تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     25-02-2017

منصفوں کی خدمت میں

منصف اگر سچّے ہیں ...اورمیرا خیال ہے کہ سچّے ہیں ۔توفیق الٰہی کے اگر آرزو مند ہیں۔ دعا کرنی چاہیے کہ آرزو مند رہیں تو وہ سرخرو ہوں گے اور قوم بھی۔ انہیں برکت عطا ہوگی اور اس سرزمین کو بھی۔'' الصّدق ُ یُنجِی وَالکِذبُ یُھلِک‘‘۔
موزوں ترین الفاظ میں عدالت عظمیٰ کے منصفوں نے اصول واضح کر دیا ہے ۔ سوال عمل کا ہے اور توفیق الٰہی کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ نماز کے لیے آدمی کھڑا ہوتا ہے تو آغاز ایک دعا سے کرتا ہے: ''میں نے اپنا رخ اس کی طرف کر لیا‘ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔میں حنیف ہوں اور مشرکوں میں سے نہیں۔‘‘
قرآنِ کریم میں ہے: کانَ ابراہیم َ حنیفا‘ بے شک ابراہیمؑ یکسو تھے۔ آپؑ کو ابوالانبیا اور خلیل اللہ کہا گیا۔ درود پڑھا جاتا ہے تو ان کا نام لیا جاتا ہے‘ مثال دی جاتی ہے۔اے اللہ برکت دے محمدؐ اور ان کی آل کو جیسے برکت دی ابراہیمؑ اور ان کی آل کو‘ بے شک تو حمد کا سزا وار، بزرگ و برتر ہے ۔اقبالؔ کے فلسفہ عقل و عشق سے بعض اہل علم نے اختلاف روا رکھا ۔ مشرق کے عظیم المرتبت شاعر نے کہا تھا: ؎
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لب بام ابھی
اس عقل سے ان کی مراد‘ بھٹکتی ہوئی دانش ہے‘ وحی سے بے نیاز۔ ؎
عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے
عشق بیچارہ نہ زاہد ہے نہ ملّا نہ حکیم
زاہد سے مراد حقیقی پرہیز گار نہیں۔ صوفیا کے رہبر جناب سعید بن المسیبؒ نے کہا تھا: دنیا کے سردار زاہد ہیں۔ اقبالؔ یہ کہتے ہیں: ؎
کاملِ اس فرقہ زہّاد سے اٹھا نہ کوئی
کچھ ہوئے بھی تو یہی رندانِ قدح خوار ہوئے
دانش کے حریف وہ قطعی نہیں ۔ کہا کہ ؎
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نُور
چراغِ راہ ہے‘ منزل نہیں ہے
غورو فکر ‘اگر ایمان تک نہ لے جائے‘ جیسا کہ جناب ابراہیمؑ کو لے گئی تھی ،زندگی دلدل ہو گی ،اگر وہ عقلِ عام کی حدود میں گرفتار رہے گی۔سوچ بچار ہی سے انہوں نے اخذ کیا کہ اس کائنات کا کوئی خالق اور پروردگار ہے۔ ستارے کو انہوں نے مالک و مختار جانا‘ پھر آفتاب کو۔ آخر کو یہ کہا کہ وہ ڈوب جاتے ہیں اور ڈوبنے والا معبود نہیں ہو سکتا۔ غور و فکر ہی سے یقین تک وہ پہنچے کہ بتوں کو توڑ دیا۔ کیا کمال کی حسِ مزاح تھی۔ پھرہتھوڑا بڑے بت کے کندھے پر رکھا ۔ ان سے پوچھا گیا تو کہا: مجھے کیا معلوم‘ اسی نے توڑے ہوں گے۔ انہوں نے یہ کہا کہ وہ حرکت تک نہیں کر سکتے ۔ جواں سال آدمی نے سوال کیا: پھر ان کی عبادت کیوں کرتے ہو؟
