پاک فوج کی طرف سے آپریشن ''ردّالفساد‘‘ کا اعلان کیا گیا تو وزیر اعظم ترکی کے دورے پر تھے۔ کئی بغلیں بج اُٹھیںکہ ان کی غیر حاضری کا ''فائدہ‘‘ اُٹھاتے ہوئے پیش قدمی کر ڈالی گئی۔ حکومت کی بے چارگی کو بیانات اور تجزیوں کا موضوع بنا لیا گیا، بندوقوں کے سر سہرا سجانے (اور گانے) والے ایک بار پھر سرگرم ہو گئے۔ وزیر اعظم کو انقرہ میں پاکستانی اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے واضح کرنا پڑا کہ چند روز پیشتر وزیر اعظم ہائوس میں صلاح مشورے کے بعد یہ فیصلہ ہوا تھا، گویا یہ کسی ادارے کی یک طرفہ کارروائی نہیں، قومی قیادت کا سوچا سمجھا فیصلہ ہے اور وہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ہر حد تک جانے اور ہر قدم اٹھانے پر تیار ہے۔
جنرل راحیل شریف کے زیرِ قیادت جب آپریشن ضربِ عضب کاآغاز ہوا تھا اُس وقت بھی کئی عناصر دور و نزدیک سے یہ کوڑیاں لانے میں مشغول ہو گئے تھے کہ فوج نے حکومت سے بالا ہی بالا، یعنی آنکھ چرا کر یہ اقدام کر ڈالا ہے۔ جنرل راحیل شریف کی فتوحات کی تفصیل اِس طرح بیان کی جاتی رہی کہ جس سے سیاسی حکومت کی پسپائی (بلکہ رسوائی) کا تاثر پھیلے۔ طعنے دیے جاتے رہے کہ حکمران تو طالبان سے مذاکرات پر تلے ہوئے تھے، فوجی قیادت نے آگے بڑھ کر دہشت گردوں کی کمر توڑ دی۔ بدقسمتی سے بعض ایسے حلقے بھی اِس مہم جوئی میں شریک ہو گئے جو عسکری ذرائع سے قربت کا تاثر دیتے تھے یا اُن کے بزعم خود ترجمان بنے ہوئے تھے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ جنرل راحیل شریف اپنی شخصیت اور اسلوب کی بدولت آنکھوں کا تارا بن رہے تھے، لیکن وہ سیاست کے میدان میں نبرد آزما نہیں تھے۔ انہیں کسی کا حریف یا حلیف قرار دے کر محدود کرنا کسی بھی طور پر اجتماعی مفاد میں نہیں تھا۔ پھر بھی ان سے قوم کی قیادت کی امیدیں باندھی یا بندھوائی جا رہی تھیں۔ پُراسرار پوسٹر پاکستان بھر میں بار بار نمودار ہوتے اور دیواروں کو ڈھانپتے رہے۔
یہ تاثر دیا جاتا رہا کہ فوج اور حکومت ایک دوسرے سے الگ ہیں اور فاصلے پر بھی ہیں۔ ان کو ایک صفحے پر نہ لایا جا سکتا ہے، نہ سمجھایا جا سکتا ہے۔ ٹی وی سکرینوں پر بھی ''امیدیں‘‘ پھیلی ہوئی تھیں اور بعض اخباری کالموں میں بھی حکومت کو فوج سے ڈرانے کا عمل جاری تھا۔ ریٹائرڈ فوجی افسران سونے پر سہاگہ تھے، وہ ایسے نکتے اٹھاتے اور ''اندر کی بات‘‘ اِس طرح پھیلاتے کہ وزیر اعظم نکوّ بنے نظر آئیں۔ کوئی کیڑا ایسا نہیں تھا جو وزیر اعظم میں ڈالا نہ گیا ہو اور پھر برسر عام نکالا نہ گیا ہو۔ زہر اگلنے والی زبانیں دراز تھیں اور دشنام طرازی کا ایسا ایسا مظاہرہ کیا جا رہا تھا کہ انگلیاں دانتوں میں دبی رہ جاتی تھیں۔ مجہول النسب کارندے جھوٹ کو سچ بنا کر پھیلاتے اور کوئی ان کو روکنے والا نظر نہ آتا۔ دھرنا سیاست اور اس کے نادیدہ سرپرستوں نے انتظامی ڈھانچے کو ہلا کر ر کھ دیا، افراتفری، بلکہ طوائف الملوکی پھیلانے کی کوشش زوروں پر رہی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اٹھارہویں ترمیم نے صوبائی خود مختاری کے نام پر کئی چولیں ہلا دی ہیں۔ تعلیم، صحت اور سیاست کا اس طرح قیمہ بنایا گیا ہے کہ خود قیمہ بنانے والے اس پر حیرت زدہ ہیں۔ کئی دوستوں نے تو تیسری بار وزیر اعظم بننے کی پابندی ختم کرانے کے لئے ریاستی ڈھانچے کے وسیع تر مفادات پر نظر ہی نہیں ڈالی۔ بند کمرے میں اُونگے بونگے نکتوں کو بھی تقدس بخش دیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صوبوں کے اختیارات تو وسیع ہو گئے، لیکن وہ ذمہ داریاں اٹھانے پر تیار نہیں۔ ہر مشکل میں انگلی وفاق کی طرف اٹھا دیتے ہیں، اپنے مسائل کی جڑ قرار دے کر باچھیں پھیلا لیتے ہیں۔ رہی سہی کسر دھرنا سیاست اور اُس کی نادیدہ سرپرستی نے پوری کر دی۔
آپریشن ضربِ عضب کے مفید اثرات کا انکار ممکن نہیں، یقینا اس سے دہشت گردوں پر کاری ضرب لگائی گئی۔ شمالی وزیرستان میں ان کے محفوظ ٹھکانے ختم ہوئے، مُلک بھر میں ان کی یلغار رک گئی، لیکن انتظامیہ کا تحکم قائم کرنے (یا رکھنے) کی ضرورت کا احساس نہیں کیا جا سکا۔ صد شکر کہ اب ہم ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں۔ آپریشن ''ردالفساد‘‘ کے تحت بری، فضائی اور بحری افواج نے مل کر نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کا عہد کیا ہے۔ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے اور مُلک کو اسلحے سے پاک کرنے کا عزم بھی جواں ہے۔ پنجاب میں رینجرز کی طلبی کے بعد تو اب کسی بھی کارروائی کے راستے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی، لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ معاشرے کو سب سے زیادہ ضرورت تنظیم کی ہے۔ حکومتی رٹ قائم نہ رہے تو کچھ بھی قائم نہیں رہتا۔ اس کے لئے حکمرانوں کو جہاں اپنی اخلاقی برتری ثابت کرنا ہوتی ہے، اپنے ایک ایک قول اور فعل سے جوابدہی، ذمہ داری اور دیانتداری کا تصور مستحکم کرنا پڑتا ہے، وہاں انہیں کردار کشی کی منظم مہم سے بھی محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔ تنقید ضرور ہونی چاہئے، لیکن اس کا لہجہ شائستہ، مواد ٹھوس اور دلائل مضبوط ہوں۔ گالی اور تہمت کو تنقید نہیں کہا جا سکتا۔ قانون کی کتاب میں ہتک عزت کا ارتکاب کرنے والوں کے لئے سزائیں لکھی ہوئی ہیں، لیکن بدقسمتی سے پاکستان کا نظام عدل اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے میں بُری طرح ناکام ہو چکا ہے۔
آپریشن ''ردالفساد‘‘ کا ہدف وہ عناصر بھی ہونے چاہئیں، جو ریاستی اداروں کو تقسیم کرنے اور ایک دوسرے کے خلاف صف آرائی کی ترغیب دیتے رہتے ہیں۔ ریاست کے لئے سول انتظامیہ بھی اتنی ہی ضروری ہے، جتنی کہ فوج۔ وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ، گورنر، قائدین حزب اختلاف سب کو اپنے وقار کی حفاظت کرنی چاہئے اور ان کے بارے میں زبان کھولنے والوں کو بھی بے لگام نہیں رہنا چاہئے۔ اوئے، توئے کی سیاست کسی کے مفاد میں نہیں، اس کے سہولت کار بھی اتنے ہی بڑے مجرم ہیں، جتنے بڑے خود کش حملہ آوروں اور دہشت گردوں کے معاون اور سرپرست۔ اے اہل ''ردّالفساد‘‘ ایک ردّا اس طرف بھی۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)