امریکہ سے ہم اسلام آباد پہنچے تو ہمارا سامان ہمارے حوالے کرنے والے ایئرپورٹ اہلکار نے ہمیں بتایا کہ اس وقت ملک میں سکیورٹی ہائی الرٹ پہ ہے۔ گھر جانے کے لئے جب ہم ٹیکسی میں بیٹھے تو ٹیکسی والے نے بھی یہی بات کہی۔ سامان اٹھائے جب ہم اپنے اپارٹمنٹ والی بلڈنگ پہنچے تو اندر داخل ہونا ہمارے لئے محال ہو گیا۔ شیشے کا وہ بڑا سا دروازہ کھل ہی نہیں رہا تھا۔ اندر ریسیپشن پہ بیٹھا آدمی یہ سارا نظارا دیکھ رہا تھا۔ ہم نے اشارے سے اسے دروازہ کھولنے کو کہا‘ لیکن اس نے ہمارے اشارے بالکل نظر انداز کر دیے۔ خوش قسمتی سے وہاں ایک صاحب نے ہمیں پہچان لیا، سو تب ہمارا داخلہ ممکن ہو پایا۔ اس نے ہم سے پوچھا کہ ہمارے سوائپ کارڈز کہاں ہیں۔ ہم نے متاسفاً بتایا کہ کارڈز لانا تو ہم بھول گئے۔ اس پہ اس نے بتایا کہ پھر اگلی بار آپ لوگوں کو بلڈنگ میں داخلے کی اجازت نہیں ملے گی۔ اگر میاں صاحب کی حکومت ہماری بلڈنگ کی انتظامیہ کی مانند ہی کچھ منظم اور مستعد ہوتی اور بعض وزرا کو سیاسی چالیں کھیلنے دینے کی بجائے قومی سلامتی کے مشیر جنرل (ر) ناصر جنجوعہ کو نیشنل ایکشن پلان پہ عمل درآمد کی نگرانی کی کھلی اجازت دے دی جاتی تو اس وقت دہشت گردانہ کارروائیوں میں قتل و غارت گری کے اعداد و شمار مختلف ہو سکتے تھے۔ ٹی وی سکرینوں پہ بھانت بھانت کے سیاستدان نظر آتے ہیں جن کے پاس کہنے کو کچھ بھی نیا نہیں ہوتا۔ وہی پُرانی گھسی پٹی باتیں یہ لوگ کرتے ہیں جو ہم سب برسوں سے سنتے چلے آ رہے ہیں۔ بعض ایسے ہیں جو میاں صاحب کی مدح سرائی کرتے تھکتے نہیں اور بعض دہشت گردی کی اس حالیہ لہر کے لئے ذمہ دار انہی کو ٹھہرا رہے ہیں۔ وزیر داخلہ چودھری نثار کہتے
ہیں کہ مولانا فضل الرحمان، آفتاب شیرپائو، اچکزئی اور کائرہ صاحبان کے ساتھ ان کی بڑی مفید بات چیت ہوئی ہے۔ عوام مر رہے ہیں اور یہ لوگ لگتا ہے کہ کسی متوازی دنیا میں زندگی گزار رہے ہیں۔ پھر دوسری طرف خود کو سندھ کا مائی باپ سمجھنے والے زرداری صاحب ہیں جو آئے دن سفید براق لباس میں ملبوس کسی نہ کسی اجلاس کی کرسیء صدارت پہ براجمان نظر آتے ہیں۔ پھر عمران خان ہیں جنہیں حکمرانوں کے خلاف زہریلے شعلے اُگلنے سے ہی فرصت نہیں ملتی۔ ٹی وی پہ بھی صبح شام خبروں کے نام پہ چیخم دھاڑ جاری رہتی ہے۔ خواتین انائونسرز ہر دوسرے لمحے میں چیخ چیخ کر ناظرین و سامعین کو بے معنی قسم کی خبریں بریکنگ نیوز کے نام پہ سنا رہی ہوتی ہیں۔ سننے والوں کو بتایا جاتا ہے کہ ملک بھر میں حکومتی اداروں نے راتوں رات کارروائی کر تے ہوئے متعدد کامیاب چھاپے مارے ہیں اور کئی ایک دہشت گردوں کو قتل کر دیا گیا ہے یا پھر حراست میں لے لیا گیا ہے۔ یعنی حکومت کی جانب سے عوام کو پیغام یہ دیا جا رہا ہوتا ہے کہ بزدلی سے اور خوف سے کام لینے کی چنداں ضرورت نہیں۔ کسی بھی واقعے کے بعد دہشت گردوں کی گرفتاری اور ہلاکت کی خبریں ہم برسوں سے سنتے چلے آ رہے ہیں۔ اگر ہمارے ادارے واقعی جانتے ہیں کہ دہشتگردوں کے ٹھکانے کہاں ہیں تو انہیں ہدف بنانے کے لئے کوئی خود کش حملہ ہونے کا انتظار کیوں کیا جاتا ہے؟ سندھ، بلوچستان، پختونخوا، فاٹا اور پنجاب میں پچھلے پندرہ دنوں کے دوران سینکڑوں لوگ مارے گئے ہیں۔ ہمیں بھولنا نہیں چاہئے کہ گیارہ ستمبر کے واقعات کے بعد پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنی
جنگ تسلیم نہیں کیا تھا۔ سالوں تک ہمارے قائدین یہ کہتے رہے کہ دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ امریکہ کی جنگ ہے، پاکستان کی نہیں؛ تاہم اب صورتحال بدل چکی ہے۔ آج امریکی میڈیا اور امریکی انتظامیہ حتیٰ کہ خود امریکی ''Tweeter In Chief‘‘ ڈونلڈ ٹرمپ بھی پاکستان میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پہ اظہارِ افسوس تو کُجا ان واقعات کا ذکر تک نہیں کر رہے۔ بُش انتظامیہ نے مشرف حکومت کو دہشت گردی سے لڑنے کے لئے دس بلین ڈالرز کی امداد دی تھی۔ امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ سینکڑوں ملین ڈالرز مالیت کا جدید اسلحہ، جدید آلات اور سنسرز کے علاوہ Mi-17 ٹروپ ٹرانسپورٹ ہیلی کاپٹرز، کوبرا ہیلی کاپٹر‘ گن شپس کے سپیئر پارٹس، نائٹ ویژن گاگلز، حفاظتی لباس اور جاسوسی کے جدید ترین آلات امریکہ نے پاکستان کو راتوں رات فراہم کر دیے تھے؛ تاہم دی نیو یارک ٹائمز کے مطابق ''اب تک یہ واضح نہیں ہوا کہ آیا پاکستانی حکام شہری علاقوں میں دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے ان جدید آلات کو بروئے کار لا رہے ہیں یا نہیں‘‘۔ اسی لئے تو اگر امریکی وائٹ ہائوس، وزارتِ خارجہ اور پینٹاگون والے دس بلین ڈالرز سے زائد اس امداد پہ، کہ جس کا حساب بھی مشرف حکومت نہیں دے سکی، برانگیختگی کا اظہار کرتے ہیں تو یہ حیرت کی بات نہیں۔ کئی برسوں سے ایک کرپٹ اور نااہل ریاست کے طور پر پاکستان کی ساکھ کا اثرِ بد ہماری سکیورٹی پر بھی پڑتا رہا ہے۔ پاکستان میں جگہ جگہ دہشت گردی سامنے آ رہی ہے اور ایسے وقت میں جبکہ ہمیں ان دہشتگردوں سے نمٹنے کے لئے بیرون ملک سے ماہرین، ہارڈویئر اور ٹیکنالوجی درکار ہے، مغرب والوں نے ہم سے بالکل ہی ہاتھ اٹھا لئے ہیں۔ خود میاں صاحب
کی حکومت کو پاناما دستاویزات اور حدیبیہ پیپر ملز کا ناگ جکڑے ہوئے ہے۔ سپیرے کا کردار البتہ نیب کے چیئرمین قمر زمان چودھری نے خوب نبھایا‘ جنہوں نے جج صاحبان سے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ وہ حدیبیہ منی لانڈرنگ کیس کا فیصلہ چیلنج نہیں کریں گے کیونکہ سن دو ہزار تیرہ میں لاہور ہائی کورٹ اس معاملے میں شریف خاندان کی برّیت کا اعلان کر چکی ہے۔ دوسری طرف وزیر اعظم کے ترجمان دانیال عزیز بھی ان کے دفاع میں بول رہے ہیں۔ ان کا اور خواجہ سعد رفیق کا بھی یہ ماننا ہے کہ میاں صاحب دودھ کے دھلے ہیں جبکہ سارے کالے کرتوت وہ عمران خان کے کھاتے میں ڈالتے ہیں؛ چنانچہ اس وقت کرپشن کے عفریت نے دہشت گردی کے عفریت کو ایک طرف کر رکھا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے جاری کردہ ہائی الرٹ بھی پسِ پشت پھینکا جا چکا ہے۔ اس وقت اہمیت اس کہانی کی ہے کہ تیسری بار وزارتِ عظمیٰ پہ متمکن ہونا میاں نواز شریف کے لئے کیونکر ممکن ہوا؟ میڈیا کے بھلے مانس اپنا کام کرتے ہوئے ان کوششوں میں ہیں کہ عسکریت پسندی اور کرپشن کے ان دونوں متضاد بیانیوں کی دلدل میں دھنسنے سے خود کو کسی طور بچائے رکھیں۔ کڑیاں ملا کر دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ ہمارے حکمرانوں کے ہی عامیانہ پن، کرپشن اور اقربا پروری کی بدولت دہشت گردوں کو کھلی چھُوٹ ملی ہے۔ ہمارے ملک میں ہوم لینڈ سکیورٹی کے طرز کے ایک ادارے کی ضرورت ہے جس کی قیادت ایک غیر سیاسی مگر سخت گیر قسم کے شخص کے ہاتھ ہونی چاہئے۔