تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     23-02-2017

یو پی کے انتخابات اور مظفر نگر کے مسلمان

مظفر نگر بھارت کی ریاست اتر پردیش (یو پی) کے ان پندرہ اضلاع میں سے ایک ہے جہاں ریاستی اسمبلی کے سات مرحلوں پر مشتمل انتخابی عمل کے پہلے مرحلے کے تحت گزشتہ ہفتے(11فروری) کو ووٹ ڈالے گئے تھے۔ ان انتخابات میں بھارت کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں یعنی کانگریس اور بی جے پی کے علاوہ علاقائی پارٹیاں یعنی سماج وادی پارٹی(ایس پی ) بھوجن سماج پارٹی( بی ایس پی) اور راشٹریا لوک دل پارٹی(آر ایل ڈی) بھی حصہ لے رہی ہیں۔ لیکن اصل مقابلہ بی جے پی اور اس کے مدمقابل سماج وادی پارٹی اور کانگرس کے اتحاد پر مشتمل دھڑے کے درمیان ہے۔ ووٹ حاصل کرنے کے لیے ان سیاسی جماعتوں کے سربراہ جن میں وزیر اعظم نریندر مودی کانگرس کے نائب صدر راہول گاندھی اور وزیر اعلیٰ اکھلیش یادیو شامل ہیں ان اضلاع کا دورہ کر چکے ہیں۔ ان اضلاع میں مسلمان ووٹروں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے۔ جس کے حصول کے لیے تمام پارٹیاں کوشش کر رہی ہیں لیکن ان میں سے کسی نے بھی ان مظلوم ‘ بے گھر اور ابھی تک خوف کے مارے غریب اور بے گھر ہزاروں مسلمانوں کی داد رسی کی بات نہیں کی جو اگست ‘ ستمبر2013میں ہندو مسلم فسادات کا نشانہ بنے تھے۔ ان فسادات میں جو ایک معمولی سے واقعہ سے شروع ہوئے تھے62کے قریب افراد ہلاک ہوئے ان میں 42مسلمان تھے اور 20ہندو۔ ہندو بلوائیوں کے حملوں سے 50ہزار کے قریب مسلمانوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر ریلیف کیمپوں میں پناہ لینی پڑی اور مخالفین کے خوف کے پیش نظر ابھی تک ان کیمپوں میں مقیم ہیں۔ ریاست اور مرکزی حکومت کی طرف سے ان کے نقصانات کی تلافی یا انہیں تحفظ فراہم کرنے کے بارے میں ابھی تک کوئی اقدامات نہیں کیے گئے سب سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ فسادات کے دوران میں جن درجنوں مسلمان خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ان کو ابھی تک انصاف مہیا نہیں کیا گیا۔ بااثر ہونے کی وجہ سے ملزم نہ صرف برسر عام دندناتے پھرتے ہیں بلکہ زیادتی کا شکار ہونے والی خواتین اور ان کے اہل خانہ کو دھمکیاں دیتے پھرتے ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے اپنے ایک حالیہ اردو پروگرام میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی اس مسئلے پر ایک رپورٹ نشر کی ہے۔ اس رپورٹ میں صورت حال کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے وہ بڑا بھیانک ہے رپورٹ کے مطابق غنڈہ عناصر نے جن مسلمان خواتین سے اجتماعی زیادتی کی تھی وہ انصاف کے حصول کی خاطر ساڑھے تین برس کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی دربدر پھر رہی ہیں۔ ان کے کیس ابھی تک ابتدائی مراحل میں ہیں کیوں کہ ہر قدم پر ان سے امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ پولیس جان بوجھ کر ان کے کیسز کو التوا میں رکھتی ہے۔ شکایت اور ایف آر کے اندراج کو روکنے کے لیے مختلف قسم کے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔ حالانکہ فسادات کی تحقیقات کے نتیجے میں جو واقعات اور حقائق سامنے آئے تھے ان کی روشنی میں بھارت کی سپریم کورٹ نے نامزد ملزمان کے خلاف فوری طور پر مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تھا لیکن ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے احکامات پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ کیونکہ پولیس تعاون نہیں کررہی۔ ان بدنصیب خواتین کا واحد قصور یہ ہے کہ وہ نہ صرف مسلمان ہیں بلکہ انتہائی غریب ہیں۔ رپورٹ میں جن مقامی لوگوں کے انٹرویوز پیش کیے گئے ہیں ان کے مطابق 2013ء کے یہ فسادات تاریخ کے بدترین فسادات تھے جن پر قابو پانے کے لیے فوج کو بلانا پڑا۔ یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ بھارت میں ہندو مسلم فسادات کی تاریخ بہت پرانی ہے لیکن یہ فسادات شہری علاقوں میں ہوتے رہے ہیں اور دیہی علاقے ان فسادات بلکہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی سے بھی پاک رہے ہیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ دیہی علاقوں اور کاشتکاری اور مزدوری سے وابستہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے دو دھڑوں کے درمیان اتنے ہولناک فسادات ہوئے۔ ان فسادات کی تحقیقات کرنے والے کمیشن نے اتر پردیش کی ریاستی اور مرکزی حکومت دونوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ لیکن دونوں حکومتوں کی طرف سے واقعہ کے ذمہ دار اور خاص طور پر مسلمان خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا ارتکاب کرنے والے عناصر کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ حالانکہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے جدوجہد کرنے والی متعدد تنظیموں اور کارکنوں نے ریاستی اور مرکزی حکومتوں کی توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کروانے کی کوشش کی ہے مگر ریاست میں برسر اقتدار ایس پی کے سربراہ اکھلیش یادیو مرکز میں بی جے پی حکومت کے سربراہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس سمت کوئی قدم نہیں اٹھایا اس کی سب سے بڑی وجہ سیاسی مصلحت اور موقع پرستی ہے۔ مظفر نگر کے علاقے میں ہندو مذہب کے حامل جاٹ ذات کے لوگوں کی اکثریت ہے۔ ایس پی اور بی جے پی دونوں کو چونکہ اس برادری کے ووٹوں کی ضرورت ہے اس لیے وہ ملزمان جن کی اکثریت کا تعلق ہندو جاٹ برادری سے ہے کے خلاف کسی قسم کے اقدام سے احتراز کر رہے ہیں۔ مظفر نگر کے مسلمانوں کے بارے میں مودی سرکار کا یہ رویہ دراصل بی جے پی کی اس امتیازی اور معاندانہ پالیسی کا حصہ ہے جو اس نے برسر اقتدار آ کر مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں مثلاً عیسائیوں کے خلاف اختیار کر رکھا ہے جب سے بھارت میں 2014کے انتخابات کے نتیجے میں
بی جے پی کی حکومت برسر اقتدار آئی ہے مذہبی اقلیتیں اپنے آپ کو پہلے کے مقابلے میں زیادہ غیر محفوظ سمجھنے لگی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف تشدد کرنے والوں کو حکومت کی حمایت حاصل ہے بلکہ حکمران جماعت بی جے پی اور اس کی حلیف انتہا پسند ہندو جماعتیں مثلاً آر ایس ایس‘ شیو سینا ‘بجرنگ دل اور ہندو پریشد کے مسلح کارکن‘ مسلمانوں اور عیسائیوں پر حملوں اور ان کے خلاف تشدد کے متعدد واقعات میں ملوث پائے گئے ہیں۔ ان حقائق سے پردہ اٹھاتے ہوئے امریکہ کے ایک آزاد لیکن بااثر کمیشن ''یو ایس کمیشن آن انٹرنیشنل ریلجئیس فریڈم‘‘(USCIRF)نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں اقلیتوں بشمول مسلمان اور عیسائیوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں پر بھارت کی موجودہ حکومت پر سخت تنقید کی ہے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں امریکی حکومت سے سفارش کی ہے کہ بھارت کے ساتھ تجارت سرمایہ کاری اور دیگر معاملات میں لین دین کو ملک میں اقلیتوں کے ساتھ منصفانہ سلوک اور بنیادی انسانی حقوق کے احترام کے ساتھ منسلک کر دیا جائے کمیشن نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ بھارت میں 2014ء یعنی جب سے بی جے پی برسر اقتدار آئی ہے مذہبی تعصب اور عدم رواداری میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور اس سلسلے میں مویشیوں کا کاروبار کرنے والے مسلمان تاجروں پر تشدد کے متعدد واقعات کا حوالہ دیا ہے۔ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ان واقعات میں ہندو انتہا پسند تنظیموں کے ارکان کے علاوہ بھارتی سکیورٹی فورسز اور فوج کے جوان بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ اس تشدد کی بڑی وجہ بی جے پی کی موجودہ حکومت کی جانب سے شروع کی گئی گائوں رکھشا مہم ہے۔ بھارت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ جو بی جے پی کے صدر بھی رہ چکے ہیں‘ ایک حکم جاری کر رکھا ہے کہ مویشیوں خصوصاً گائے کو بھارت کے ہمسایہ ممالک کو برآمد
کرنے سے روکا جائے ۔ اس حکم کی آڑ میں بھارت کی بارڈر سکیورٹی فورس اُن تاجروں کو روک کر نشانہ بناتی ہے جو مویشیوں کے کاروبار سے منسلک پائے جاتے ہیں۔ رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے کمیشن کے چیئرمین تھامس جے ریس نے کہا ہے کہ اگرچہ بھارتی آئین کے تحت بلا لحاظ مذہب تمام شہریوں کو برابری کا درجہ حاصل ہے اور مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کے امتیازی سلوک کی ممانعت ہے لیکن حقیقت اس سے یک سر مختلف ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے مذہبی انتہا پسندی اور عدم برداشت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ بھارت کے بعض علاقوں میں مذہب کی بنیاد پر لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے خصوصاً موجودہ حکومت کے دور میں ''گائو ہتھیا‘‘ کے نعرے کو انتہا پسند اور جنونی ہندو عناصر جنہیں حکمران جماعت کی سرپرستی حاصل ہے‘ اقلیتوں کے خلاف تشدد اور دیگر ناانصافیوں کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ بعض ریاستوں نے گائو ہتھیا کی آڑ میں اپنی مرضی سے قوانین اور ضابطے تشکیل دے رکھے ہیں جنہیں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے حالانکہ بھارت کے آئین کے تحت اس قسم کے قوانین کی تشکیل کی اجازت نہیں لیکن مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لیے گائو کشی کے خلاف ان قوانین کا سہارا لیا جاتا ہے ستمبر2015ء میں اسی قسم کے ایک واقعہ میں دہلی کے قریب ایک گائوں میں رہنے والے ایک مسلمان شخص محمد اخلاق کو ہندو انتہا پسند عناصر نے بربریت کا نشانہ بنایا تھا۔ پہلے افواہیں پھیلائی گئیں کہ محمد اخلاق کے گھر میں گائے کا گوشت کھایا جا رہا ہے اور پھر اسی پچاس سالہ شخص کو گھر سے گھسیٹ کر باہر لایا گیا اور ڈنڈوں اور لاٹھیوں کے بے دریغ استعمال سے ہلاک کر دیا گیا۔ کمیشن نے امریکی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ وزیر اعظم مودی کی حکومت کو اس قسم کے واقعات اور مذہب کے نام پر منافرت پھیلانے والے اقدامات کی روک تھام پر مجبور کرے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ہر قسم کے اثرورسوخ کو استعمال کرے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved