تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     25-02-2017

یہ بارودی موادکہاں سے آتا ہے؟

پاکستان میں یکے بعد دیگرے جو دہشت پسندانہ دھماکے ہوئے ان میں سینکڑوں کلو بارود استعمال ہوا مگر اردو ٹیلی وژن پر نمودار ہونے والے تجزیہ کاروں نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ اتنا مواد کہاں سے خریدا گیا اور کس طرح اسے لاہور‘ پشاور‘ سہون شریف‘ چار سدہ اور دوسرے مقامات تک پہنچایا گیا؟ لاہور میں چیئرنگ کراس کے بعد ڈیفنس کے علاقے میں بم دھماکے پر بتایا گیا کہ اس میں '' آٹھ تا دس کلو‘‘ بارود استعمال ہوا۔
دھماکہ خیز بارود دراصل ایک بم ساز سفوف ہے جو فوج کے استعمال میں آتا ہے اور جو جنگ و جدل میں بجا طور پر اسے بروئے کار لاتی ہے۔ یہ سفوف کان کنی اور ڈھانے والے دوسرے ضروری مقاصد کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور اسی لئے شہر شہر اس کی دکانیں لگی ہیں۔ دکاندار زیادہ تر TATP (Triacetone triperoxide) بیچتے ہیں اور اس کے لئے انہیں لائسنس لینا پڑتا ہے۔ وہ دوا سازوں کی ضرورت بھی پوری کرتے ہیں‘ جو بارود کو دواؤں میں استعمال کرتے ہیں۔ انہی دکانداروں کی بدولت لاہور کے قدیمی شہر میں ایک پورا محلہ آباد ہے جسے تیزاب احاطہ کہا جاتا ہے۔ بارود مائع شکل میں ہو تو وہ تیزاب بن جاتا ہے۔ اکبری منڈی میں کئی دکانیں تیزاب اور بارود کے لئے مختص ہیں۔ چند سال قبل ایک دہشت گرد نے اعتراف کیا تھا کہ اس نے اپنا بارود اکبری منڈی سے خریدا تھا۔ خریدار بظاہر معصوم د کھائی دیتا تھا۔
پیرس حملوں میں آٹھوں حملہ آوروں نے ایک ہی طرح کی خود کش واسکٹ پہن رکھی تھی جو دھماکہ خیز مواد سے لیس تھے۔ ان میں سے سات نے اپنے آپ کو اڑا لیا۔ اس کے بعد ہی ڈونلڈ ٹرمپ نے منصب صدارت کا ارادہ پختہ کیا تھا۔ ٹیٹ پی پہلے سے پھٹنے کے لئے اس قدر تیار ہے کہ دہشت گردوں نے اسے ''شیطان کی 
خالہ‘‘ کہنا شروع کر دیا ہے۔ یہ مواد ہائڈروجن پراوکسائڈ اور اکوٹون کو ملا کر بنایا جاتا ہے اور اس میں تیزاب (آکسائڈ) ڈالا جاتا ہے مثلاًسلفیورک‘ نائٹریٹ یا ہائڈروکلورک۔ نام نہاد شو بمبار رچرڈ ریڈ نے پیرس تا میامی پرواز کے دوران یہ مواد آزمانے کی کوشش کی تھے جو ناکام رہی۔ یہی دھماکہ خیز مواد لندن پر آگ برسانے کی ناکام کوشش میں استعمال کیا گیا تھا۔ 2009ء میں کرسمس کے دن ''انڈر ویئر‘‘ بمبار نے بھی ایمسٹرڈیم تا ڈیٹرائٹ اپنی پرواز میں یہی مواد استعمال کرنے کی کوشش کی‘ مگر پکڑا گیا۔ یہ جیکٹ یا بم بنانا آسان نہیں۔ اس میں بال بیئرنگ نٹ بولٹ اور ایسا دوسری اشیا ڈالنی ہوتی ہیں جو بم چلتے ہی آس پاس کے لوگوں کو شکار کریں۔ اس سال کے شروع میں بلجیم کے کمانڈو نے کہا کہ وسیع پیمانے کے مجوزہ حملوں کو منظم کرنے کی دہشت پسندانہ کاوش ناکام بناتے ہوئے انہوں نے ٹی ایٹ پی کے لئے مواد حاصل کیا حالانکہ ٹی اے ٹی پی کے لئے مواد حاصل کرنا مشکل نہیں‘ بہ نسبت حساس دھماکہ خیز مواد کے جس کے لئے آدمی کا کاریگر ہونا ضروری ہے۔