امانتِ عقل و علم کے سرخیل ابراہیمؑ ‘ اقبال کے لیے کاملیت کا استعارہ ہیں: ؎
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینے میں بنا لیتی ہے تصویریں
عصرِ حاضر کے عارف‘ اقبال کے وارث ہیں۔وہ یہ کہتے ہیں کہ دانش کے اجالے ہی میں معرفت الٰہی کا شعور ممکن ہے۔ قرآن کریم کی اس آیت کا مفہوم‘ ہم نے انہی سے سمجھا: جو ہلاک ہوا‘ وہ دلیل سے ہلاک ہوا اور جو زندہ رہا وہ دلیل سے زندہ رہا۔
عدالت عظمیٰ کے تیور امید اگاتے ہیں ۔یہ سرزمین ،یہ قوم آزمائش سے دوچار ہے ، اللہ کے آخری رسولؐ نے جس کے لیے برکت کی پیش گوئی کی تھی۔ امام محمد اسمعٰیل بخاریؒ کو ''پیغمبر فی الحدیث‘ ‘کہا جاتا ہے۔ علماء قرار دیتے ہیں کہ قرآن کریم کے بعد صحیح ترین کتاب ان کا مرتب کردہ مجموعہ ہے ۔ عالی مرتبتؐ کا جو پہلا ارشاد اس میں رقم ہے ، اس کے الفاظ یہ ہیں: ''اعمال کا دارو مدار نیت پرہوتا ہے‘‘ ۔
عرب مردوں کا دستور تھا کہ انگوٹھی پہنا کرتے۔ اصحاب رسولؐ بھی‘ خود سرکارؐ بھی۔ آرائش کے لیے نہیں کہ یہ خواتین کا شیوہ اور شعار ہے بلکہ شناخت کے لیے ۔ رسول اکرمؐ کی مہر مبارک سے ہم سب واقف ہیں‘ جس پر محمد رسول اللہ رقم تھا ، نیچے سے اوپر ۔ پہلے ''محمد ؐ ‘‘ اس کے اوپر ''رسول‘‘ اور سب سے بلند ''اللہ‘‘ ۔ یہ دستاویزات پہ ثبت کی جاتی ۔ کبھی کوئی اپنی انگشتری کسی پیامبر کے ہاتھ بھی بھیجتا۔ ایک کے بعد وہ دوسرے جانشین کو منتقل ہوتی رہی‘ تاآنکہ سیدنا عثمان ؓ کے ہاتھ سے کنویں میں گر پڑی۔ تمام پانی نکال پھینکا گیا‘ پھر بھی بازیاب نہ ہو سکی۔خورشید رضوی کی مشہور غزل کا شعر یہ ہے : ؎
وہ نگیں جو خاتمِ زندگی سے پھسل گیا 
تو وہی جو میرے غلام تھے، مجھے کھا گئے 
فتنوں کا درکھلنے والا تھا۔ بے پناہ رحمت کا وہ عرصہ سمٹ رہا تھا‘ دیکھنے والے جس میں رحمتہ للعالمینؐ کو دیکھا کرتے ۔ ان سے اکتسابِ نور‘اکتسابِ علم کرتے اور چراغ سے چراغ 
جلاتے۔ وہ لوگ‘ جن کے بارے میں قرآنِ کریم کہتا ہے ''رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ‘‘ اللہ‘ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ۔ ظاہر ہے کہ اہل بیت ان میں شامل ہیں، ان کے سرخیل۔ عالی جنابؐ کا ارشاد ہے کہ ان کے خاندان 
سے حسن سلوک کیا جائے۔ خارجیوں اور بدقسمت لوگوں کے سوا‘آپؐ کا مبارک قول ہر ایک کو یاد رہا۔ جناب عمر ابن عبدالعزیزؒ‘ امام حسینؓ کی صاحبزادی کے ہاں حاضر ہوئے۔ مؤدب کھڑے رہے ، پوچھتے رہے کہ ان کے لیے حکم کیا ہے۔ ہمارے لیے نمونہ وہی ہیں۔ وہ نہیں جو فرقہ وارانہ ردّعمل میں فتوے جاری کرتے ہیں۔ جن کا مسئلہ ان کے مکاتب فکر کے علم بلند رکھنا ہے۔ سرکارؐ اور ان کے خاندان کا علم ہی دائم بلند رہے گا۔ سیدنا ابراہیم ؑ کی دعا نے اگر ایک سلسلہ ء ِنور کو جنم دیا۔ پیغمبروں کی نسلیں‘ ان کے نسب سے اٹھیں تو مقامِ محمود کے حامل ؐ کی دعا کیا باریاب نہ ہوئی ہو گی؟ علی ابن عثمان ہجویری ؒاور شیخ عبدالقادر جیلانیؒ ایسے ‘ انہی کی آل سے ہیں ۔
باایں ہمہ‘ انبیائؑ کے بعد بلند ترین مقام جناب ابوبکر صدیقؓ کا ہے۔ یارِ غار‘دومیں سے دوسرے۔ آپؓ بھی انگوٹھی پہنا کرتے ۔ آپؓ کا قول اس پہ لکھا تھا ''الصّدق ُ یُنجِی وَالکِذبُ یُھلِک‘‘۔ سچ نجات دیتا اور جھوٹ ہلاک کرتا ہے۔
ٹی وی پر جگمگانے والے معروف مفکر کے معروف شاگرد سے ملاقات ہوئی۔ چھوٹتے ہی بولے: آپ حدیث کیوں لکھتے ہیں؟ عرض کیا اور کیا لکھوں؟ بولے: قرآن کریم۔ میں خاموش رہا۔اس دانائی پر کوئی کیا کہے؟سامنے کی بات یہ ہے کہ اللہ کے کلام کو سیرت رسولؐ اور حدیث کے بغیر سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ امام زین العابدینؒ نے فرمایا: اس طرح ہم سیرت پڑھا کرتے‘ جس طرح قرآن پڑھا جاتا ہے۔ شاعر ہی نہیں‘ احمد جاوید تصوف اور تاریخ کے بھی ایک درد مند طالب علم ہیں۔ ان کا ایک شعر یہ ہے: ؎
کاروبارِ زندگی سے جی چراتے ہیں سبھی
جیسے درویشی سے تم‘ مثلاً جہاں بانی سے ہم 
ایک بار مجھ سے کہا: میرے استاد نے کہا تھا: قرآن کریم کو اس طرح پڑھو جیسے حدیث پڑھ رہے ہو۔گویا یہ کہ آپ ؐ کی زبانِ مبارک سے قرآن سن رہے ہو۔ قرآن کریم کے کلام اللہ ہونے کا سب سے بڑا ثبوت اللہ کے رسول ؐ کی مہر ہے۔ وہی ارشاد کیا کرتے کہ یہ وحی کے الفاظ ہیں۔ اگر وہ نہ بتاتے تو کیسے کسی کو خبر ہوتی۔ خود آپؐ کے ارشادات پر بھی‘ قرآن کریم کی مہرثبت ہے۔ ''وما ینطق عن الھویٰ‘ ان ھو الا وحی یوحیٰ ‘‘ ۔ اپنی آرزو سے وہ کوئی بات نہیں کہتے‘ بس وہی کہتے ہیں جو ان پر اتارا جاتا ہے۔ 
جج صاحبان نے کہا کہ خلق کی وہ پروا نہ کریں گے بلکہ قانون اور دستور کی۔ صوفی نے کہا تھا: بندوں سے جب معاملہ ہو تو خود کو بھول جانا چاہئیے ۔ اللہ سے معاملہ ہو تو مخلوق کو بھی۔ججوں کا معاملہ اللہ سے ہے‘ بندوں سے نہیں ۔وہی راہ دکھانے والا ہے، وہی عزت اور توفیق دینے والا۔ عدل کا اللہ نے حکم دیا ہے‘ بندوں نے نہیں ۔ کوئی اخلاقی قدر کسی سیکولر مفکر سے منسوب نہیں۔ تمام اقدار مذاہب سے آئی ہیں۔ اپنی اصل میں جو ایک ہیں۔
منصف اگر سچّے ہیں ...اورمیرا خیال ہے کہ سچّے ہیں ۔توفیق الٰہی کے اگر آرزو مند ہیں۔ دعا کرنی چاہیے کہ آرزو مند رہیں تو وہ سرخرو ہوں گے اور قوم بھی۔ انہیں برکت عطا ہوگی اور اس سرزمین کو بھی۔'' الصّدق ُ یُنجِی وَالکِذبُ یُھلِک‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved