایک اور سابق وزیر اعظم ملک فیروز خاں نون کی کتاب میں بھی دلچسپی کا خاصا سامان تھا۔ فیلڈ مارشل ایوب خاں کی۔Friends not Masters(اردو میں ''جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘‘) نے بھی کئی راز ہائے سربستہ سے پردہ اٹھایا۔ پاکستان کے پہلے فوجی ڈکٹیٹر کی یہ ''خود نوشت‘‘ اس دور کے لائق فائق بیورو کریٹ (اور ایوب خاں کے چہیتے سیکرٹری اطلاعات) الطاف گوہر نے لکھی تھی۔ انگریزی زبان پر وہ کمال دسترس رکھتے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ''ڈان‘‘ کے ایڈیٹر بنے۔''قائد ِعوام‘‘ نے ''نئے پاکستان‘‘ کے مالک و مختار بنتے ہی‘ اپنی پہلی پریس کانفرنس میں جن اہلِ قلم کو گردن زدنی قرار دیا‘ ان میں الطاف گوہر بھی تھے۔ جیل میں انہوں نے سید مودودیؒ کی شہرہ آفاق تفسیر ''تفہیم القرآن‘‘ کے انگریزی ترجمے کا آغاز کیا اور رہائی کے باعث یہ نیک کام ادھورا رہ گیا۔ دلچسپ بات یہ کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں چوتھے (اور انشاء اللہ آخری) ڈکٹیٹر ‘ پرویز مشرف کیIn the Line Of Fireکے گھوسٹ آتھر ہونے کی سعادت‘ الطاف گوہر کے صاحبزادے ہمایوں گوہر کے حصے میں آئی۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو مطالعہ کے بے حد شوقین تھے۔ تاریخ اور سیاست ان کا خاص موضوع تھے(یہ الگ بات کہ تاریخ میں ڈکٹیٹروں کے انجام کوانہوں نے یاد نہ رکھا) ان کی بعض تقاریر زبان و بیان کے اعتبار سے معرکے کی تھیں۔ انہوں نے خود تو کوئی مربوط کتاب نہ لکھی البتہ جیل میں لکھی گئی ان کی تحریریں ان کی پھانسی کے بعد کتابی شکل میں شائع ہوئیں۔
بھٹو کی بیٹی میںباپ والی بات تو نہ تھی لیکن پڑھنے لکھنے کا وافر ذوق ان کے ہاں بھی تھا سرکاری سٹاف رکھنے کے باوجود وہ اپنی تقاریر کے نوٹس خود تیارکرتیں۔ رحلت کے بعد ان کی کتاب Reconciliation, Islam, Democracy and the Westاپنے موضوع کے اعتبار سے ایک گراں قدر تصنیف ہے۔ یوسف رضا گیلانی(تب سابق سپیکر قومی اسمبلی) مشرف دور میں حوالۂ زنداں ہوئے تو اڈیالہ جیل میں فرصت کے لمحات میں''چاہِ یوسف سے صدا‘‘ جیسی دلچسپ کتاب لکھ ڈالی۔ ایامِ اسیری ہی میں جاوید ہاشمی کی دو معرکہ آرا کتابیں منظر عام پر آئیں ‘ ''ہاں میں باغی ہوں‘‘ اور ''صلیب کے سائے تلے‘‘ ۔ان کی تیسری کتاب حال ہی میں منظر ِعام پر آئی ہے‘ ''زندہ تاریخ‘‘ کے نام سے یہ ‘ مشرف دور میں لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں گزرے ہوئے روز و شب کی روداد ہے۔ اسے محض اتفاق ہی کہا جائے گا کہ ہلیری کلنٹن نے صدر کلنٹن کے وائٹ ہائوس میں اپنے ماہ وسال کی یادداشتوں کو Living History(زندہ تاریخ)کا نام دیا۔
بابائے جمہوریت نواب زادہ نصراللہ خاں بھی مطالعے کا ذوقِ فراواں رکھتے تھے۔ پاکستان بننے سے قبل ''مجلسِ احرار‘‘کے اخبار ''آزاد‘‘ کے ایڈیٹر بھی رہے۔ تاریخ اور مذہب کے علاوہ کلاسیکی ادب کا مطالعہ بھی بے پناہ تھا۔ اشعار کے برموقع اور برمحل استعمال سے ان کی تقریر کالطف دوچند ہو جاتا۔ کبھی موڈ ہوتا تو خود بھی شعر کہتے اور ناصرؔ تخلص کرتے۔ ڈائری لکھنا‘ ان کا روزمرہ کا معمول تھا۔ سفر میں ہوتے تو فرصت پاتے ہی اسے مکمل کرنے میں تاخیر نہ کرتے۔ وہ بے شمارسیاسی رازوں کے امین تھے۔ اپنی خود نوشت لکھنے کا کہا جاتا تو ٹال جاتے۔ ''جب تک عملی سیاست میں ہوں‘ یہ کام نہیں کر سکتاکہ اس میں کئی احباب کے چہرے بے نقاب ہوں گے‘‘۔''تو کیا ریٹائرمنٹ کے بعد تاریخ کا یہ قرض اتاریں گے‘‘؟ ''سیاست میرے نزدیک ایک ہمہ وقتی کام ہے‘ ہول ٹائم جاب۔ جو زندگی بھر جاری رہنا ہے۔ کام کی چیزیں‘ اپنی ڈائری میں لکھتا جاتا ہوں۔ میرے جانے کے بعد‘ اللہ نے کسی کو توفیق دی تو وہ ان سے استفادہ کر لے گا‘‘۔ نواب زادہ کی رحلت کے بعد ان کی اولاد ان کی سیاست کی وارث ہوئی‘ نہ ان ڈائریوں کی حفاظت کر سکی۔ بزرگ سیاستدان کی سیاسی وارثت کے ساتھ‘ یہ تاریخی ورثہ بھی ضائع ہو گیا۔
جناب نواز شریف کے ایامِ جلاوطنی میں شامی صاحب اور جنابِ قاسمی کو خیال آیا کہ میاں صاحب فرصت کے ان لمحات کا فائدہ اٹھائیں اور اپنی یادداشتیں قلم بند کروا دیں‘ یوں پاکستان کی سیاسی تاریخ کے کئی تہلکہ خیز واقعات محفوظ ہو جائیں گے اور کئی راز ہائے سربستہ سے نقاب اٹھ جائے گا۔ اس کے لیے دھیان عطاء الرحمن صاحب کی طرف گیا‘ لیکن ان کے اپنے مسائل تھے۔ تب میں ایک اخباری ادارے میں ملازمت کے لیے جدے ہی میں تھا اور سرور پیلس بھی آنا جانا رہتا۔ چنانچہ یہ کار خیر میرے سپرد ہوا ‘ فارمیٹ بن گیا اس پر کام بھی شروع ہو گیا ‘کچھ چیزیں ریکارڈ ہو گئیں‘بہت سا کام باقی تھا کہ میاں صاحب جلا وطنی ختم کر کے لندن چلے گئے۔ ستمبر 2007ء میں انہیں اسلام آباد سے پھر جدہ روانہ کر دیا گیا۔ اب وہ حسین نواز کے شریف پیلس میں مقیم تھے۔ یہ پاکستان میں سیاسی طوفان کا دور تھا۔ میاں صاحب بیشتر وقت سیاسی قیادت سے رابطے میں رہتے۔ان میں قاضی صاحب مرحوم اور عمران خان بھی تھے‘ فون پر جن سے طویل تبادلۂ خیال اور صلاح مشورے ہوتے۔ ایسے میں یادداشتوں کا ٹوٹا ہوا سلسلہ بحال نہ ہو سکا۔
لیکن وہ جو کہتے ہیں قدرت نے جو کام جس کے لیے لکھ دیا‘ ستمبر2003ء میںسہیل وڑائچ‘ نواب زادہ صاحب کے ساتھ جدہ آئے تو کچھ دن کے لیے سرور پیلس ہی میں سہیل ضیاء بٹ کے مہمان ہو گئے اور اس دوران میاں صاحب کوطویل انٹرویو کے لیے آمادہ کر لیا۔ دھیمے لہجے میں ‘ ٹھہر ٹھہر کرگفتگو کرنے والے سہیل وڑائچ تحقیق و جستجو اور تصنیف و تالیف میں بڑے تیز طرار اور برق رفتار واقع ہوئے ہیں(اقبالؒ کے الفاظ میں '' نرم دمِ گفتگو گرم دمِ جستجو‘‘) تھوڑے دنوںمیں انہوں نے ڈھیر سارا کام کر لیا اور ''غدارکون‘‘؟ جیسی معرکہ آرا کتاب وجود میں آ گئی۔
شیخ رشید نے محترمہ کے (دوسرے دور) میں بہاولپور جیل میں ''فرزند پاکستان‘‘ لکھی جس میں وہ سو سو طرح سے ''اپنے لیڈر‘‘ نواز شریف پر واری صدقے جاتے نظر آئے‘ اس کے بعد کے ایڈیشن ہماری نظر سے نہیں گزرے۔ فیلڈ مارشل ایوب خاں کے صاحبزادے ‘ گوہر ایوب نے اپنی یادداشتوں کے علاوہ اپنے والد کی ڈائری کو بھی مشرف دور میں کتابی شکل دیدی۔ ایئر مارشل(ر) اصغر خاں کی کتابیں بھی پاکستانی سیاست کے طالب علموں کے لیے اہم ہیں۔ جناب ایس ایم ظفر کی کتابیں بھی ہماری لائبریری کا اہم اثاثہ ہیں۔ جناب خورشید قصوری اور بیگم عابدہ حسین کی یادداشتیں بھی خاصے کی چیز ہیں۔پروفیسر غفور احمد مرحوم کی کتابیں تحقیق کے طالب علموں کے لیے ریفرنس کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جنابِ فرید پراچہ کا تازہ سفر نامہ‘ ان کے سفر ناموں میں ایک دلچسپ اضافہ ہے۔ جنابِ عبدالقادر حسن کے بقول ‘ ''ان کے گزشتہ سفر ناموں کی طرح یہاں بھی زبان و بیان سفر نامے کا ہے‘ تبلیغی نہیں‘ ‘پراچہ صاحب کا یہ چوتھا سفر نامہ بھی ان کے گزشتہ سفر ناموں کی طرح وجودِ زن سے پاک ہے اور سجاد میر کے بقول‘ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کسی حسینہ کے حقیقی یا خیالی ذکر کے بغیر بھی ایک دلچسپ سفر نامہ لکھا جا سکتا ہے‘ جبکہ خود پراچہ صاحب کے بقول ؎
جب جوانی تھی امنگوں پر بڑھاپا چھا گیا
اب بڑھاپا ہے تو ہر خواہش جواں ہونے لگی