انتہا پسند دہشت پھیلانے کے لئے مختلف حربے استعمال کرتے ہیں: مثلاً بمباری‘ راکٹ اور مارٹر توپوں سے حملے‘ گاڑیوں پر نصب بارود‘ ہوائی حملے اور ہائی جیکنگ‘ کیمیاوی اور حیاتیاتی ہتھیار‘ خوف و ہراس‘ سائبر دہشت‘ روایتی ہتھیار‘ زراعتی دہشت گردی جس میں جان بوجھ کر کھڑی فصلوں یا زندہ جانوروں کی کوئی بیماری پھیلا دی جاتی ہے۔ ایک قسم جوہری دہشت گردی جس میں کسی ریاست کا مواد چرا کر اسے دھمکایا جاتا ہے۔ ایسا واقعہ اب تک نہیں ہوا مگر اس کا اندیشہ ہے۔ خود کشی حرام ہونے کے باوجود عام ہے اور لاہور اور سہون شریف میں بروئے کار لائی گئی۔ اس واقعات کے لئے تیار کرنے کے لئے مذہب کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ یہ بتایا جاتا ہے کہ زندگی حقیر شے ہے‘ آنی جانی چیز ہے۔ انسان کا مستقل مقام جنت ہے جہاں حوریں اس کا استقبال کرنے کے لئے بیتاب رہتی ہیں اور اپنے آپ کو دھماکے سے اڑا کر جونہی وہ ابدی جگہ پہنچتا ہے یہ پاک روحیں اسے اپنی بانہوں میں لے لیتی ہیں۔ ان خود کش حملہ آوروں کی تربیت (برین واشنگ) کرنے والے انہیں یہ سبق بھی پڑھاتے ہیں کہ آپ کے اہداف گو مسلمان کہلاتے ہیں مگر وہ ایسے ہیں نہیں‘ اس لئے انہیں مارنا جائز ہے۔ اس قسم کی دہشت گردی آسان اور ممکن ہے اس لئے وہ 1980ء کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ رضا کار بکثرت مل جاتے ہیں۔ ایسی دہشت گردی کا آغاز غیر مذہبی تھا جو ایک کرسچیئن فلسطینی لیلیٰ خالد نے ایک اسرائیلی طیارہ اغوا کرکے کیا۔ رفتہ رفتہ یہ تحریک غیر مذہبی نہ رہی۔ آزادی کے شیروں یا ولو بھائی پربھاکرن نے شمال مشرقی سری لنکا میں LTTE کے نام سے ایک تحریک چلائی جو (1983-2009ء) بیس سال سے زیادہ عرصہ جاری رہی۔ یہ تحریک‘ جو مارکس ازم سے بھی متاثر تھی‘ در اصل مذہبی تھی مگر انہوں نے ملک کی ہندو اکثریت سے یہ امر پوشیدہ رکھا۔ ہندوستان مخمصے کی حالت میں تھا۔ بالآخر یہ تحریک مو ہن داس راجاپاسا کی سویلین حکومت سے شکست کھا گئی۔ شمالی آئرلینڈ میں صدیوں پرانے کیتھولک اور پرو ٹسٹنٹ کے خونریز نزاع کا خاتمہ تو ابھی کل کی بات لگتی ہے۔
افغانستان پر پاکستان کا حملہ بھی خانہ جنگی کی طرح ہے۔ افغانوں نے لاہور اور سہون پر خود کش 
یلغار کی اور تقریباً سو افراد کو شہید کر دیا۔ اگلے دن فوجی تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل نے بیان دیا کہ پاکستانی طیاروں اور توپوں نے سو سے زیادہ افغانوں کو بھون ڈالا ہے۔ اگر ''مشترکہ دشمن‘‘ سے مراد طالبان ہیں تو افغان حکومت کو اس پر زیادہ خوشی نہیں ہو گی۔ پاک فوج نے سارے ملک میں آپریشن ''ردالفساد‘‘ شروع کرکے اندرونی معاملات پر توجہ دی ہے جو خوش آئند ہے۔ افغانستان اور پاکستان دونوں دہشت گردوں کی زد میں ہیں اور امریکی فوج‘ افغانستان میں پہرہ دے رہی ہے۔ پاکستان میں کارروائی سے کیڑے نکالے جا رہے ہیں۔ خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں اختلاف کی اس لہر کو قبائلی انصاف کے مترادف کہا گیا اور یہ لہر پنجاب تک آ پہنچی ہے۔ انتقام تو ہمارے رسولﷺ نے منع کیا تھا۔ دیکھئے ''آخری خطبہ ‘‘۔ جنگیں قومی اتحاد کی بنا پر لڑی جاتی ہیں۔ اگر افغا نستان جوابی اقدام نہیں کرتا تو جنرل باجوہ کو ہاتھ کھینچ لینا چاہیے۔ افغانستان دکھی ہے۔ ایک لاکھ سے زیادہ افغان‘ پاکستان میں پناہ گزین ہیں۔ دونوں کے ہاں ففتھ کالم بھی ہے جسے ''اثاثے‘‘ کہا جاتا ہے۔ وہ آخری تصفیے تک اس کی حفاظت پر مجبور ہیں۔ ایک تہائی رقبے پر انتہا پسندوں کا قبضہ ہے۔ اْنہیں واپس اپنے گھروں کو دھکیلنے والے پاکستانی حکام کو یاد رکھنا چاہیے کہ اکثر افغان پناہ گیر ہیں۔ پاکستان میں بھی تعلیم‘ صحت‘ پانی اور بجلی کی سہولتوں کا فقدان ہے‘ پھر بھی وہ ایٹمی طاقت ہے۔ روس نے پہلی بار سہون کے سانحے پر تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ اس سے زیادہ توقع بھی کی جا سکتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved