تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     25-02-2017

مدینۃ الحکمۃ اور ویلیج سکول

یہ محض اتفاق ہے کہ میں گزشتہ تین چار ماہ کے دوران پانچ چھ بار کراچی جانا ہوا، بلکہ تین بار تو صرف ماہ فروری میں۔ جب میری بڑی بیٹی آغا خان یونیورسٹی میں ایم بی بی ایس کر رہی تھی تب تو کراچی آنا جانا لگا رہتا تھا مگر ایک ماہ میں تین بار کبھی نہیں۔
کراچی کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا مگر اب اللہ جھوٹ نہ بلوائے، اب روشنیوں کا تو نہیں البتہ کوڑے کرکٹ کے شہر میں ضرور تبدیل ہو چکا ہے، ہر بار پہلے سے زیادہ گندگی اور اڑتے ہوئے شاپر۔ گزشتہ تین چار ماہ میں جب بھی آنا ہوا گندگی میں اضافہ نظر آیا۔ اندازہ ہوا کہ شاید اس دوران کسی نے شہر قائد میں صفائی کا سلسلہ مکمل طور پر موقوف کر دیا ہے۔ اگر اس دوران صفائی ہوتی تو انیس بیس کا فرق تو نظر آتا مگر بہتری ندارد تھی۔ ایک رات شینواری سے رستم لغاری کے ساتھ کھانا کھا کر دیر سے واپس شہر کی طرف واپس آیا تو سارے راستے سڑک کے دونوں طرف گندگی‘ کوڑا کرکٹ اور شاپنگ بیگز اڑتے نظر آ رہے تھے۔ کراچی کبھی اتنا لاوارث نظر نہیں آیا تھا، حتیٰ کہ تب بھی نہیں جب اس شہر پر ہر طرف موت اور خوف و ہراس کے سائے منڈلاتے تھے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ امن و امان کی حالت کافی بہتر ہے لیکن ایک دوست سے بات ہوئی تو کہنے لگا رینجرز نے ملزمان اور مجرمان پکڑے تو ہیں لیکن اس کے بعد راوی حسب معمول چین لکھتا ہے اور اس چین سے مراد جرائم پیشہ‘ بھتہ خور‘ کرائے کے قاتل اور ٹارگٹ کلرز کا چین ہے۔ اجمل پہاڑی سے لے کر دیگر ٹارگٹ کلرز تک کسی کو نہ تو سزا ہوئی ہے اور نہ ہی اس کا کوئی فوری امکان نظر آ رہا ہے۔ گرفتار شدہ سب ٹارگٹ کلرز، بھتہ خور اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث ملزمان جیل میں ہیں، مزے سے ہیں اور عزیر بلوچ ٹائپ گینگ چیف اندر سے اب بھی اپنا نیٹ ورک چلا رہے ہیں۔ دوسرے ملزمان یعنی سرکاری وسائل اور پیسے کی لوٹ مار کرنے والے بھی اندر مزے کر رہے ہیں۔ کوئی جیل کے ہسپتال میں ہے اور کوئی بی کلاس کے مزے لے رہا ہے۔ ان سب کو ملزمان کے بجائے سیاسی انتقام کے زمرے میں لیا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر عاصم سے لے کر ڈاکٹر نثار لورائی تک سب ملک کو لوٹنے والوں میں شامل ہیں، لیکن ان کے سیاسی گاڈ فادر کا کہنا ہے کہ ان کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اس شہر میں جہاں جرائم پیشہ اور بھتہ خوروں کے گروہ کام کر رہے ہیں، جہاں گینگ وار لارڈز اور ٹارگٹ کلرز کے نیٹ ورک چل رہے ہیں وہیں ایدھی‘ چھیپا‘ سیلانی‘ سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن‘ انڈس ہسپتال/ بیت السکون‘ کرن ہسپتال اور دیگر ان گنت افراد اور ادارے اپنی اپنی جگہ خدمت کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
کسی ایک فرد کے قائم کردہ اداروں کے ساتھ تیسری دنیا میں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس کے رخصت ہوتے ہی ادارے کا حال خراب ہونا شروع ہو جاتا ہے اور دو چار سال میں ہی سب کچھ ختم ہو جاتا ہے، امید ہے کہ عبدالستار ایدھی کے بعد فیصل ایدھی اپنے والد کی قائم کردہ ایدھی فائونڈیشن کو اسی طرح چلانے میں کامیاب ہو جائیں گے، لیکن اس میں بھی زیادہ حصہ ان کے مرحوم والد کا ہی ہو گا کہ وہ اس فائونڈیشن کو غیر معمولی انداز میں منظم کر گئے تھے اور معاملات فرد واحد سے ادارے کو منتقل ہونے کا مرحلہ طے کر چکے تھے اس لیے شاید ابھی فوری طور پر تو اس ادارے کو کوئی خطرہ نہ ہو مگر چند سال بعد صورتحال خدانخواستہ تبدیل ہو سکتی ہے۔ کراچی اس لحاظ سے بڑا مردم خیز شہر ہے جو قاتلوں کی یلغار کے باوجود اب بھی ایسے ایسے نابغہ روزگار لوگ اس ملک کو دے رہا کہ انہیں دیکھ کر رشک آتا ہے۔ حکیم محمد سعید شہید بھی ایسی ہی ایک شخصیت تھے جو اس ملک کے لیے انتہائی خلوص اور درد مندی سے سوچتے تھے۔ انہیں اس شہر کے نام نہاد محسنوں نے شہید کر کے اپنے نامہ اعمال کو مزید سیاہ کیا۔ حکیم سعید کو میں اپنے بچپن سے جانتا ہوں، نونہال والا حکیم سعید۔
میں نے حکیم سعید کو پہلی اور آخری بار ملتان میں سنٹرل کالج میں دیکھا اور سنا۔ والد مرحوم ساتھ تھے بلکہ میں ان کے ساتھ تھا۔ والد صاحب تب سنٹرل کالج میں تھے اور اس تقریب کے منتظم بھی۔ حکیم صاحب سے ملاقات ایک یادگار واقعہ تھا۔ ان کی گفتگو کا موضوع صرف پاکستان تھا۔۔۔ اس ملک کی بہتری‘ نئی نسل کی تربیت اور اخلاقیات ۔ دواخانے سے شفا خانے تک اور سکول سے یونیورسٹی تک کا سارا سفر ان کے اسی مشن کا حصہ تھا۔ گزشتہ بار کراچی گیا تو اگلے ہی دن ہمدرد یونیورسٹی کا اکیسواں کانووکیشن تھا۔ میں اسی میں مدعو تھا اور مدعو سے زیادہ از خود اس ادارے کو دیکھنے کا خواہشمند۔
شہر کراچی سے میلوں دور، بلوچستان کی سرحد سے ذرا پہلے، حب ڈیم کے پہلو میں ساڑھے تین سو ایکڑ پر پھیلا ہوا ''مدینۃ الحکمۃ‘‘یعنی شہر علم! اس میں پبلک سکول بھی ہے اور ہسپتال بھی، یونیورسٹی بھی ہے اور ایک ویلیج سکول بھی۔ پبلک سکول تو دیگر سکولوں جیسا ہے تاہم فیس بڑی مناسب اور شہر سے بچوں کو لانے کے لیے بسوں کا ایک پورا فلیٹ مہیا ہے۔ ہسپتال یونانی طریقہ علاج والا اور فیس اتنی کم کہ اسے فیس کہنا زیادتی ہو گی، محض ٹوکن کے طور پر علامتی فیس۔ اسی طرح کی یونیورسٹی، سات ہزار طلبہ و طالبات پر مشتمل وسیع و عریض کیمپس اور ساتھ رہائشی ہسپتال۔ پاکستان کے ہر علاقے کا طالب علم اور ماحول ایسا کہ حکیم سعید کی قومی یکجہتی کے لیے کی جانے والی کاوشوں کا ثمر معلوم ہوا۔ ساڑھے چارکروڑ روپے کے وظائف اور داخلے کامعیار صرف میرٹ۔ کئی شعبے ایسے کہ نان کمرشل اور غیر سرکاری تعلیمی ادارے میں ناپید قسم کے مضامین۔ شعبہ ایسٹرن میڈیسن، ایف ایس سی کے بعد پانچ سالہ کورس، جدید علوم سے ہم آہنگ اور نئی تحقیق سے مزین لیکن جس چیز نے مجھے ذاتی طور پر متاثر کیا وہ تھا ویلج سکول۔
شہر سے چالیس کلو میٹر دور اٹھارہ عدد گوٹھوں کے درمیان مدینۃ الحکمۃ میں قائم اس سکول کا تصور جب حکیم سعید کے ذہن میں آیا تو سب نے کہا کہ یہاں یہ پراجیکٹ چلانا ممکن نہیں کہ براہوی بولنے والے ان گوٹھوں میں تعلیم شجر ممنوعہ ہے اور ایسی کوئی بھی کاوش محض وقت کا ضیاع ہے۔ حکیم صاحب نے اپنی دھن نہ چھوڑی اورگوٹھوں میں جا کر لوگوں کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ اپنے بچوں کو سکول بھیجیں۔ آج حکیم سعید موجود نہیں مگر یہ سکول موجود ہے۔ اس میں ساڑھے چھ سو سے زائد بچے زیر تعلیم ہیں۔ نرسری سے دسویں جماعت تک کے اس سکول میں لڑکیوں کی تعداد لڑکوں سے زیادہ ہے اور یہ ایک ناممکن چیز ممکن ہوتی نظر آتی ہے کہ جہاں لڑکوں کی تعلیم سے سروکار نہ تھا وہاں لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔
اس سکول میں فیس نہیں ہے۔ یونیفارم ‘ بستہ‘ کتابیں اور سٹیشنری سکول کی طرف سے دی جاتی ہیں۔ چھٹی سے آٹھویں تک لڑکے الیکٹریشن کا کورس بطور مضمون اور لڑکیاں سلائی کڑھائی سیکھتی اور دستکاری کی تعلیم لیتی ہیں۔ نویں اور دسویں میں لڑکے موبائل فون رپیئرنگ سیکھتے ہیں۔
تعلیم اور تربیت کا ایسا امتزاج کم ہی دیکھنے میں آیا تھا۔ سکول میں طلبہ کی تعداد اس سال سات سو سے تجاوز کر جائے گی۔ مدینۃ الحکمۃ آج اس مقام پر علم کا چراغ روشن کر رہا ہے جہاں اس کا تصور محال تھا۔ حکیم سعید کی صاحبزادی سعدیہ راشد اور ان کی صاحبزادیاں اس سارے نظام کو چلانے میں نہ صرف کوشاں ہیں بلکہ کامیاب بھی۔
کراچی بیک وقت بدقسمت بھی ہے اور خوش قسمت بھی کہ جہاں چند عشروں سے یہ شہر مردم خوروں کے نرغے میں ہے وہیں خوش نصیب بھی کہ اللہ کریم نے اسے دست قاتل کی توفیق سے کہیں بڑھ کر مردم خیزی عطا کی ہے جس سے اس شہر میں انسانیت اور خدمت کے چشمے آج بھی جاری و ساری ہیں۔ اللہ اس شہر کو آہستہ آہستہ بحال ہوتی روشنیوں کو عہد ماضی کی چکا چوند عطا کرے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved