تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     25-02-2017

قومی بیانیہ… (حصہ اول)

بیانیہ یا Narrativeہماری سیاست وصحافت کی نئی اصطلاح ہے جو اکیسویں صدی میں متعارف ہوئی ،اس سے پہلے شاید کہیں اس کا ذکر آیا ہو ،لیکن ہمارے مطالعے میں نہیں آیا ۔البتہ ایک نئے ''عُمرانی معاہدے‘‘(Social Contract) کی بات کی جاتی رہی ہے ،حالانکہ کسی ملک کا دستور ہی اُس کا عُمرانی معاہدہ ہوتا ہے اور پاکستان کا دستور اتفاقِ رائے سے 14اگست 1973ء کو نافذہوا اور اُس کے بعد سے اب تک اُس میں 22ترامیم ہوچکی ہیں ۔اٹھارہویں ترمیم نے اِسے فیڈریشن سے کنفڈریشن کی طرف سرکا دیا ہے ۔
7ستمبر2015ء کو وزیرِ اعظم ہاوس اسلام آباد میں منعقدہ اجلاس میں قومی بیانیہ ترتیب دینے کے لیے ایک مندرجہ ذیل افراد پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی گئی تھی :مفتی منیب الرحمن ،مفتی محمد تقی عثمانی، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری ،مولانا قاضی نیاز حسین نقوی، مولانا یاسین ظفراور مولانا عبدالمالک۔
میں نے بنیادی مسوّدہ ترتیب دیا ،مولانا قاری محمد حنیف جالندھری شریکِ کار تھے ،پھر اُسے پانچوں تنظیمات کے اکابر کے پاس بھیجا ۔انہوں نے اس کا مطالعہ کیا ،بعض نے کچھ ترامیم تجویز کیں ،کچھ حذف واضافہ کیا اور پھر میں نے حتمی مسودہ 22اکتوبر 2015ء کوکوآرڈی نیٹر نیکٹا جنابِ احسان غنی کو ارسال کیا کہ وہ متعلقہ اہلِ اقتدار کو اِسے دکھادیں اور اگر وہ اس میں کوئی ردّوبدل چاہیں تو اس کی نشاندہی کردیں ۔میں نے اِسے اُس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جناب جنرل رضوان اختر کو بھی ارسال کیا کہ اگر اس میں وہ اپنا کوئی حصہ ڈالنا چاہیں یا کوئی اضافہ مطلوب ہو تو مطلع کریں ، ہم باہمی مشاورت سے اسے حتمی شکل دیں گے۔ اس دوران میڈیا پر وقتاً فوقتاً بیانیہ کا ذکرآتا رہا ،لیکن سرکار کی طرف سے کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔اُس کی وجہ یہ ہے کہ حکومتِ وقت کے لیے آئے دن کوئی نیا مسئلہ پیدا ہوجاتاہے یا کوئی نئی اُفتاد نازل ہوجاتی ہے ، انہیں ان چیزوں پر غور کی فرصت ہی نہیں ملتی اور نہ ہی وہ اسے سنجیدگی سے لیتے ہیں ۔چونکہ ہمارے میڈیا کے کرم فرماحضرات کا ہدف مدارس اور اہلِ مدارس ہوتے ہیں ،اس لیے وہ مشقِ ستم فرماتے رہتے ہیں ۔اُن پر نہ کوئی ذمے داری عائد ہوتی ہے ،نہ اُن کے لیے حُبُّ الوطنی کا کوئی معیار ہے ،نہ ہی ملکی سلامتی کے حوالے سے اُن پر کوئی قید وبند عائد کی جاسکتی ہے ،اُن کی زبان کی کاٹ سے ویسے ہی اہلِ اقتدار لرزاں وترساں رہتے ہیں ،خواہ وہ اقتدار میں ہوں یا اقتدار کی آرزو میں بیٹھے ہوں ۔سو ایک کمزور طبقہ مدارس واہلِ مدارس کا رہ جاتا ہے جس پر مشقِ ناز کی جائے اور یہ بھی اُن کی خواہش رہتی ہے کہ سب کو ایک لاٹھی سے ہانکا جائے اور جتنا ہوسکے ان کی مُشکیں کَسی جائیں ۔لہٰذا ہم نے اپنے تناظر میں یہ بیانیہ ترتیب دیا ۔دو تین ماہ قبل بیانیہ ترتیب دینے کے لیے اہلِ عقل ودانش کی کوئی مجلس ترتیب دی گئی اور ظاہر ہے کہ بنیادی قرطاسِ عمل اِسی عاجز کا ترتیب دیا ہوا تھا ،بیرونِ ملک سفر کی وجہ سے میں خود اِن دانائے روزگار اشخاص کی دانش سے مستفید نہ ہوسکااور محروم رہا۔
البتہ طیور کی زبانی جو اڑتی سی خبر ملی ،وہ یہ تھی کہ نفاذِ شریعت کے مطالبے کا بیانیے سے تعلق نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی ایسی کوئی ہوا اُسے لگنی چاہیے ۔ہمیں حیرت ہے کہ جمہوریت کے نام پر کوئی بھی مطالبہ کیا جاسکتا ہے ،لیکن نفاذِ شریعت کا مطالبہ کرنے کی جمہوریت میں بھی اجازت نہیں ہے ،سو جمہوریت اور جمہوری اَقدار کس چڑیا کا نام ہے ،یہ بھی ہمیں معلوم نہیں ہے۔ویسے تو اسرائیل میں بھی مذہبی جماعتیں سیاسی دوڑ میں شامل ہیں ،جرمنی میں کرسچین ڈیموکریٹس کے نام سے جماعت قائم ہے اور اِن سے اُن کے نظام کو خطرہ لاحق نہیں ہوتا ،مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نفاذِ شریعت کا مطالبہ کرنے سے ریاست کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں ۔ہمارا مرتّبہ بیانیہ درج ذیل ہے:
ہمارے وطنِ عزیز میںگزشتہ ڈیڑھ عشرے سے داخلی طور پرتخریب وفساد، دہشت گردی اور خروج و بغاوت کی صورتِ حال ہے اوراس کے بار ے میں دینی لحاظ سے لوگوں کے ذہنوں میں طرح طرح کے ابہامات اوراشکالات واردہو رہے ہیں۔بعض حضرات یہ تاثردیتے رہتے ہیں کہ اس ذہنی نہادکے پیچھے مذہبی محرکات کا رِفرما ہیں اور انہیں دینی مدارس و جامعات سے بھی کسی نہ کسی سطح پر تائید یا ترغیب ملتی رہی ہے۔لہٰذا ہماری دینی اور ملی ذمے داری ہے کہ اس کے ازالے اور حقیقتِ حال کی وضاحت کے لیے اپنا شرعی موقف واضح کریں اور اسی بنا پر ہم نے اسے قومی بیانیے کاعنوان دیا ہے،پس ہمارا موقف حسبِ ذیل ہے:
(1)اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے، جس کے دستور کا آغاز اس قومی وملی میثاق سے ہوتا ہے :''اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کل کائنات کا بلاشرکتِ غیرے حاکم ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیارو اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہے، وہ ایک مقدس امانت ہے‘‘۔ نیز دستورمیں اس بات کا اقراربھی موجود ہے کہ اس ملک میں قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا اور موجودہ قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالا جائے گا ۔ اگر چہ دستور کے ان حصوں پر کما حقہ عمل کرنے میں شدید کوتاہی رہی ہے ، لیکن یہ بے عملی ہے اور اس کوتاہی کی بنا پر ملک کی اسلامی حیثیت اور اسلامی اساس کا انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ لہٰذا اس کی بنا پر ملک، حکومتِ وقت یا فوج کو غیر مسلم قرار دینے اور ان کے خلاف مسلح کارروائی کا کوئی شرعی جوازنہیں ہے ۔ 
(2)پاکستان کے آئین وقانون کے دائرے میں رہتے ہوئے نفاذِ شریعت کی پر امن جدِّو جُہد کرنا ہر مسلمان کی دینی ذمے داری ہے، یہ پاکستان کے دستور کا تقاضا بھی ہے اور اس کی دستورمیں کوئی ممانعت نہیں ہے ۔ ہماری رائے میں ہمارے بہت سے ملکی اورملّی مسائل کا سبب اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد سے روگردانی ہے ۔حکومت اس حوالے سے پیش رفت کرتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بینچ کو فعال بنائے اور اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کی سفارشات پر مبنی قانون سازی کرے، جو کہ دستوری تقاضا ہے ۔ 
نفاذِ شریعت کے نام پر طاقت کا استعمال ، ریاست کے خلاف مسلح محاذ آرائی ،تخریب و فساد اور دہشت گردی کی تمام صورتیں جن کا ہمارے ملک کو سامنا ہے ، حرام قطعی ہیں، شریعت کی رو سے ممنوع ہیں اور بغاوت کے زمرے میں آتی ہیں ۔یہ ریاست ، ملک و قوم اور وطن کو کمزور کرنے کا سبب بن رہی ہیں، عدمِ استحکام سے دو چار کر رہی ہیں ، تقسیم در تقسیم اور تفرقے کا باعث بن رہی ہیں اور ان کا تمام تر فائدہ اسلام دشمن اور ملک دشمن قوتوں کو پہنچ رہا ہے۔ لہٰذا ریاست نے ان کو کچلنے کے لیے ضربِ عَضب کے نام سے جو آپریشن شروع کر رکھا ہے اور قومی اتفاقِ رائے سے جو لائحہ عمل تشکیل دیا ہے ، ہم اس کی مکمل حمایت کرتے ہیں ۔ اب ہماری مسلّح افواج نے ایک نئی مہم شروع کی ہے ،جس کا عنوان ہے: ''رَدُّ الفَسَاد‘‘،ہم اس کی بھی حمایت کرتے ہیں۔ 
(3)اکیسویں آئینی ترمیم میں جس طرح دہشت گردی کو''مذہب و مسلک کے نام پر ہونے والی دہشت گردی‘‘کے ساتھ خاص کر دیا گیا ہے، اس کے بارے میں ہمارے تحفظات ہیں۔ دہشت گردی اور ملک کے اندر داخلی فساد کی باقی تمام صورتوں کو یکسر نظر انداز کر دینامذہب کے بارے میں نظریاتی تعصب کا آئینہ دار ہے اور اس امتیازی سلوک کافوری تدارک ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے باوجود دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم ریاست اور مسلح افواج کے ساتھ کھڑے ہیں اور اس سے ملک میں قیامِ امن کے لیے ہمارے عزم میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا ۔ دہشت گردی کی تازہ لہر کے بعد بھی معلوم ہوا ہے کہ ہماری لبرل جماعتیں مذہب اور اہلِ مذہب کو ہدفِ خاص بنانے کے مطالبے سے پیچھے ہٹنے کو آمادہ نہیں ہیں اوراِسی لیے تئیسویں ترمیم پر اتفاق رائے نہیں ہوپارہا،اگرچہ اس اختلاف کا سبب در اصل ان کی ایک دوسرے سے شکایات ، گِلے شکوے اور کچھ خدشات ہیں۔
(4)تمام مسالک کے نمائندہ علماء نے2004ء میں اتفاقِ رائے سے شرعی دالائل کی روشنی میں قتلِ ناحق کے عنوان سے خود کش حملوں کے حرامِ قطعی ہونے کا جو فتویٰ جاری کیا تھا، ہم اس کی مکمل تائید و حمایت کرتے ہیں۔نیز لسانی علاقائیت اور قومیت کے نام پر جو مسلح گروہ ریاست کے خلاف مصروفِ عمل ہیں، یہ بھی قومی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کا سبب ہیں اور شریعت کی رو سے یہ بھی ممنوع ہے، لہٰذا ضربِ عضب کا دائرہ ان سب تک وسیع کیا جائے۔ 
(5)مسلمانوںمیں مسالک و مکاتب ِ فکرقرونِ اُولیٰ سے چلے آ رہے ہیں اور آج بھی موجود ہیں۔ ان میں دلیل و استدلال کی بنیاد پرفقہی اورنظریاتی ابحاث ہمارے دینی اور اسلامی علمی سرمائے کا حصہ ہیں اور رہیں گی ۔ لیکن یہ تعلیم وتحقیق کے موضوعات ہیں اور ان کا اصل مقام درس گاہ ہے۔ اِن کو پبلک یا میڈیا میں زیرِ بحث لانا بھی انتشارپیدا کرنے اور وحدتِ ملی کو نقصان پہنچانے کا سبب ہے۔ اِن کو انتظامی اور انضباطی اقدامات سے کنٹرول کرنا حکومت کی ذمے داری ہے۔اس سلسلے میں میڈیا کے لیے ضابطہ اخلاق یا قانون بناکر اسے سختی سے نافذ کرنا بھی حکومت کی ذمے داری ہے اور اس کے لیے وہ کوئی تعزیری اقدام بھی تجویز کر سکتی ہے ۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved