تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     24-02-2017

شُکر ہے بچت ہوگئی!

آج پہلی دفعہ سمجھ نہیں آرہی لکھنے کا آغاز کہاں سے کروں‘اس میں میراقصور کوئی نہیں‘ ساراقصور آج کے وکالت نامے کے موضوع کاہے ۔یقیناآپ کو اس موضوع پر پہلے وہ لطیفہ نما واقعہ یاد آئے گاجس میں ایک شخص د ل وجان سے بھاگتاہوابیچ چوراہے گِرپڑا۔لوگوں نے اٹھایا، اس نے پھر بھاگنے کی کوشش کی۔ اٹھانے والوں نے سوال کیا۔؟کہ اس قدر تیز کیوں بھاگ رہے ہو۔بھگوڑابولا'' عزتـ‘‘ بچاکر۔
اگلاسوال یوں تھا کیاہوا۔؟بھگوڑاکہنے لگا پچھلے چوک میں بے قابو ہجوم میرے بزرگوں کی لترول کررہاہے ۔شکر ہے میری بچت ہوگئی عزت بچاکرنکل آیا ہوں ۔اس لطیفے کے بعد یقیناآپ کو ملکی تاریخ کے انقلابی پروگرام یاد آرہے ہونگے۔وہ انقلاب انگیز پروگرام جن کے بارے میں انتہائی معتبر ادارے ہمیشہ ''فی سبیل اللہ‘‘ سروے جاری کرتے ہیںاورپاکستانی قوم کو بتاتے ہیں کہ شکر ہے میگا پروجیکٹس پیلی ٹیکسی،اورینج ٹرین،سرخ بس،گرین پنجاب،سستی روٹی،آشیانہ ہائوسنگ ،لیپ ٹاپ ،دل کے اسسٹنٹ ،امراض قلب کی دوائی ،کھانسی کا سیرپ، چھوٹو گینگ سمیت ہر جگہ پنجاب کے خزانے کی تاریخی بچت ہوگئی۔ بہرحال'' فی سبیل اللہ‘‘ سروے کرنے والے اکثر ایک ہی بات بھول جاتے ہیں۔ و ہی بات جس کے بارے میں بُھلکڑشاعرنے اپنا بُھول پن ان لفظوں میں تسلیم کیاتھا ؎
روز کہتا ہوں بھول جائوں تجھے 
روزیہ بات بھول جاتا ہوں 
''فی سبیل اللہ‘‘ سروے کرنے والے عالمی اِدارے جن کو عالمی برادری کے غافل لوگ نہ جانتے ہیں نہ پہچانتے ہیں‘جوبات ہرسروے میں بھول جاتے ہیں، اسے لاہور ہائی کورٹ کے عادل چیف جسٹس سید منصورعلی شاہ نے یادرکھااوروہ ہیں پیپرارولز۔ جن کے ذریعے حکومتوں کوٹھیکے دینے اورخریداریاں کرنے کاپابند بنایا 
گیا ہے ۔عام فہم زبان میں جب کوئی بڑا یامیگاٹھیکہ دینامقصود ہوتواس کے لیے انٹرنیشنل ٹینڈرز طلب کیے جاتے ہیں۔بین الاقوامی فرم یا کمپنیوں میں سے جو بھی مطلوبہ میدان میں تجربہ اورمالی مضبوطی رکھتی ہو،اُسے پری کوالیفائی کیاجاتا ہے ‘یعنی ایک طرح سے ایسی فرم یاکمپنی کومیگاپروجیکٹ کے لیے اہل قرار دیاجاتاہے ۔جس کے بعد خفیہ بیلٹ یاپیش کش پر کام کرنے کاریٹ بند لفافے میں حکومت کوبھیجا جاتاہے ۔پھرسب سے کم ریٹ کی آفر کرنے پرٹینڈرداخل کرنے والی فرم یاکمپنی اہل قرارپاتی ہے ۔اس مرحلے پر حکومت کے عہدے داراس بات کے قانوناًپابند ہیں کہ وہ میگاپروجیکٹ کی تعمیر کے لیے منتخب ہونی والی کمپنی کو پراجیکٹ کے حوالے کرنے سے پہلے اس سے ٹینڈرمیں دی گئی پیش کش کے ریٹ مزید کم کروائیں۔ یہ ساراعمل شفاف ہوناچاہیے ۔جس کے دومطلب ہیں۔پہلا یہ کہ ٹینڈر کاغذات سے ایگریمنٹ تک سب کچھ قومی میڈیا، آزاد عدلیہ ، اورخودمختارپارلیمنٹ کی رسائی میں ہو۔میرے دورِوزارت قانون میں آئین کے آرٹیکل 19-Aکوبنیادی انسانی حق کے طورپر 1973کے دستورکا حصہ بنایاگیا۔آرٹیکل 19-Aکی رو سے حکومتی اورریاستی معاملات میں معلومات تک رسائی ویساہی بنیادی انسانی حق ہے، جیساکہ آزادی ٔاظہار، تحریروتقریرکی آزادی کا حق یا پھر فریڈم آف پریس۔ایک طرف میگا پراجیکٹس میں اربوں روپے کی بچت کے دعوے ہو رہے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب قطرسے خریدی گئی LNG،ملتان کی مہنگی ترین میٹروبس اور لاہورکی تباہ کن اورنج ٹرین کے ٹھیکوں کے معاہدے،ایٹمی راز سے بھی زیادہ محفوظ ہیں۔ آج ہم کمال کی گورننس دیکھ رہے ہیں۔فوجی سربراہوں اور خفیہ اداروں کی میٹنگ وزیراعظم ہائوس سے فوراًلیک ہوجاتی ہے لیکن میگاکمیشن کے لیے مشہور میگاپراجیکٹس کے معاہدے کوہواہی نہیں لگنے دی جا رہی۔ساتھ کہاجاتا ہے ہم نے ہزاروں ارب روپے کی بچت کرلی۔اس کے بھی دومطلب نکلتے ہیں۔پہلایہی کہ بچت کرکے سات سمندر پارجائدادبنالی گئی۔ دوسرایہ کہ معاہدے پیپراقانون کے مطابق شفاف تھے۔ اگرمعاہدوں میں شفافیت موجود ہے توانہیں 
عام کردینے میں حرج ہی کیا ہے ۔؟ورنہ قوم یہی سمجھے گی کہ شُکر ہے اوربچت ہوگئی جوسیدھی حکمرانوں کے فارن اکائونٹس میں جا پہنچی۔ بچت ہوگئی کا نعرہ آج جگہ جگہ سے بلند ہورہا ہے ۔یہ جاننے کے لیے کہ کہاں کہاں بچت ہوگئی ‘دنیا اخبارپڑھ لیناکافی ہے ۔اسی لیے خادم اعلیٰ ان لفظوں میں نوٹس لیتے پائے جاتے ہیں‘فلاں محکمے میں بھرتیوں اورخریداری کے عمل میں شدید گھپلے خادم اعلیٰ نے ''سخت نوٹس‘‘ لے لیا۔ ساتھ فرمایا کسی کو ایک پائی بھی نہیں کھانے دوں گایہاںکسی کو سے مراد "کسی اورکو" ہے ۔اس نوٹس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ شُکر ہے "کسی اور کی"بچت ہو گئی۔ 
چیف ایگزیکٹو کے عہدے کو جب چیف منسٹر اور پھر وزیر اعلیٰ سے خادم اعلی تک کے ٹائٹل عطا ہوئے‘ اس سارے عرصے میں صرف ایک پراجیکٹ ایسا ہے جس کے دریا برد ہونے پر خادم اعلی کو نوٹس لینے کی فرصت نہ مل سکی۔ کچھ جمہوریت کش ترقی دشمن کہہ رہے ہیں کہ خان پور کنال پر شیخو پورہ میں بنائے گئے پاور پراجیکٹ کے افتتاح والے دن منٹوں میں اس کے زمین بوس ہونے پر نوٹس نہ لینے کی وجوہات وہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ ترقی کے یہ دشمن 250ملین روپے کی کثیر لاگت سے تعمیر ہونے والے خان پور کینال پاور پراجیکٹ کی ٹیسٹنگ کے وقت جائے وقوعہ پر کیمروں سے مسلح ہو کر موجود تھے‘ پاور پراجیکٹ کے نیچے جونہی پانی چھوڑا گیا‘ یہ تنکوں کی طرح دھڑام سے زمین پر آگرا اور منٹوں میں دریا بُرد ہو گیا۔ کیمروں سے مسلح اس "فوٹو"گینگ نے ترقی کو تباہ کرنے کے لیے اِس ترقی پسند پاور پراجیکٹ کی 
دردناک ویڈیو بنائی۔ ترقی کے یہ دشمن مزید آگے بڑھے اور انہوں نے یہ ویڈیو بڑی بے رحمی سے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دی۔ جو جمہوریت دشمن عوام میں پہلے دن ہی سارے ریکارڈ توڑ کر وائرل ہو چکی ہے۔ اس میںخیر کا پہلو یہ ہے کہ اللہ کے 
فضل و کرم سے عوام کے پیسے کی100 فیصد بچت ہو گئی۔ ایسا ناقص پراجیکٹ ہم کیسے برداشت کر لیتے...؟ اب انشاء اللہ چین کی کسی فراخ دل کمپنی سے نئے سِرے سے نیامعاہدہ ہو گا جس میں سے نیا کمیشن، نیا کِک بیک، نیا قرضہ اور نیا پراجیکٹ پوری محنت سے تیار کیا جائیگا۔ بچت کا ایک اور بڑا پراجیکٹ بھی قابل ذکر ہے جس کے مطابق پنجاب پولیس کے آئی جی اور چند انتہائی قابل فخر بیوروکریٹس کو آرمی چیف سے زیادہ تنخواہیں، چیف جسٹس سے زیادہ مراعات اور صدر مملکت و وزیراعظم سے زیادہ بعد از ریٹائرمنٹ سہولتیں ملیں گی۔ ہاں ا لبتہ ابھی تک یہ دریافت نہیں ہو سکا کہ پنجاب کے ان بہادر سپوتوں نے وہ کون سی جرأت رندانہ دکھائی اور کون سا نمایاں کارنامہ سرانجام دیا جس کی وجہ سے قوم کے یہ تنخواہ دار خادم ساری زندگی کے لیے قوم کے خرچے پر مخدوم بن گئے۔ ایسا ہی ایک مخدوم اگلے روز سپریم کورٹ سے نکلا اور اپنے ماتحت سے کہنے لگا شکر ہے بچت ہو گئی۔ قوم کا یہ ملازم بھی ہمارے بجٹ کو اتنا ہی مہنگا پڑتا ہے جتنے پنجاب کے مخدوم گروپ والے سرکاری ملازم۔ اِس وفاقی مخدوم پر منی لانڈرنگ کے سہولت کار کی چھاپ، منی لانڈرنگ کے حلفیہ بیان سے بین البراعظمی شہرت پانے والے وزیر خزانہ کے سہولت کار ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ سپریم کورٹ نے اس مخدوم اعلیٰ سے سوال کیا کہ 10ماہ میں وزات خارجہ تک200گز کا سفر کیوں نہ طے ہو سکا۔؟ جواب آپ سب کو معلوم ہے۔ آج سرکاری ملازمت درباری خوشامد میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اس لیے لا کا مطلب کچھ لے کر آ! جب کہ آرڈر کا مطلب ذاتی کاروبار والے حکم کی تعمیل کرو۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ قوم کے چیتھڑے اُڑ رہے ہیں،حکمرانوں کے جہاز۔ قوم ہر روز بدامنی اور دھماکے سے پریشان ہوتی ہے۔ حکمران ہر وقت فارن اکائونٹس بچانے کے لیے فکر مند رہتے ہیں۔ پانامہ کیس پر تاریخ پڑ گئی قوم کی امیدوں پر اوس پڑے گی یا مٹی‘ حکمران خوش ہیںشکر ہے بچت ہو گئی‘ بے شک اگلی تاریخ تک ہی سہی ؎
پہلے اس نے مُس کہا، پھر تق کہا، پھر بِل کہا
اس طرح، ظالم نے مستقبل کے ٹکڑے کر دیے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved