بھارتی سکیورٹی فورسز میں لانس نائیک تیج بہادر کو شاید اس لئے بھگت سنگھ سے تشبیہ دی جا نے لگی ہے کہ وہ خود تو اس وقت اپنے افسران کے ظلم کی چکی میں کسی نامعلوم مقام پر پس رہا ہے ( جس پر اس کی بیوی شیلا نے حبس بیجا کی رٹ دائر کر رکھی ہے) لیکن اس کی قربانی نے بھارت بھر کی سکیورٹی فورسز کے نچلے درجے کے ملازمین کو اس طرح زبان دے دی ہے کہ ان کی باتیں اب وزیر اعظم اور آرمی چیف بھی سننے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ یکے بعد دیگرے بھارتی فوج کے جوان جس طرح اپنے افسران کی کرپشن اور ظلم کی داستانیں سوشل میڈیا پر لا رہے ہیں‘ اس کا سلسلہ اب بھارت کے جرنیلوں تک جا پہنچا ہے۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ بھارت میں جونیئر افسران کو اپنی ترقی کی بہترین اے سی آر کیلئے یا تو کسی فوجی اور سول افسر کا بیٹا، بھائی، داماد ہونا ضروری ہے‘یا وہ کسی افسر کا اے ڈی رہ چکا ہو یا وہ قیمتی تحفے تحائف دینے میں مہارت رکھتا ہو۔
بھارتی سماج اور معاشرے کے بارے میں تحقیقی مقالے لکھنے والے شیلش رانادے نے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں انڈین آرمی کے جنرلز کے بارے میں جو حقائق بیان کئے ہیں اس نے پورے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''نریندر مودی اگر کرپشن کے خلاف جنگ جیتنا چاہتے ہیں تو انہیں سب سے پہلے50-60 کے قریب آرمی، نیوی، ایئر فورس اور پیرا ملٹری فورس کے ٹاپ رینک افسران پر ہاتھ ڈالنا ہو گا‘ ورنہ جو تباہی اور شکست و ریخت ا س وقت بھارتی فوج کے اندر ہو رہی ہے‘ اس نے دوسری جنگ عظیم میں ہیرو شیما پر گرائے جانے والے نیوکلیئر بموں کی یاد تازہ کر دی ہے۔ جاپان تو پھر بھی ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹمی حملوں کے صرف پانچ سال بعد اپنے قدموں پر پھر سے کھڑا ہونے کے قابل ہو گیا تھا لیکن جس قدر بربادی بھارتی فوج کے اندر ہو چکی ہے‘ اس کاازالہ کئی برسوں تک ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ۔ دور نہ جائیں گزشتہ چالیس برسوں میں بھارتی ایئر فورس کے تباہ ہونے والے پچاس یا سو نہیں بلکہ 482 مگ طیاروں کا معاملہ ہی لے لیں۔یہ 482 مگ طیارے تو ایک طرف‘ ان کے ساتھ354 ایئر فورس کے پائلٹ بھی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں اور اس کے ذمہ داروں کو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔ انڈین آرمی کے اندر ڈسپلن کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ عام افسران ہی نہیں بلکہ ان کے سابقہ اور موجو دہ آرمی چیفس کے جھگڑے بھی بھارت اور دنیا بھر کے میڈیا میں گونج رہے ہیں بلکہ نوبت یہاں تک پہنچ رہی ہے کہ میجر جنرل رینک کے کسی افسر کو اگر لیفٹیننٹ جنرل کے رینک پر ترقی نہیں ملتی تو وہ ایک طوفان کھڑا کر دیتا ہے۔ کسی بھی فورس کا ڈسپلن اسی وقت زمین بوس ہوتا ہے جب وہ کرپشن اور اقربا پروری کی دلدل میں اس حد تک دھنس جاتی ہے کہ فلیگ رینک حاصل کرنے والا سمجھنے لگتا ہے کہ اسے اب رولز اور ریگولیشنز کے مطا بق عمل کرنے کی ضرورت ہی نہیں بلکہ بھارت کی فوجی انٹیلی جنس کی وہ رپورٹس تو دل دہلا دینے والی ہیں‘ جن میں بتایا گیا ہے کہ ہمارے کئی جنرلز اس حد تک گر جاتے ہیں کہ فوجی میس یا آرمی گیسٹ ہائوس کا کوئی بھی کمرہ خالی کرتے وقت باتھ رومز سے ٹوتھ برش، پیسٹ اور تولئے تک ساتھ لے جاتے ہیں اور فیملی کو پسند آنے والی وہ پینٹنگز جو بریگیڈ کے فنڈز سے خریدی جاتی ہیں اپنے ساتھ لے جاتے ہوئے ذرا بھی نہیں شرماتے‘‘۔
حقیقت یہ ہے کہ ان جرنیلوں کی وجہ سے انڈین آرمی اندر سے اس قدر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے کہ ان کی آپس کی گروہ بندی نے فوج کے جونیئر اور سینئر جرنیلوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ شیلش رانا مزید لکھتا ہے '' انڈین آرمی کی تباہی کی جانب بڑھنے کی بات کا مطلب یہ نہیں کہ حکومتی ملکیت کے بحری جہاز، ٹینک،جنگی طیارے، میزائلوںیا توپوں کی تباہی ہو رہی ہے بلکہ ان سب سے زیا دہ اہم فوج کا وہ اصلی اور قیمتی عنصرختم ہو تا جا رہا ہے جس سے فوجی کسی بھی دشمن کے خلاف بے خوفی اور جذبے سے میدان جنگ میں اترتا ہے۔ آج بھارتی فوج کاmoral fiber دائو پر لگ چکا ہے‘‘۔
کسی بھی فوج یا فوجی کا'' Moral Fiber‘‘ ختم ہو جائے تو وہ وردی پہن کر چلنے پھرنے والا فوجی افسر تو ہو سکتا ہے لیکن اس کے اندر کا'' فوجی‘‘ ختم ہو جاتا ہے ۔ انڈین آرمی میں بے انتہا کرپشن چونکہ آج بھارت کی سول سوسائٹی اور میڈیا میں ہر وقت زیر بحث رہنے لگی ہے‘ ا س لئے کچھ حلقوں کی جانب سے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ فوج کے جوان اور افسر بھی تو اسی سوسائٹی اوراس کے پس منظر سے وابستہ خاندانوں سے ہی آتے ہیں اورWhen there is muck all around یعنی جب ہر طرف گندگی پھیل جائے تو ایسے میںان فوجیوں کا کیا قصور‘ انہوں نے بھی تو اسی معاشرے کے رنگ ہی میں رنگے جانا ہے۔ شیلش لکھتا ہے کہ اس دلیل کو کسی طور بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ بھارت کا کوئی بھی جوان جب فوج میں اپنی مرضی سے شمولیت اختیار کرنے کے بعد بطور کیڈٹ اپنے نئے پیشے کو اپنانے کا آغاز کرتا ہے تو اس کا کلچر بھارت کے ہر پیشے سے مختلف ہوجاتا ہے۔ ہاں اگر وہ انجینئرنگ، میڈیکل، ماس کمیونیکیشن، آئی ٹی یا آرٹسٹک پیشہ اختیار کرتا ہے تو پھر کہا جاسکتا ہے کہ وہ آج کے اسی کرپٹ ہندی معاشرے کا حصہ بن گیا ہے جو اس وقت ہر سو پھیل چکا ہے لیکن ایک فوجی ان سب پیشوں سے مختلف ہونے کی وجہ سے وہ معاشرے سے تقریباً کٹ کر رہ جاتاہے کیونکہ اس کی میس، اس کا کھانا پینا اور طور طریقہ ، لباس سب سویلین سے بالکل ہی مختلف ہو جاتے ہیں۔ اسے کھانے پینے اور دوسری ضروریات کیلئے کسی کی محتاجی نہیں رہتی۔ اس کے کام کی حیثیت اس حد تک مختلف ہو جاتی ہے کہ اکثر اسے چوبیس گھنٹے تو کیا مہینوں اپنے فرائض کیلئے ہی وقف ہونا پڑتا ہے۔ فوجی چھائونیاں‘ جہاں انہیں رکھا جاتا ہے‘ سب سے علیحدہ اور صاف ستھری ہوتی ہیں اور اپنے ہی قانون اور ڈسپلن کی پابند ہوتی ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہـ بھارت میںـ '' ایک ایماندار کیڈٹ اپنی تیس سال کی نوکری کے بعد'' چور جرنیل ‘‘ کے نام سے پکارا جانے لگتا ہے؟آدرش اور سکھنا لینڈ سکینڈلزبھارتی فوج کے منہ پر تمانچے سے کم نہیں جبکہ آدرش لینڈ سکینڈل میں بھارت کے تینوں سروسز چیفس کے نام آئے ہیں۔
کرپشن کی داستانوں میں صرف انڈین آرمی کے جرنیل ہی نہیں بلکہ بھارت کی بحریہ کے ایڈمرل اور ایئر فورس کے چیفس بھی شامل ہیںجس کا واضح ثبوت بھارتی ایئر فورس کے سابقہ ایئرمارشل کی وہ کرپشن ہے‘ جس کے بارے میں جان کر پوری انڈین فورس کانپ کر رہ گئی ہے۔ اور یہ کیسے ممکن ہے کہ اربوں روپے کی اس گنگا میں اکیلے بھارتی ایئر چیف مارشل نے ہی ڈبکیاں لگائی ہوں؟ تباہی کے طوفان کا اندازہ اسی سے کیجئے کہ چند سال قبل ایک ایڈ مرل نے خود کو ایک درجہ نیچے کرتے ہوئے اس لئے جائنٹ سیکرٹری رینک کے برا بر کر لیا تھاکہ نیوزی لینڈ میں اپنی پوسٹنگ کرا سکے۔اب اس سے زیادہ اور کتنا گرا جا سکتا ہے؟